جمعرات ‘16 ؍ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 14؍ نومبر2019 ء
لاہور میں اب جگنو بھی نظر نہیں آتے۔ جسٹس ماموں رشید شیخ
جگنو نظر آئیں بھی تو کہاں آئیں۔ سبزہ و گل ہم نے کہیں چھوڑے ہی نہیں۔ ہر طرف جہاں دیکھو کنکریٹ کا ایک گھنا جنگل ہم نے آباد کر دیا ہے۔ بدنما بے ڈھنگی بڑی چھوٹی عمارتوں کا ہجوم ہر طرف سر اٹھائے کھڑا نظر آتا ہے۔ وہ نرم و لطیف سبزہ و گل اب ڈھونڈئیے بھی تو دیکھنے کو نہیں ملتے جہاں کبھی بلبل و گل گفتگو کرتے تھے۔ جگنو رات کو روشنی بکھیرتے نظر آتے تھے۔ لاہور جو کبھی باغات کا شہر کہلاتا تھا اب اس کے باغ سمٹتے سمٹتے بڑی بڑی شاہراہوں کے درمیان پھنسے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہر سڑک کی توسیع کے لیے ان سرسبز باغات کے کئی قطعوں کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ تاریخی باغوں کی حالت زار کسی اجڑے ہوئے ویرانے جیسی لگتی ہے۔ جدید پارکوں میں کچھ چہل پہل ہے مگر یہاں جدت کے نام پر سبزہ و گل کو اتنے محتاط انداز میں جگہ ملتی ہے کہ جگنوئوں کے قیام کے لیے یہ چمن تھوڑا پڑتا ہے۔ باغ جناح میں البتہ کئی گوشے ایسے ہیں جہاں آج بھی موسمی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باوجود جگنوئوں کی ٹولیاں رات کو پھرتی ہیں۔ ننھے منے روشنی کے یہ سفیر ہوا میں تیرتے ہوئے بھلے لگتے ہیں۔ اب نہ وہ اعلیٰ دماغ لوگ رہے جو جگنوئوں سے آشنائی رکھتے تھے۔ نہ وہ والدین رہے جو بچوں کو جگنوئوں کی کہانیاں سناتے تھے۔ اردوکی کتاب میں علامہ اقبال کی بلبل اور جگنو والی نظم پڑھ کر شاید ننھے منے بچے اپنے پاپا اور ممی سے ضرور پوچھتے ہوں گے کہ جگنو کیا ہوتا ہے۔ ویسے بھی اب سموگ نے دھوئیں کے ساتھ مل کر ماحولیاتی تباہی کا جو عمل شروع کیا ہے وہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ سموگ کو اب اگر سردی گرمی، برسات اور بہار کے بعد پانچواں موسم قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
٭٭٭٭٭
ایران میں یورینیم کے ذرات کا سراغ مل گیا ۔ عالمی ادارہ جوہری توانائی
لیجئے مشرق وسطیٰ میں ایک بار پھر عالمی ادارہ توانائی کو جو درحقیقت امریکہ کی فرماں بردار لونڈی کا کردار بخوبی نبھاتی چلی آ رہی ہے ایران میں بھی ایٹمی ذرات مل گئے ہیں۔ ویسے ہی جیسے برسوں پہلے عراق کے ایٹمی ریکٹر اور خطرناک کیمیاوی مواد کے نام پر ملے تھے۔ اس کے بعد جس طرح امریکہ نے ایک پرامن ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی وہ بھی سب نے دیکھا۔ تمام ان جھوٹے دعوئوں اور پراپیگنڈ ے کے باوجود عراق کی تباہ حال سرزمین سے امریکہ کو پہاڑ کھودنے کے بعد مرا ہوا چوہا تک دستیاب نہیں ہوا۔ ہاں البتہ اس مہم جوئی کے نتیجے میں عراق سے ’’داعش‘‘ نے ضرور جنم لیا جس نے امریکہ کا چھوڑا رہا سہا کام بھی پورا کر دیا اور پورے عراق کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ اب ایران کے جوہری پروگرام پر امریکہ اور عالمی توانائی کی تمام تر پابندیوں اور شرائط پر عمل کے باوجود اگر کسی کو وہاں سے ایٹمی ذرات مل رہے ہیں تو اسی پراپیگنڈے کا کرشمہ ہے جو عراق کی بربادی کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ لگتا ہے ایران کے قابو میں نہ آنے پر امریکہ سیدھی یا ٹیڑھی انگلیوں سے بہرحال گھی نکالنے کے چکروں میں ہے۔ خلیج میں امریکی بحری بیڑہ موجود ہے۔ اس کے ہزاروں فوجی تعینات ہیں۔ دیکھتے ہیں ایران دبائو میں آتا ہے یا نہیں۔ عراق ، لیبیا اور شام کے بعد اب خطرہ ہے کہ ایران میں بھی آگ و بارود کا کھیل نہ شروع ہو جائے۔ امریکہ چاہتا تو یہی ہے۔ مسلم امہ اپنی بیداری کا ثبوت د ے تاکہ یہ بلا ٹل سکے۔
