حکومت کا آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ مناسب ہے۔ ہم نہ صرف اس کی تائید کرتے ہیں بلکہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس کے علاوہ ہمارے سامنے کوئی اور راستہ نہیں تھا لیکن یہ کام جس انداز میں کیا گیا ہے اور اس مقام تک پہنچنے میں حکومت نے اپنی سوچ اور طرز حکومت کے بارے میں جو عملی آثار چھوڑے ہیں وہ مایوس کن ہیں۔ ہم اس سارے عمل کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔ حکومت نے اس فیصلے کو کرنے میں اپنی مدت کے 50 سے زیادہ قیمتی دن صرف کردئیے نہ صرف یہ بلکہ اس دوران میں کوئی متبادل معاشی تصور بھی سامنے نہیں لایا گیا جس سے مارکیٹ اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچا اور بے چینی پھیلی۔
ایک بڑے عرصے تک یہ بیانیہ چلتا رہا کہ دوست ممالک کی مدد کو ترجیحاً بروئے کار لایا جائیگا اور آئی ایم ایف کا متبادل اس کے بعد دیکھا جائیگا۔ دوستوں کی مدد کا انتظار اور اس کی نوعیت سے متعلق ابہام ایک عرصہ تجزیہ نگاروں کا موضوع سخن بنا رہا۔ ان کی قیاس آرائیاں اور حکومتی اہلکاروں کے متضاد بیانات اور پالیسی سازی میں تذبذب لوگوں میں اضطراب پھیلانے لگا۔ درحقیقت یہ اس سیاسی بیان بازی کا شاخسانہ تھا جس میں قرضوں کے بوجھ کی بھیانک تصویر پیش کی جاتی تھی اور اس کا عہد کیا جاتا تھا کہ قرضوں کے بغیر معیشت کو چلایا جائے گا۔ انفرادی اور اجتماعی قرض کی تفریق کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ لیکن معاشی حقیقتوں کا جبر بھی طبیعات کے اصولوں سے ملتا جلتا ہے۔ ‘‘پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے ’’ کے مصداق اسٹاک مارکیٹ اور شرح تبادلہ پر دباؤ بڑھتا جارہا تھا اور بالاخر 8 اکتوبر کو اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا ایسا ریلہ آیا جس نے اس عالمِ گومگو کا خاتمہ کردیا اور حکومت نے ڈرامائی انداز میں یہ اعلان کردیا کہ وہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کا آغاز کر رہی ہے۔
اس تاخیر کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نئی حکومت کی معاشی ٹیم نے انتخابات میں کامیابی کے بعد دنیا میں جو ایک رعب و دبدبہ اور نیک نامی حاصل کی تھی اس میں کمی آگئی ہے، ان کی تنظیمی صلاحیتوں اور اہلیت سے لوگ مایوس ہوئے ہیں۔ ساری دنیا جان گئی ہے کہ آپ نے اس راستے کا انتخاب شرح صدر کی وجہ سے نہیں بلکہ کراہت سے اور اضطراری حالت میں کیا ہے، لہذا آپ کی مدد کرنے والے چاہیں گے کہ آپ سے سخت شرائط پر معاملہ کیا جائے کیونکہ انہیں خدشہ ہوگا کہ آپ بہت جلد پرانی سوچ کیطرف روانہ ہوجائیں گے۔
آئی ایم ایف سے مذاکراتی عمل میں جو مشکلات سامنے آنی ہیں۔ اس کا اندازہ کرسچین لیگارڈ اور امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان کے بیانات سے بخوبی ہوسکتا ہے۔اس سب کے علی الرغم ہم حکومت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ اس نے یہ صحیح فیصلہ کیا ہے۔ اس نئے سفر میں کئی اہم مقامات آنے ہیں جو بہت دقت طلب ہونگے اور صبر آزما محنت کا تقاضہ کرینگے۔ سب سے پہلے تو مذاکرات کے ذریعے ایک ایسا پروگرام حاصل کرنا چاہیے جو حقیقت پسندانہ اور قابل عمل ہو۔ اس ضمن میں تین اہم عناصر: (ا) اس پروگرام کا سائز؛ (ب) اس کی مدت؛ اور (ج) اس میں شامل پالیسی شرائط ہیں۔ جہاں تک پروگرام کا سائز ہے اس میں اس بات کو ملحوظ رکہا جانا چاہیے کہ پروگرام کی مدت کے دوران خود آئی ایم ایف کے واجب الادا قرضوں کی ادائیگی ممکن ہوسکے، جیسا کہ گزشتہ پروگرام میں بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس وقت یہ واجب الادا قرضہ 42 ارب ڈالر تھا اور پروگرام کے تحت 64 ارب ڈالر فراہم کیے گئے تھے۔ آج یہ قرضہ 64 ارب ڈالر کا ہے اور اس سال ہی اس کی نصف ارب ڈالر کی قسط ادا ہونی ہے، لہذا ہمیں اس سے کہیں زیادہ قرضے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حال میں آئی ایم ایف میں ہمارا کوٹہ بڑھ گیا ہے، جو اب 29 ارب ڈالر کا ہوگیا ہے۔ گزشتہ پروگرام میں ہمیں قرضہ اپنے کوٹے کا 400 فیصد قرضہ دیا گیا تھا۔
