چند روز بیشتر سے ملکی مالی معاملات چلانے کی غرض سے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر حکومت شدید تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے،ہر روز کسی نہ کسی ٹی وی چینل کی توپوں کا رُخ اس حوالے سے حکومت کی طرف مڑُا ہوتا ہے جبکہ حزب اختلاف بھی اپنی بھرپور’’ اپوزیشن‘‘ کا مثالی مظاہر ہ کرتے ہوئے حکومت کو ملامت کرنیکے اس موقع کو سنہری موقع گردانتے ہوئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی ،حالانکہ اس اپوزیشن میں وہ جماعتیں بھی شامل ہیں جو خود اپنے دور میں آئی ایم ایف سے فیض یابی اپنا نصیب سمجھ کر ڈالرز سے اپنی جھولیاں بھرتی رہی تھیںمگرنہ جانے اب یہ سب انہیں کیوں اچھا نہیں لگ رہا ۔سچی بات پوچھیں تو آئی ایم ایف جانا ہمیں بھی اچھا نہیں لگتا بلکہ ہم شروع دن سے اس سے پیسہ ادھار وہ بھی سود پر لینے کے سخت خلاف چلے آرہے ہیں کیوں کہ ہماری معیشت کی زبوں حالی کی اصل وجہ یہی سود ہے جسے ادا کرکہ ہم اپنی جھولیاں بھرنا خوش نصیبی تصور کرتے ہیں۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے وہ وزیراعظم جو کل تک آئی ایم ایف سے رجوع کرنے سے خود کشی کو بہتر بتاتے رہے ہیں آج کیوں اپنی قسم توڑ کر حسب روایت اپنا کشکول آئی ایم ایف کے آگے پھیلانے پر مجبور ہو ئے ہیں۔ہم تو اسے روایت ہی کہیں گے جو گذشتہ قریباً چھ دھائی سے ہر حکمران سینے سے لگائے ندامت محسوس کئے بغیر آگے بڑھاتا چلا آیاہے ،آج اگر یہ روایت دھرائی جا رہی ہے تو اس کی مقصد ذاتی جھولیاں بھرنا نہیں بلکہ واقعی ملکی مالی معالات بلکہ ملکی کاروباری معاملات میں بھی ممکنہ روکاوٹ کو پیدا ہونے سے پہلے ختم کرنا ہے ۔
بتاتے چلیں کہ اصل مدعا ہے کیا اور اپوزیشن کیوں محوِ احتجاج ہے؟ ۔بات دراصل یہ ہے کہ حکومت نے اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری کے ساتھ ہی دیگر مزید پچاس اہم گرفتاریوں کا عندیہ بھی دے دیا جس کا سنتے ہی مفاد پرست عناصر نے اسٹاک ایکسچینج سے اپنا پیسہ نکالنا شروع کردیا جس کے نتیجے میں ڈالر کا مہنگا ہونا لازمی امر ہے۔یہ وہی کھربوں روپے تھے جو مبینہ معاشی دہشتگردوں کے تھے جن کی گرفتاری کی نیشنل ایکشن پلان کے تحت سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ہدایات جاری کی تھیں مگر اُس وقت کی حکومت نے ان ہدایات پر اس خدشہ کی وجہ سے عملدرآمد نہیں کیا گرفتاریوں کی صورت میں مبینہ مالی دہشتگرد سٹاک
ایکسچینج سے کہیں پیسہ نکال نہ لیں اور اگر پیسہ نکال لیا گیا تو ڈالر مہنگا ہونے کی صورت میں عوام یہی سمجھیں گے کہ یہ سب حکومت کی ناقص پالیسوں کی وجہ سے ہوا ۔اگر اُس وقت کی حکو مت یہ گراں اقدام اُٹھا لیتی تویہ درست ہے کہ وقتی طور پر ملک کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑٹا مگر اُس وقت ملک کی بجائے حکومت بچانے کی فکر کی گئی ۔آج جو ڈالر مہنگا ہور ہا ہے اور حکومت کی نہ چاہنے کے باوجود آئی ایم ایف کے آگے کشکول پھیلانا پڑ رہا ہے یہ اس لئے کہ بڑے مگر مچھ گرفتاریوں کے خوف سے سارا پیسہ نکال رہے ہیں جس کا نقصان ملک کو ہو رہا ہے تو دوسری طرف ڈالر مہنگا ہونے سے مہنگائی طوفان کی شکل اختیار کر کہ عوام کیلئے بھی درد سر بنتی جا رہی ہے اور یوں نشانہ حکومت بن رہی ہے ۔اس تمام تر صورتحال میں جو شکل واضع ہوئی ہے وہ یہ کہ نکالا جارہا کرپشن کا یہ پیسہ ملکی خزانے میں واپس لانے کیلئے عدالتی طریقہ کار کے پیش نظر چونکہ وقت درکار ہے اور اس عمل سے گذرنے کے بعد ہی سزا و جزا کا عمل شروع ہونا ہے اس لئے سر ِ دست حکومت اگر ملکی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے وقتی آئی ایم ایف سے رجوع کیا جا رہا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مصلحت کے تحت ہے جس پر تنقید یا شور شرابہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ مناسب سا نہیں ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی روش پر اگلے سالوں میں بھی آئی ایم ایف کے پاس گئی جسے اپنے دعووں وعدوں کے مطابق جانا نہیں چاہیے تو اُس صورت میں ہم بھی ٹی وی چینلز اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور حکومت کیخلاف اِسی طرح لکھ رہے ہوں گے جس ایک طرح سے اس وقت ہم حکومت کو وقت دینے کے حق میں لکھ رہے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی حکومت پر آئی ایم ایف کے حوالے سے جو تنقید ہو رہی ہے یہ بالکل بے جا اور ایک طرح سے غیر مناسب تصور ہوتی ہے ،یہ اس لئے کہ ابھی تو اس حکومت کو جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے اور لے دے شروع ہوگئی ،کہ فلاں وزارت کا حال برا ہے فلا ں محکمے میں یہ ہو رہا ہے فلاں میں وہ ہو رہا ہے ۔بھئی انہیں سانس تو لینے دو اُس کے بعد بات کرنا جو بھی کرنی ہے ابھی تو جو بھی بولے گا حکومت یہی کہے گی کہ ہمیں تو آئے آٹھ دن بھی نہیں ہوئے تو کارکردگی کیسی ۔ایسی صورتحال میں تو حکومت برحق اور مخالفت ،مخالفت برائے مخالفت کے زمرے میں ہی آرہی ہے تو جانیں ہلکان کرنے کا فائدہ کیا ۔ہمیں تو یہاں حکومت سے بھی اتفاق نہیں جو اس نے تین ماہ کا نہایت مختصر ترین عرصہ کاردگردگی دکھانے کے لئے دے ڈالا ،حقیقت ہے کہ یہ تو تیس چالیس سال کا کیا دھرا ہے تین ماہ میں کسیے کارکردگی دکھائی جا سکتی ہے اور کیونکر ملکی معیشت اتنے مختصر ترین عرصے میں پاؤں پر کھڑی کی جاسکتی ہے جسے معاشی دلدل میں دھنسے چالیس سال ہو چکے ۔ہمارا کہنا یہ ہے کہ حکومت کو کم سے کم دو یا اگر بہت بھی کم کیا جائے تو ایک سال کا وقت بتانا چاہیے تھاتاکہ کچھ تو سٹیرنگ پر ہاتھ جمایا جا سکتا اس کے بعد گاڑی چلنی ہے(جاری)
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024