منگل‘ 29 ربیع الثانی 1445ھ ‘ 14 نومبر 2023ئ

نواز شریف سے عوام کو بڑی امیدیں ہیں، چودھری شجاعت۔
عوام کو سچ کہیں تو اب کسی سے بھی کوئی امید باقی نہیں رہی۔ کیونکہ عوام سب کچھ جان چکے ہیں۔ اتنے دھوکے کھا چکے ہیں کہ کوئی انقلابی ہو یا تعمیراتی، عوامی ہو یا اسلامی نعرہ لگانے والے ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ بقول شاعر
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
آج تک کسی نے بھی عوام سے کئے وعدے وفا نہیں کئے۔ اس لئے کم ازکم اب عوام کو حقیقت میں کسی سے امید نہیں رہی۔ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت یا ان کے سربراہ عوام کے حقیقی ہمدرد ہوتے تو آج عوام کی یہ حالت نہ ہوتی۔ یہ سب اشرافیہ کے نمائندے اور ان کے چیلے چانٹے عیش کر رہے ہیں اور غریب لوگ روٹی، دوا، تعلیم اور پانی کے لئے ترس رہے ہیں خودکشیاں عام ہیں۔ جرائم بڑھ رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہی غربت بھوک ننگ اور استحصالی نظام ہے جہاں چند فیصد مراعات یافتہ لوگ کروڑوں پاکستانیوں کے خواب چرا کر ان کے جذبات بیچ کرکھا رہے ہیں۔ بھوک و ننگ سے مرتے ہوئے ہی یہ لوگ صدائے احتجاج تک بلند نہیں کرتے۔ خاموشی سے حوادث کے سیل رواں میں بہہ رہے ہیں۔ سو اب کسی کو کسی سے کوئی امید باقی نہیں رہی کیونکہ اب تک کونسی کوئی امید بر آتی ہے۔ جواب آگے جا کر آئے گی۔ اس کے باوجود شجاعت صاحب کو نواز شریف میں امید کی روشنی نظر آتی ہے تو یہ ان کا حسن نظر ہے یا حسن ظن۔
٭٭٭٭٭
پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ میں شرکت پر ساڑھے سات کروڑ ملیں گے۔
اسے کہتے ہیں انگلیا ں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ ہار کے باوجود اور اس اہم ایونٹ میں سیمی فائنل تک نہ پہنچنے کے باوجود اگر ہمارے بلونگڑوں کو پانچویں پوزیشن پر آنے پر اتنی رقم مل رہی ہے تو یہ بڑی بات ہے۔ ویسے اس کارکردگی کے بعد جس نے پوری قوم کو مایوس کر دیا ہے۔ اب حکومت بھی سخت ایکشن لے کیونکہ جب بچہ فیل ہوتا ہے تو ماں باپ اس کی بھی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں۔ اس کا جیب خرچ کم یا ختم کر دیتے ہیں۔ اب حکومت بھی کم ازکم یہ سات کروڑ روپے سرکاری خزانے میں جمع کرا کے ان نالائق کھلاڑیوں کو ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ دے۔ اب یہ لوگ اسے سزا سمجھیں یا زیادتی یہ ان کا مسئلہ ہے۔ اس رقم پر اب حکومت کا حق ہے جو اس دورے کا خرچا اٹھا رہی ہے۔ یہ رقم اس مد میں منہا کر لی جائے۔ کم ازکم دورے کےاخراجات کا بوجھ ہی کچھ کم ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی اب پی سی بی والوں کی بھی گوشمالی کا وقت آگیا ہے۔ بہت کر لیں انہوں نے عیاشیاں، بہت اڑا لئے انہوں نے مزے۔ اب ان کی مدارت کی نہیں مرمت کی ضرورت ہے، سب کی تنخواہوں اور مراعاتوں کو عوامی سرکاری گریڈز کے مطابق کرکے حساب دوستاں چکتا کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ کیا ہمارا کوئی بڑا افسر سرکاری ملازم 15سے 25 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لیتا ہے جو یہ لوگ لے رہے ہیں۔ جب محنت کرنا پڑے گی تو ان کو اندازہ ہوگا کہ مفت لاکھوں روپے تنخواہ ان کو جو ملتی ہے عوام کی جیب سے نکالی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭
فرح گوگی کا خفیہ غیر ملکی پاسپورٹ ، منی لانڈرنگ اور دولت چھپانے کا انکشاف۔