اس سے پہلے 2008 میں ہمیں 700 فیصد کا قرض ملا تھا۔ لہذا ہمیں کم از کم 400 فیصد کا تقاضا کرنا چاہیے، جو تقریباً 16 ارب ڈالر بن جائیگا اور اس کے ساتھ جب ورلڈ بینک اور ایشین بینک کی مدد شامل ہوگی تو یہ 18 ارب کا پیکج بن سکتا ہے۔ اگر یہ ممکن ہوا تو اس سے ہماری معیشت کی کایا پلٹ جائیگی اور مارکیٹ اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوجائیگا۔ بعد ازاں ہماری منفی کریڈٹ ریٹنگ کی اصلاح بھی ہو جائیگی۔ مدت کے لحاظ سے پروگرام کی دو اقسام ہیں: قلیل مدتی اور وسط مدتی۔ اول الذکر ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ مدت کا ہوتا ہے جبکہ ثانی الذکر تین سالوں پر محیط ہوتا ہے، جیسا کہ مسلم لیگ نون کی حکومت نے کیا تھا۔ اب ان دونوں میں بڑا فرق پالیسی شرائط کا ہوتا ہے جو وسط مدتی میں نسبتاً زیادہ ہوتی ہیں۔ ہماری نظر میں تین سالہ پروگرام اس وقت ہماری ضرورت سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ ہم نے ایک کامیاب پروگرام کے بعد مالی نظم و ضبط کو توڑ کر اپنی معیشت کو پھر اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں وہ پانچ سال پہلے کھڑی تھی۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ حکومت اصلاحات کا ایک جامع اور بھرپور عمل شروع کرے جس کو آئی ایم ایف کا پروگرام سپورٹ کرے اور اس سے ایک بیمار معیشت کو صحت مند اور توانا بنا کر کھڑا کردیا جائے۔ پالیسی شرائط کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں ٹیکسوں کا نظام، اخراجات، نجکاری، توانائی، بینکنگ، مالیات، مرکزی بینک کی خود مختاری، کارپوریٹ سیکٹر اور منی لانڈرنگ کے شعبوں سے متعلق امور شامل ہونگے۔ ہم مختصراً چند اہم ترین اصلاحات کا ذکر کرتے ہیں۔ ٹیکس نظام کی کارگردگی میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ تیسرا مالی سال ہے جب ٹیکس آمدنی میں اضافہ صرف آٹھ فیصد رہا ہے جبکہ ملک میں مجموعی آمدنی میں اضافہ بارہ سے تیرہ فیصد رہاہے، جس کا مطلب ہے کہ ہماری مشینری اتنا بھی ٹیکس حاصل نہیں کر پارہی جو آمدنی کے بڑھنے کے مساوی ہو۔ لہٰذا اس ضمن میں اہم اصلاحات از بس ضروری ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ گردشی قرضہ اور بجلی سے متعلق معاملات ہیں مثلاً اس کی قیمت کا تعین اور اس کے نفاذ میں تاخیر۔
یہ مسئلہ معیشت کی خرابی میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے اور اس کا پائیدار حل پروگرام کے اہم ترین اہداف میں شامل ہوگا۔ اس کیساتھ ہی جڑا ہوا مسئلہ نجکاری کا ہے، کیونکہ پبلک سیکٹر میں چلنے والے اداروں کا خسارہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، لہٰذا ان کی نجکاری کا اہتمام ضروری ہے، خصوصاً توانائی کے کارخانے اور اس کی ترسیل کے نظام کی نجکاری گردشی قرضے کے حل میں اہم کردار ادا کرینگے۔ یہاں ہم اس بات کا ذکر بھی کرنا چاہتے ہیں کہ اس پروگرام کی ابتداء میں ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور گروتھ ریٹ میں کمی واقع ہوگی۔ یہ ایک ناگزیر عمل ہے کیونکہ ہم نے اخراجات کو بے تحاشا بڑھا دیا تھا جبکہ ہماری آمدنی کم ہو رہی تھی۔ ان غیر ذمہ دارنہ اخراجات کی وجہ سے جو قرضوں کے ذریعے پورے کیے گئے مجموعی طلب میں اضافہ ہوا۔
اگر خسارہ روپے چھاپنے سے پورا ہوجائے تو ہم جتنے بھی چاہیں نوٹ چھاپ سکتے ہیں لیکن یہ طلب جب زرمبادلہ مطالبہ کرتی ہے تو ہم ڈالر نہیں چھاپ سکتے اور بس یہاں آکر ہم بے بس ہوجاتے ہیں اور پھر آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکاتے ہیں۔ لہذا پروگرام کا اولیں ہدف اس طلب کو کم کرنا ہوتا ہے جس کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے اور ملک میں معیشت سنبھلنے لگتی ہے۔ ہم اب اس عمل سے گزریں گے لیکن اس تکلیف کے بعد ہماری معیشت متوازن انداز میں آگے بڑھے گی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024