عمران خان … وعدوں اور دعوئوں کی پاسداری کریں!
وزیراعظم عمران خان نے انتخابات سے قبل عوام سے کئی وعدے کیئے تھے جن میں کرپشن اور قرضوں سے نجات، مہنگائی کم کرنے، غریب اور متوسط طبقے کا معیارِ زندگی بلند کرنے سمیت کئی سبز باغ دکھائے گئے تھے، جس کے باعث عوام نے 2018ء کے انتخابات میں بھرپور کامیابی دلاکر اقتدار کا ہُما اُن کے سر پر بٹھایا۔ عمران خان کے 100دن کے پلان کے 60 دن گزر چکے ہیں، مگر ان دو مہینوں میں عوام کو کوئی ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا، بلکہ بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات اور سی این جی کی قیمتوں میں بلاواسطہ اور اشیائے خوردونوش اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بالواسطہ اضافے کے باعث عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر کہتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافے سے غریب طبقے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا؟ اس کی وہ وضاحت کرنے سے یقینا قاصر ہوں گے کہ غریب طبقہ کیوں متاثر نہیں ہوگا؟ جب آپ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھائیں گے تو کیا اشیائے خوردونوش، ٹرانسپورٹ وغیرہ کی قیمتیں نہیں بڑھیں گی؟ ٹرانسپورٹرز نے بسوں کے کرائے میں دس روپے اور تاجروں نے اجناس و دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ٹرانسپورٹ کی وجہ سے اضافہ کردیا ہے۔ مہنگائی کا بوجھ تو اُسی غریب طبقے کو اُٹھانا پڑ رہا ہے جو قیامِ پاکستان کے بعد سے آج تک مہنگائی کی چکی میں پستا چلا آرہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت روزِ اوّل سے آئی ایم ایف سے قرض لینے سے انکاری رہی مگر پھر آئی ایم ایف کے پاس ہی جارہی ہے جبکہ حکومت اقتدار میں آنے کے وقت ہی فیصلہ کر چکی تھی کہ آئی ایم ایف سے پیکیج لینا ہے لیکن قوم کو یہ حقیقت بتانے کی شاید ہمت نہیں تھی۔ متعدد بار یہ کہا جاتا رہا کہ ہم اپنے دوست ممالک، سعودی عرب اور چین کے پاس جا رہے ہیں اور دیگر ذرائع بھی استعمال کر رہے ہیں، اگر ہمیں وہاں سے امداد مل گئی تو ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائینگے۔ یہ وہی جملے ہیں جو 2008 میں پی پی حکومت میں دہرائے گئے تھے حالانکہ حکومت کو یہ پتہ تھا کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کا متبادل نہ تو چین ہے اور نہ ہی سعودی عرب۔ لیکن کیا یہ بنیادی حقیقت نہیں ہے کہ اِن سب اداروں کے پاس جانے کیلئے پہلے آئی ایم ایف سے اپنی پالیسیوں کی توثیق کرانی ہوتی ہے اور اگر آئی ایم ایف توثیق نہیں کرتا تو انٹرنیشنل بانڈز میں مشکل پیش آتی ہے اور کوئی بھی بینک آپ کو قرضے بھی نہیں دیتا۔ دوسری طرف صرف ایک مہینے میں زرِمبادلہ کے ذخائر ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کم ہوچکے ہیں۔ حکومت نے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو روکنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ اِن کا آئی ایم ایف کے پاس جانے کا مصمم ارادہ تھا۔ آئی ایم ایف کی جو بنیادی شرائط ہوتی ہیں اُن پر حکومت نے پہلے ہی عمل درآمد شروع کردیا۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ معیشت کو استحکام دیں اور شرحِ نمو کو سُست کریں تو حکومت نے انہیں بتایا کہ اِس سال کا شرحِ نمو کا ہدف کم اور بجٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے ترقیاتی اخراجات میں 75 ارب روپے کی کٹوتی کردی ہے۔ گیس کے نرخ میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے، اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی میں شرحِ سود میں ایک فیصد اضافہ اور استحکام کی بات کی جو آئی ایم ایف 1993ء سے کرتا چلا آرہا ہے۔ روپے کی قدر بھی گرنے دی گئی اور اب بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بھی بڑھادئیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ضمنی بجٹ میں انہوں نے 83 ارب کے نئے ٹیکس لگائے لیکن جو گزشتہ حکومت نے پیسوں کا ہدف رکھا تھا اس میں 37 ارب کی کٹوتی کردی اور اس طرح 120 ارب روپے کا جھٹکا دے دیا۔ دوسرا مفروضہ جس پر یہ حکومت معیشت کو چلا رہی ہے کہ سمندر پار پاکستانی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرینگے، ایسا کچھ نہیں ہوگا … وہ مہنگی شرح منافع پر بانڈز تو خرید لیں گے لیکن سرمایہ کاری نہیں کرینگے۔ اگر حکومت چاہے تو جن لوگوں نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہیں اُٹھایا، جس کے حوالے سے ایف بی آر کے چیئرمین نے کہا تھا کہ ہم ٹیکس وصول کرنا شروع کر یں گے، اُن لوگوں کی پراپرٹی، بینک ڈیپازٹس، گاڑیوں، قومی بچت اسکیموں میں سرمایہ کاری کی تفصیلات حکومت کے پاس موجود ہیں اُن لوگوں سے جن کے پاس ناجائز پیسہ ہے، 5 سے 6 ماہ میں ایک ہزار 5 سو ارب روپے کی اضافی آمدنی حکومت ہوسکتی ہے، جس سے ایک ڈیم آسانی سے بن سکتا ہے اور تعلیم اور صحت کی رقوم بھی بڑھائی جاسکتی ہیں۔ بجلی، پٹرول کے نرخ بڑھانے کی بجائے کم کیئے جاسکتے ہیں۔ یہ وہ تاریخی فیصلہ تھا جو حکومت کرتی تو اَب تک معیشت کا حلیہ بدلنا شرو ع ہوجاتا، مگر افسوس … آج کل جو روپے کے ساتھ تماشا ہوا اُس پر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہم اپنے ملک کے ساتھ کیا کررہے ہیں۔ ڈالر کی قیمت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، تو کیا کسی کو اِس کے تباہ کن اثرات کا اندازہ ہے؟ 60 ارب ڈالر کی درآمدات ہیں وہ ملکی کرنسی میں مہنگی ہوں گی، حکومت کو ڈیوٹی کی شکل میں آمدنی تو ہو گی مگرعوام کو اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا ہوگا۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھیں گے اور مہنگائی کا مزید طوفان آئے گا۔ صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھے گی، جس سے برآمدات پر اثر پڑے گا۔ 100 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کا ملکی کرنسی میں حجم بھی بڑھے گا۔ ہرسال 8 سے 10 ارب ڈالر سود کی مد میں دینے ہوتے ہیں تو اس کیلئے بجٹ میں زیادہ رقم مختص کرنا پڑے گی جس سے بجٹ خسارہ یقینا تجاوز کرجائے گا۔ یہ سب چیزیں معاشی اشاریوں کو خراب کریں گی اور برآمدات میں اضافہ نہیں ہوگا اور پاکستانی کرنسی کی قدر مزید گرتی رہے گی اور قرضوں کا حجم بڑھتا چلا جائیگا۔ تبدیلی کے نعرے پر قائم موجودہ حکومت اُسی راہ پر چل نکلی ہے جس پر گزشتہ 30 سال سے معیشت زبردستی چلائی جارہی ہے۔ یعنی 1988ء سے اب تک آئی ایم ایف کے 12 پروگرام ہوگئے، جس کی وجہ سے پاکستان کی شرح نمو بنگلہ دیش سے کم رہی اور عالمی اداروں، اقوامِ متحدہ اور پاکستان نے بھی اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ اگر شرحِ نمو 8 فیصد سے کم رہی تو ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں فی کس آمدنی کے لحاظ سے ہم 2060ء تک بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس وقت 2 کروڑ 30 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے اور چاروں صوبوں نے اِس مد میں 2200 ارب روپے مختص کیئے ہیں۔ اِس کے باوجود سرکلر ڈیٹ ملا کر بجٹ خسارہ 8 فیصد ہے اور اگر یہ 2200 ارب روپے مختص کریں تو بجٹ خسارہ 13 فیصد ہو جاتاہے تو ایسے میں قوم کو سوچنا ہے کہ اِن قرضوں کی شرائط اور پالیسی سے کیامعیشت چلے گی؟ اب ایسی صورتحال میں جب عمران حکومت کے پاس معیشت کی بہتری کیلئے کوئی ٹھوس اور مربوط لائحہ عمل نظر نہیں آتا، عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈال کر پچھلی حکومتوں سے کوئی مختلف کام نہیں کررہی۔ عمران خان سے پاکستان کے عوام نے بہت زیادہ اُمیدیں وابستہ کرلی تھیں اور نجات دہندہ تصور کیئے جارہے تھے مگر موجودہ صورتحال میں حکومت جو فیصلے کررہی ہے اُس سے نااُمیدی کی فضابڑھ رہی ہے۔ عمران خان اور موجودہ حکومت کو اِس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے اور ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جس سے بالواسطہ یا بلاواسطہ عوام پر بوجھ نہ پڑے۔ عوام ویسے ہی ٹیکسوں اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی تقریباً 80 فیصد آبادی کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے اِس صورتحال میں کس طرح عوام مہنگائی کا بوجھ اُٹھا سکتے ہیں۔ عمران خان نے جو عوام سے وعدے کیئے تھے اُن پر عملدرآمد کیلئے ٹیکسز لگانے کے بجائے کرپٹ مافیا سے لوٹی ہوئی دولت واگزار کروالی جائے تو ہمارے قرضے بالکل ختم ہوسکتے ہیں اور نہ صرف قرضے ختم ہوسکتے ہیں بلکہ عوام کے فلاح و بہبود پر بھی کئی ارب روپے خرچ کیئے جاسکتے ہیں۔ شومئی قسمت کے قیامِ پاکستان کے بعد سے تمام سیاستدانوں اور افسر شاہی نے اس ملک کو صرف لوٹا ہی ہے، اس کی بھلائی اور ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا۔ عوام کو صرف سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اور سادہ لوح عوام بیوقوف بن جاتے ہیں۔ اگر صرف سابقہ دو حکومتوں کی کرپشن سے لوٹی ہوئی دولت ہی قومی خزانے میں واپس آجائے تو آئی ایم ایف کے پاس جانا نہیں پڑے گا۔ عمران خان اور اُن کے حواریوں نے جو کرپشن کے قصے وکہانیاں عوام کو سنائے ہیں اُن کو انجام تک پہنچانے کا وقت آچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سوئس حکومت سے فی الفور مذاکرات کیئے جائیں اور پاکستانی دولت جو سوئس بینکوں میں رکھی ہوئی ہے اُسے واپس قومی خزانے میں لایا جائے۔ یہ تمام اقدامات انتہائی ناگزیر ہوچکے ہیں۔ اگر عمران خان نے کرپشن کی دولت واپس لانے کے نعرے کو سچ ثابت نہیں کیا اور عوام کا معیارِ زندگی بلند نہ کیا تو اُن کا انجام دیگر حکمرانوں سے زیادہ مختلف نہ ہوگا۔