کل تک یہ موصوفہ جن کی آنکھ کا تارا تھی۔ دل کا سہارا تھی۔ وزیراعظم سے لے کر خاتون اول تک کی ناک کا بال تصور ہوتی تھی۔ آج وہی لوگ خود کو اس سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ کئی تو یادداشت بھولنے کی اس حد تک اداکاری کر رہے ہیں وہ اسے پہچاننے سے ہی انکاری ہیں۔ جب کہ فرخ گوگی دن رات وزیراعظم ہاﺅس سے لے کر زمان پارک اور بنی گالہ میں ہونے والی ہربات کی چشم دیدہ گواہ ہیں۔ پنجاب میں بزدار جیسے عالی دماغ گوہر آبدار کووزیر اعلیٰ بنانے کا سہرا بھی انہی موصوفہ اور خاتون اول کے سر جاتا ہے۔ جنہوں نے اس ڈمی وزیراعلیٰ کی آڑ میں ایسا کھیل کھیلا کہ پنجاب لاوارث نظر آنے لگا۔ وزیر اعظم کے اردگرد تو خیبر پی کے والاگروپ حصار بنائے ہوا تھا۔ وہ بس انہی کی صفت میں رطب اللسان رہتے تھے۔ اب اس دور میں فرح گوگی نے جو کھیل کھیلا وہ سب کے سامنے آہستہ آہستہ آ رہا ہے۔ یہ ہمارے نظام کی کمزوری ہے یاکرپشن کی طاقت کہ ہمارے ہاں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی بھی پاکستانی روپے پیسے کی طاقت یا سفارش کے بل بوتے پر غیر ملکی پاسپورٹ بھی بنا لیتا ہے۔ کیسے یاکس طرح یہ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا، اس پاسپورٹ کی بدولت فرح گوگی شاید خود کو ایران کی سابقہ ملکہ فرح سمجھ کر دنیا بھر میں اڈی اڈی پھرتی رہی۔ وہاں کے محفوظ مقامات پر اپنی غیر قانونی دولت اور اپنے محسنوں کی خفیہ دولت منتقل کرنے کا کام حسن و خوبی سے ادا کرتی رہی۔ ورنہ ماضی قریب میں ایک ماڈل تو لاکھوں ڈالر لے جاتے ہوئے پکڑی گی تو اسے جیل جانا پڑا تھا۔ آج کل کےکپتان کےوکیل کھوسہ اس وقت اس قتالہ عالم کے وکیل تھے جو آج سچائی کی باتیں کررہے ہیں۔ یہ تو گوگی جی بروقت ملک سے فرار ہو کر اب تک محفوظ بیٹھی ہیں۔ اور ان کے مربی و سرپرست فی الحال ان کو انجانی شخصیت قرار دے کر جان بچا رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
وزیراعلیٰ کا لاہور کی 32 اہم سڑکوں سے تجاوزات ختم کرنے کا حکم
کاش ایسا ہو جائے اور لاہور کا اصل چہرہ سب کے سامنے آئے جو بے حد حسین اور نکھرا ہوا تھا۔ تجاوزات کی بھرمار نے لاہور کی اصل شکل اور شناخت بگاڑ دی ہے۔ پتہ ہی نہیں چل رہا کہ یہ وہی لاہور ہے جس کے حسن کے قصیدے لکھے جاتے تھے۔ فارسی میں کسی نے کیا خوب کہا تھا۔
”اصفہان نصف جہاں است اگرچہ تبریز نبا شد“
یعنی اصفہان واقعی نصف جہاں ہوتا اگر تبریز نہ ہوتا۔ مگر ہمارے ہاں تبریز کی جگہ لاہور فٹ کیا جاتا تھا۔ اور کہتے ہیں " گر لاہور نباشد " اور یہ کچھ غلط بھی نہ تھا۔پھولوں ، حسینوں اور باغوں کا یہ شہر سرکاری غفلت اور کرپشن کی وجہ سے اور اس شہر کی بے ہنگم بڑھتی ہوئی کچی بستیوں، غیر قانونی آبادیوں نے اس شہر کا خانہ خراب کر دیا ہے۔ اوپر سے رہی سہی کسر تجاوزات نے پوری کر دی ہے۔ اندرون شہر تو پیدل چلنا دشوار ہو چکا ہے۔ کوئی سواری موچی، شاہ عالمی یا اکبری گیٹ جانے کا سن کر ہی انکار کر دیتی ہے۔ بڑی بڑی سڑکیں تک تجاوزات کی بدولت تنگ گلی کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ مال، فیروزپور، ملتان اور بند روڈ کو ہی دیکھ لیں ان بڑی بڑی سڑکوں کی سروس لائنز بھی تجاوزات والے کھا چکے ہیں۔ معروف کاروباری مراکز میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ اب اگر وزیراعلیٰ واقعی بھرپور ایکشن لے کر سڑکوں سے یہ بدنما داغ مٹا دیتے ہیں تو یہ لاہور پر ان کا بڑا احسان ہوگا اور لاہور والے انہیں دعائیں دیں گے۔ یہ جا بجا فٹ پاتھوں پر دکانوں کے سامنے سڑک پر قبضہ کرنے والوں کی اب لگامیں کسنا بے حد ضروری ہوگیا ہے۔
٭٭٭٭٭