روس ، بھارت ایس 400 میزائل دفاعی معاہدہ
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے حال ہی میں بھارت کا 2 روزہ دورہ مکمل کیا ہے۔ اس دورے میں انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔دونوں ملکوں کے تعلقات کی گرم جوشی اس تصویر میں دیکھی جاسکتی ہے جو ساری دنیا کے میڈیا نے دکھائی جس میں یہ دونوں سربراہان خوش گوار موڈ میں گلے مل رہے ہیں۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت اور روس کے پہلے دن سے ہی بہت قریبی تعلقات ہیں۔ روس کو بھارت کا دیرینہ حلیف مانا جاتا ہے۔ جس زمانے میں روس دنیا میں سوویت یونین کے طور پر دوسرا سپر پاور تھا۔ اس میںبھی ان دونوں ممالک کے تعلقات مثالی سمجھے جاتے تھے۔ کشمیر کے پرامن حل کی اقوام متحدہ میں قرردادوں کو ویٹو کرنے والا ملک سوویت یونین ہی رہا۔ پھر 1971 کی پاک ،بھارت جنگ میں بنگلہ دیش کے قیام کے سلسلے میں جس قسم کی فوجی ،مالی اور سیاسی مدد سوویت یونین نے بھارت کو فراہم کی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے لیکن جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ بھارت کی تینوں مسلح افواج کا 60 فیصد سے زیادہ اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہے۔ اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ بھارت کا فوجی نظام ابھی تک روسی طرز پر چلتا ہے۔ اب تازہ ترین خبر یہ ہے کہ روس بھارت کو ایس 400 میزائل دفاعی پروگرام فراہم کر رہا ہے جس کی لاگت 5 ارب ڈالر ہے یعنی سوا چھ سو کھرب روپے۔ اس کے علاوہ یہ بھی خبر ہے کہ روس جدید ٹی 226 قسم کے ہیلی کاپٹر بھی فراہم کرے گا۔ان ہیلی کاپٹرز کو 'کاموف" کہا جاتا ہے۔اب تک اس سودے میں امریکی مداخلت ایک رکاوٹ رہی کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ بھارت روس سے یہ سودے کرے۔ اگست 2017 میں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کے بعد روس کے خلاف کئی طرح کی پابندیوں کا اعلان کیا۔ اس کے تحت روس کی 39 کمپنیوں سے عالمی تجارت کرنے پر پابندیاں لگائی گئیں۔ ان میں وہ کمپنی بھی شامل ہے جو ایس 400 میزائل شیلڈ بناتی ہے۔روس کے صدر کی بھارت روانگی سے قبل روسی وزارت خارجہ نے یہ دعوی کیا تھا کہ یہ سودے ہوجائیں گے لیکن بھارت نے اس پر کوئی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اس وقت یہ سمجھا گیا کہ امریکی دبائو کی وجہ سے بھارت ایسا کرتے ہوئے ہچکچارہا ہے۔اس ملاقات سے چند ہفتے قبل امریکا کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے بھارت کا دورہ کیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ روس بھارت معاہدے کے اوپر تفصیلی بات چیت ہوئی اور بھارت کی جانب سے روسی کمپنی کو استشناء دینے کیلئے بھی درخواست کی گئی۔اب جبکہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ طے پاگیا ہے۔اس اینٹی میزائل سسٹم کی فراہمی 2020 سے شروع ہوجائے گی۔ خطے کی اہم طاقت چین اور سپر پاور امریکا نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔چین کیونکہ پہلے ہی یہ نظام رکھتا ہے اس لیئے بھارت کا اس نظام کا حصول اسے فکر مند کررہا ہے۔یہ میزائل سسٹم بیک وقت 80 میزائل کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔عسکری ماہرین کے نزدیک زمین سے فضا میں نشانہ بنانے والا یہ میزائل سسٹم بھارت کی عسکری طاقت خاص طور پر خطے میں فضائی طاقت کے توازن کو بگاڑ سکتا ہے۔ پاکستان کے لیئے بھی یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے کیونکہ بھارت جس قسم کی اسلحے کی دوڑ میں مبتلا ہے۔وہ خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑ رہا ہے۔ظاہر ہے کہ جس قسم کی ہٹ دھرمی کا رویہ بھارت نے کشمیر اور دیگر معاملا ت میں رکھا ہوا ہے اس میں فوجی طاقت کا توازن بگڑ جانا مشکل صورت حال پیدا کر دیتا ہے۔ سب سے تکلیف دہ صورت حال یہ پیدا ہوجاتی ہے کہ متعلقہ ملکوں کو اسلحے کی دوڑ میں شامل ہونا پڑ جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ہی غربت ، جہالت اور بیماریوں کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اگر وہ ایسے معاملات میں اپنا خطیر سرمایہ لگانے لگے تو پھر ایک سو 50 کروڑ عوام کا کیا بنے گا۔ ارد گرد دیکھا جائے یا ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھا جائے تو ہر ایک تجارت اور ترقی کی دوڑ میں مصروف ہے۔ سب کی کوشش یہ ہے کہ عوام کے معیار زندگی کو زیادہ سے زیادہ بلند کیا جائے۔ بھارت اپنے آپ کو سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے۔ جنوبی ایشیا اور خطے کے دوسرے ممالک اس سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ امن میں اہم کردار ادا کرے گا۔نا کہ اسلحے کے انبا ر لگا کر ایک تناو کی صورت حال پیدا کرے گا۔حال ہی میں بھارت نے پاکستان کی جانب سے مذ اکرات کی پیش کش کو جس طرح رد کیا۔ اس کو بھی کوئی تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا۔ چین ، بھارت اور پاکستان علاقے کے اہم ملک ہونے کے ساتھ ایٹمی طاقتیں بھی ہیں۔ انہیں بہت سنبھل سنبھل کر قدم اٹھانا چاہیئے۔ جیسا کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی خواہش تھی کہ تجارت کے ذریعے کوئی بہتر راستے نکالیں جائیں تاکہ کشمیر اور دوسرے معاملات میں بھی پیش رفت کرنا ممکن ہو۔زیادہ سے زیادہ اسلحے کے انبا ر اکھٹے کرنا کوئی اچھا یا بہتر عمل نہیں ہے۔