افغانستان سے حملہ آور تو بہت آئے مگر ہم ا س ملک سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کوترس رہے ہیں۔ پاکستان قائم ہوا تو افغانستان کو ہم سے کیا پر خاش تھی کہ قائد اعظم کے سامنے افغانستان کے مندوب نے اسناد سفارت پیش کیں تو ایک انتہائی زہریلی تقریر کر ڈالی۔ یہ زہر وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلے جا رہا ہے۔ پاکستان نے افغانیوں کی دل جوئی کے لئے کیا کچھ نہیں کیا مگر افغانستان نے پاکستان کی دل شکنی کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیا۔ سوویت روس نے افغانستان پر قبضے کی کوشش کی تو ہم اس کے رستے میں ڈھال بن گئے، ہم نے افغان مجاہدین کو ٹریننگ دی ، اسلحہ دیا اور کوئی بیس برس تک افغانستان میںموجود روسی افواج سے سر پٹختے رہے۔ بالآخر روسیوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، ہم نے کہا یہ سب کچھ پاکستان کی اسٹریٹیجک گہرائی کے دفاعی فلسفے کے تحت کیا مگر ہمیں صلہ الٹ ملا۔ افغان جہاد نے ہمیں کلاشنکوف کلچر دیا،ہیرو ئن کی لعنت دی اور ستر لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ ہماری معیشت کی پیٹھ پر لاد دیا گیا۔ یہی وہ و قت ہے جب پہلے پہل پاکستان میں دہشت گردی کے جھکڑ چلے۔پاکستانی قوم کہیں بھی محفوظ نہ تھی۔ قریہ و بازار میں خون بہہ رہا تھا، مسجدوں ،مزاروں اور منڈیوں سے لاشیں اٹھ رہی تھیں، ریلوے سٹیشنوں پر دہشت گردی کا بازار گرم تھا۔
افغانستان میں ایک سیاسی تبدیلی آئی۔ جہادی تنظیموں کی جگہ طالبان نے لے لی ۔ ہم نے طالبان کو اپنے ٹینکوںپربٹھایااور انہیں قندھار کے تخت پر بٹھادیا۔ ہمارے وزیر داخلہ ان کے ساتھ گئے اور انہوں نے تاریخی کلمات کہے کہ طالبان ہمارے بچے ہیں۔ ان طالبان کے پاس کہیں سے اسامہ بن لادن ا ٓ گیا جو نائن الیون کے حوادث میں امریکہ کومطلوب تھا۔ طالبان اس کے لئے ڈٹ گئے ۔ امریکہ نے اپنی اور نیٹو کی افواج افغانستان میں اتار دیں اور اسامہ کے ٹھکانوں پرڈرٹی اور ڈیزی کٹر بم مار مار کرفلک بوس پہاڑی چوٹیوں کا تورا بورا بنا دیا مگر اسامہ امریکہ کے ہاتھ نہ آیا۔امریکہ نے اسامہ کو آخر ڈھونڈ نکالا اور وہ بھی پاکستان سے۔پہلے افغانستان غلطیاں کر رہا تھا ، وہی غلطی ہم نے بھی کر ڈالی اور امریکہ نے ہمیں ڈرونز کے نشانوں پر رکھ لیا۔ وہ کبھی سلالہ پر چڑھائی کرتا، کبھی ڈمہ ڈولہ پر اور کبھی انگورا ڈہ پر۔ یہ سب کچھ افغانستان میںموجود امریکی اور نیٹو فوجوں کے ہاتھوں ہو رہا تھا جن کے ہم اتحادی تھے۔تجزیہ کار حیران تھے کہ امریکی ا ور ینٹو فوج افغانستان کے چٹیل پہاڑوں اور بے آب و گیاہ صحرائوں میں کیا پکنک منانے آئی ہے۔ لیکن یہ راز کبھی نہ کھلا۔ پاکستان نے امریکی وار آن ٹیرر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ڈو مور کے تقاضے بھی پورے کئے، امریکہ اور طالبان کے مذاکرات بھی کرائے مگر پاکستان کے بجائے بھارت کو افغانیوںنے لاڈلا بنا لیا۔ کوئی کسر باقی تھی تو افغانستان میں مسلسل دھماکوں نے پوری کر دی جن کا الزام پاکستان پر دھرا گیا۔ آج پھر ایک دھماکہ ہو گیا ۔ ہر دھماکہ افغان امن مذاکرات کے لیے دھماکہ ثابت ہوتا ہے۔ اور یوں پاکستان ایک نحیف و نزار سی ڈوری کے ساتھ بندھا رہتا ہے کہ بس اب امن قائم ہوا کہ اب ہوا۔ اور امن کے سراب کا دور دور تک نام ونشاں نہیں ملتا۔
