میاں نواز شریف بیمار ہیں انہیں صحت کی بہترین سہولیات ملنی چاہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ ہر بیمار کو بہتر علاج کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کل تک پرویز مشرف باہر جانا چاہتے تھے آج میاں نواز شریف کو علاج کے لیے باہر جانے کی شدید ضرورت ہے۔ سیاسی ماہرین اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد اس موضوع پر اپنے اپنے انداز میں گفتگو کر رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے اندر بھی میاں نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی سہولت دینے کے حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ایک طبقہ انہیں باہر جانے کی اجازت دینے کے حق میں ہے اور دوسرا طبقہ حکومت کو ڈٹے رہنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ مختلف وزراء اپنے اپنے سیاسی شعور اور فکر کے مطابق خیالات کا اظہار کر رہے ہیں جو میڈیا پر زیادہ آتے ہیں ان کے خیالات اس حوالے سے ذرا سخت ہیں چونکہ انہوں نے حکومت کا دفاع کرنا ہوتا ہے اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتنی چاہیے اور ان کے ساتھ ایک عام قیدی جیسا سلوک ہونا چاہیے جبکہ دوسرا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ انسانی ہمدردی اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے میاں نواز شریف کو علاج کی غرض سے بیرون ملک بھیجنے کے معاملے کے حق میں ہے۔
اس حوالے چودھری شجاعت حسین سب سے زیادہ واضح اور دو ٹوک گفتگو کے ساتھ میدان میں ہیں چونکہ ان کی ساری زندگی سیاست کے میدان میں گذری ہے اس لیے وہ پاکستان کی سیاست کو کسی بھی دوسرے سیاست دان سے زیادہ بہتر سمجتے ہیں۔ زمینی حالات اور سیاسی ضروریات و تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے چودھری شجاعت حسین کے فلسفے کی تائید کرنی چاہیے۔ سیاست دانوں کو یہ عزم بھی کرنا چاہیے کہ ایسا وقت کسی پر بھی آ سکتا ہے لہذا ایسے حالات سے بچنے کے لیے ضرورت مند کے لیے راستہ نکالنے کی ترکیب کرنا یا اس میں مدد فراہم کرنا نیکی کا کام ہے۔ ن لیگ کے اکابرین کو دیکھیں تو انہیں بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا کل تک مشرف کو باہر بھیجتے وقت ان کی جمہوریت خطرے میں پڑتی تھی اور اج ایک سزا یافتہ مجرم کو ملک سے باہر بھجوانے سے نہ جمہوریت کو خطرہ ہو گا، نہ نظام کمزور ہو گا نہ کوئی بری مثال قائم ہو گی نہ کسی کی حق تلفی ہو گی نہ کسی کی تضحیک ہو گی اور نا ہی کسی کی انا کو ٹھیس پہنچے گی۔ ن لیگ کے تمام سیاستدانوں کو اپنے اپنے بیانات نکال کر سننے چاہییں جسمیں وہ پرویز مشرف کے باہرنہ جانے کی حمایت کر رہے تھے اور آج وہ زور و شور سے صحت پر سیاست کے بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں۔ کیا پرویز مشرف کی زندگی اہم نہیں تھی، کیا انہیں علاج کی بہتر سہولیات کی ضرورت نہیں تھی۔ پرویز مشرف کو بھیجتے وقت ان مفکرین کو عقل کیوں نہیں آئی اس وقت ان کی انسانی ہمدردی کا جذبہ کیوں مردہ ہوا پڑا تھا۔ کیا بہتر علاج کی سہولیات صرف میاں نواز شریف کا حق ہے؟؟
اس ساری مشق میں ایک اور پہلو نہایت سنجیدہ ہے اور وہ یہ کہ ہمارے ہاں زندگی سب سے سستی ہوئی ہے اور زندگی کی قدر و قیمت تیزی سے گری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سڑکوں پر حادثات بڑھے ہیں۔ قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت نظر نہیں آتی، نہ اس کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات ہیں اور جہاں کہیں قانون نظر آتا ہے وہاں اس کی عملداری کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔
قارئین کرام حکمرانوں نے آج تک صرف اپنی زندگی کی حفاظت کی ہے۔ عوام کو کبھی اس قابل نہیں سمجھا کہ ان کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے بھی کوئی ڈھنگ کا کام کیا جائے۔ زندگی جسے سب سے مہنگا ہونا چاہیے تھا وہ سب سے سستی ہے اور اشیائے خوردونوش جنہیں سب سے سستا ہونا چاہیے تھا وہ نایاب ہیں۔ اب تو عالم یہ ہے کہ ٹماٹر بھی تین سو روپے کلو مل رہے ہیں۔ جس معاشرے میں کھانے پینے کی چیزیں مہنگی اور زندگی سستی ہو جائے وہاں ترقی کیسے ہو گی۔ صحت مند اور مضبوط معاشرہ کیسے قائم ہو گا؟؟
بجلی مہنگی، دودھ مہنگا، سوئی گیس مہنگی، بجلی سے چلنے والی اشیاء مہنگی، چینی مہنگی، آٹا مہنگا، سبزیاں اور پھل مہنگے، ادویات مہنگی، بچوں کی تعلیم مہنگی، کپڑے مہنگے، جوتے پہنچ سے باہر، کبھی ایسا نہیں ہے جو باآسانی دستیاب ہو یا سستا ہو۔ سستی ہے تو صرف انسانی جان، کہیں ہسپتالوں میں سسکیاں لے کر مر رہے ہیں، کہیں کتوں کے کاٹنے سے مر رہے ہیں، کہیں بم دھماکوں میں مر رہے ہیں، کہیں اندھی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں، کہیں جاگیردار کی انا کو تسکین پہنچانے کے لیے زندگی کا خاتمہ ہو رہا ہے تو کہیں دہشت گرد انسانی جانوں سے اپنی بھوک مٹا رہے ہیں۔ ذرا سوچیے ان حالات میں کیا معاشرے کھڑے رہتے ہیں اور ہم کب تک ان حالات میں زندہ رہیں گے یا پھر اپنے حالات کو بہتر کرنے کی تگ و دو میں لگے رہیں گے۔ موجودہ حالات میں سب سے اہم پہلو انسانی زندگی کی تیزی سے گرتی قیمت کا نظر انداز ہونا ہے۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی ٹماٹروں سے بھی سستی ہو گئی ہے۔
جتنی دکھ اور تکلیف میاں نواز شریف کو طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہے اس کا چند فیصد بھی حکمران طبقہ دور اقتدار میں زندگی کی قیمت بڑھانے پر خرچ کر دیتا تو آج حالات مختلف ہوتے ۔ کیا صرف صاحب حیثیت یا طاقتور کی زندگی کی حفاظت سب پر فرض ہے، کیا سڑک پر کھڑے لاوارث بچے کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے، کیا کارخانے میں کام کرنے والے یتیم کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں، کیا کھیتوں میں کام کرنے والے اور علم کے زیور سے محروم معصوم کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے بھی اگر انسانی جان کی قیمت بڑھانے پر کوئی کام نہ کیا تو یہ بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح مستقبل میں مسائل کا شکار ہوں گے۔
ان دنوں مہنگائی کی لہر ہے بالخصوص سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے نے سب کو پریشان کر رکھا ہے۔ حقیقی معنوں میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں کمی یا انہیں قابو میں رکھنے کے لیے کوئی کام کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حکومتی وزراء ٹوئٹر ورلڈ سے باہر نکل کر میدان میں آئیں اور عوام کے مسائل حل کریں۔ ان عہدوں کا کوئی فائدہ نہیں جو عوام کی خدمت نہ کر سکیں۔ صرف دفتروں میں بیٹھنے اور ذاتی کاموں میں مصروف رہنے والے وزراء وزیراعظم عمران خان کے دو نہیں ایک پاکستان کے خواب کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024