٭٭٭٭٭
ابھی نندن کی وردی پہنے ڈمی اور دیگر اشیا پاک فضائیہ میوزیم کراچی میں نصب
یہ ڈمی دیکھ کر جہاں پاکستانیوں کا سیروں خون بڑھ جاتا ہے وہاں بھارتیوں کا سیروں خون جل جاتا ہے۔ اگر ابھی نندن جسے بھارت اپنا سپوت (بیٹا) قرار دیتا تھا واقعی بھارت کا بیٹا ہے تو اسے بھارت والے اور کچھ نہیں تو کوئی معمولی سا اعزاز دے کر اس کی گرفتاری اور جہاز کی تباہی کا غم غلط کر سکتی ہے۔ مگر وہ بھی جانتے ہیں کہ موصوف صرف ککڑ پوت سے بہادر سپوت نہیں۔ اس لیے وہ صرف پاکستان کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی شرمندگی پر پردہ ڈالنے کے لیے اس کی آئو بھگت کرتے ہیں ورنہ فوجی رولز کے مطابق جنگی قیدی کسی حسن سلوک کا مستحق نہیں ہوتا۔ ایک تو ابھی نندن نے طیارہ تباہ کرایا پھر زندہ گرفتاری بھی دے دی۔ اب اس کی وردی پہنے ڈمی اور ذاتی استعمال کی اشیا اور ریوالور ہی نہیں تباہ شدہ طیارے کے ٹکڑے بھی کراچی کے فضائیہ میوزیم میں پاک فضائیہ کے کمال مہارت اور دلیری بیان کرتے تادیر پاکستانیوں کے لہو کو گرماتے رہیں گے۔ اقبال نے بھی انہی شاہینوں کے لیے کہا تھا …؎
جھپٹ کر پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
٭٭٭٭
فردوس عاشق اعوان کا مٹر 5 روپے کلو کا مژدہ
ابھی عوام مشیر خزانہ کے ٹماٹر 17 روپے کلو بکنے کی خوشی سے باہر نہیں نکلے تھے کہ اب مشیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے مٹر 5 روپے کلو دستیاب ہونے کا مژدہ جانفرا سنا کر عوام کے دل جیت لئے ہیں۔ خطرہ ہے کہیں پے درپے خوشیوں کی وجہ سے عوام کا دل دھڑکنا بند نہ کر دے اور یوں عوام کی بڑی تعداد شادی مرگ کی کیفیت میں مبتلا ہو کرراہی ملک عدم ہو جائے۔ جہاں کم از کم انہیں ٹماٹر اور مٹر کی قیمتوں کے جھنجھٹ سے آزادی ملے گی۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ صاحب مرد ہیں۔ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو پاکستانی روپے کی قدر و قیمت سے ناآشنا ہے۔ انہیں ڈالروں کی محبت اور صحبت میسر رہتی ہے۔ روپیہ دن بدن نیچے گرے یا تحت الثریٰ جا پہنچے انہیں معلوم نہیں ہوتا۔ بھلا انہیں کیا معلوم ٹماٹر کا بھائو کیا ہے۔ انہوں نے کبھی خریدے ہوں تو انہیں پتہ ہو۔ مگر مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان صاحبہ تو خاتون ہیں۔ ہمارے ہاں عورتوں کا کچن سے تعلق برقرار ہی رہتا ہے۔ ایلیٹ کلاس والی خواتین بھی ملازمین سے کچن آئٹم منگواتے ہوئے پیسے پیسے کا حساب لیتی ہیں۔ کم از کم انہیں تو ایسی ہوائی نہیں چھوڑنی چاہیے تھی۔ 5 روپے کلو مٹر تو کیا مٹر کا چھلکا بھی نہیں ملتا۔ کھلے عام 150 کا ریٹ مقرر ہے۔ نجانے محترمہ نے 5 روپے کلو کہاں سے خریدے۔ اب لوگ اس مارکیٹ کا پتہ پوچھ رہے ہیں۔ عوام اور سبزی کی اس جنگ میں ایک اور وزیر پٹرولیم بھی نجانے کیوں کود پڑے انہوں نے بھی اپنی کم علمی یا لاعلمی کا پول خود یہ کہہ کر کھول دیا کہ مٹر 20 روپے کلو مل رہے ہیں۔ عوام اس 5 اور 20 کے چکر میں پھنس گئے ہیں کیونکہ یہ ریٹ کہیں بھی دستیاب نہیں۔
٭٭٭٭٭