افغان سرزمیں ہمیشہ بلوچستان کے شر پسندوں کے لئے پناہ گاہ ثابت ہوئی۔ بلکہ جنت ثابت ہوئی۔ افغانستان کے طول وعرض میں بھارت نے قونصل خانے قائم کیے جہاں دہشت گرد تنظیم را کی طرف سے پاکستان میں تخریب کاری کے ٹریننگ کیمپ قائم تھے۔ان ٹریننگ کیمپوں نے بلوچستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ کوئی دن امن سے نہیں گزرتا، پورا صوبہ لرز رہا ہے اور چین سوچ رہا ہے کہ اس کے سی پیک کی کامیابی کے لئے گوادر کی بندر گاہ کب مکمل ہو سکے گی۔ پاکستانیوں نے بھی سی پیک سے بڑے بڑے خواب منسلک کر رکھے تھے۔یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے انتظار میں گل سڑ رہا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی کوئی واضح ڈائریکشن نہیں ہے، ہر ملک کی اپنی تاریخ ہوتی ہے اور اپنے ہیرو، مگر ہم اپنی تاریخ پر متفق نہیں اور ہمارے ہیرو ہی ہمارے لئے زیرو ہیں۔ قائد کے علاوہ ہم اپنے کسی ہیرو کانام لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ان پر بھی سو سو اعتراضات اٹھاتے ہیں جبکہ ہم نے ابدالی ،غوری اور غزنوی کوہیرو کا درجہ دیا اور انہی کے نام پر اپنے میزائلوں کے نام رکھے جن پر پچھلے افغان صدر حامد کرزئی نے اعتراض بھی کیا جسے ہم نے تسلیم نہ کیا ۔ اب ایک طرف ہم سکھوں کے لئے خیر سگالی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ان کے لئے بین الا قوامی سرحدیںکھول رہے ہیں۔ مگر دوسری طرف افغانیوں کے سامنے خاردار باڑ لگانے کے لئے کوشاں ہیں۔ نظریاتی اندھیرے کا اکیلے ہم ہی شکار نہیں، امریکہ جیسی سپر پاور بھی ہے ۔ وہ اپنی سرحد میکسیکوپر باڑ لگا رہی ہے مگر دنیا کو وعظ کر رہی ہے کہ وہ اپنی اپنی باڑ گرا دیں۔بھارت ایک منی سپر پاور ہے۔ وہاں کل کے ہیرو آج کے زیرو ہیں ، گاندھی کامجسمہ گرایا جا رہا ہے اورا سکی جگہ سا ورکر کا مجسمہ نصب کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے مگر کشمیر پر جارحانہ قبضہ جما لے۔
ہمیں تو فکری اور عملی انتشار سے نجات چاہئے۔ اپنی کوئی تاریخ مرتب کریں، اپنے ہیروز کے ناموں پر اتفاق رائے تشکیل دیں۔ ایک فیصلہ کریں کہ سکھوں سے نرمی برتنی ہے توافغانیوں سے بھی برتیں مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سکھوں سے نرمی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور افغانیوں پر بھی احسانات کر کے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس پس منظر میں ہمیں ایک بیانیہ سامنے لانا ہو گا۔ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاںمارنے کا کسی کو کبھی بھی فائدہ نہیں ہوا۔
ہمارا مسلم قومیت کا بیانیہ بھی کام نہیں دے رہا۔ ایک کشمیر پر کوئی مسلمان ملک ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکا۔ ہم نے پاکستان، ایران اور ترکی کو ایک کرنے کی کوشش کی مگر یہ کوشش بھی سرے نہ چڑھی۔ اسلامی کانفرنس بنائی،وہ کہیں خواب خرگوش میںمست ہے۔
ہماری ناکامی کی وجہ کیا ہے کہ ہم اپنے جغرافیے کی بنیاد پر پالیسیاں نہیں بناتے۔ ہم اپنی سرحدوں سے ماورا خواب دیکھتے ہیں۔ اور ان خوابوں کی ہمیں کبھی تعبیر نہیں ملی نہ آئندہ ملے گی۔ ہمیں چاہئے کہ اپنی چادر دیکھیں اورا سی کے مطابق پائوں پھیلائیں۔ اپنا گھر ٹھیک کریں، اپنے من میں جھانکیں۔اقبال بھی کہتا ہے کہ تو اگر میرا نہیں بنتا ، نہ بن ،اپنا تو بن۔ افغانستان سے ٹھنڈی ہوائوں کا انتظار چھوڑیں، اپنی داخلی شورشوں کو ٹھنڈا کریں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024