بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ
بھارتی سپریم کورٹ نے ایودھیا میں 1992ء کے سال میں شہید کی گئی تاریخی مسجد کے کیس کا انوکھا اور متعصبانہ فیصلہ صادر کیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے چیف جسٹس رانجن گنگوہی کی سربراہی میں فیصلہ دیا ہے کہ مسجد مندر کی جگہ تو نہیں بنی مگر وہاں رام کی پیدائش کے شواہد ہیں لہٰذا حکومت متنازعہ زمین ہندوئوں کے حوالے کرے۔ اس فیصلے میں مسلمانوں کی اشک شوئی کیلئے محض یہ کہا گیا ہے کہ 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت غیر قانونی عمل تھا لہٰذا ایودھیا میں متبادل کے طور پر 5 ایکڑ اراضی مسلمانوں کو علیحدہ طور پر فراہم کی جائے جہاں مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کی اجازت ہو۔ اس فیصلے کے مطابق آثار قدیمہ کے مطابق ایودھیا کی بابری مسجد 1528 میں کسی خالی جگہ پر نہیں بنائی گئی تھی۔ مسجد کے نیچے کسی مندر کی باقیات تھیں تاہم آثار قدیمہ نے یہ بھی واضح کیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر تعمیر نہیں کی گئی تھی۔ اس فیصلے میں کئی تضاد ہیں کہ جیسے ثابت نہیں ہوتا ہے کہ مسجد مندر کی جگہ بنی تاہم وہاں ہندوئوں کے اوتار رام کی پیدائش کے آثار ہیں۔ میرا مقصد کسی کی دِل آزاری نہیں ہے مگر ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق تو اُن کے لاکھوں خدا ہیں حتیٰ کہ وہ انسانی اعضاء تک کی پوجا کرتے ہیں۔ گائے اُنکی مقدس ماتا ہے تو کیا پھر عدالتیں ہر جگہ ہندو عقیدوں کیمطابق غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے خلاف فیصلے دیتی پھریں گی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا۔ اُن کے وکیل ظفر یاب جیلانی نے فیصلے کیخلاف جائزہ پٹیشن دائر کرنے کا اعلان کر دیا مودی حکومت نے جعلی رپورٹس پیش کیں۔ اس فیصلے میں بے تحاشا تضاد ہیں کیونکہ مسلمان اپنے عقیدے کے مطابق اپنی مسجد کسی کو نہیں دے سکتے۔
یہ ہماری شریعت کیخلاف ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ فیصلہ حقائق کی بنیاد پر نہیں کیا گیا ہے یہ محض عقیدے کی جیت ہے۔ مسلمانوں کو 5 ایکڑ زمین کی خیرات نہیں چاہئے۔ جن لوگوں نے بابری مسجد کو گرایا تھا آج عدالت انہی لوگوں کو کہہ رہی ہے کہ وہ ٹرسٹ بنا کر رام کا مندر بنائیں۔ عدالت مسجد کی شہادت کو غیر قانونی کہتی ہے۔ اگر مسجد نہ شہید کی جاتی ہے تو پھر عدالت کیا فیصلہ دیتی؟ اگرچہ ہندوستان میں رہنے والا مسلمان غریب ہے اسکے ساتھ (ہندتوا) تعصبات بھی ہیں، لیکن اِن تمام باتوں کے باوجود وہ اتنا گیا گزرا نہیں ہے کہ اپنے اللہ کیلئے پانچ ایکڑ زمین نہ خرید سکے۔ مسلمانوں کو اِس تجویز کو رد کر دینا چاہئے۔ اب بھی ہندوستان میں چاہے بی جے پی ہو یا کانگریس کے ہندو ہوں سبھی منافقانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں جبکہ اترپردیش سمیت بھارت میں انتہا پسند ہندو تنظیموں کے کارکن خوشی مناتے ہوئے سڑکوں پر آ گئے اور مٹھائیاں تقسیم کرتے رہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ فیصلہ مذہبی عقیدے کی بنیاد پر کیا گیا۔ حالانکہ اس حساس معاملے کا فیصلہ قانونی بنیادوں پر ہونا چاہئے تھا۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اس پر بڑا درست تبصرہ کیا کہ آج ایک بار پھر عظیم قائد محمد علی جناح کا ہندوتوا کے متعلق نظریہ درست ثابت ہو گیا۔ ایک ٹویٹ میں اُنہوں نے کہا فیصلے کے بعد ہندوستان کی تمام اقلیتوں کو ایک بار پھر احساس ہو جانا چاہئے کہ ہندوتوا کے بارے میں ہمارے عظیم قائد محمد علی جناح کا نظریہ بالکل ٹھیک تھا اور یقینی طور پر بھارت میں موجود اقلیتوں کو اب ہندوستان بننے کا افسوس ہو رہا ہو گا۔ جے یو آئی (ف) کے جنرل سیکرٹری عبدالغفور حیدری نے بھی بڑی حقیقت پسندانہ بات کی کہ ہندوستان کے سیکولر اسٹیٹ کے دعوے دار ہندوتوا کے پیغام کو پروان چڑھا رہے ہیں ۔ پہلے مسلمانوں کے مقدس مذہبی مقام بابری مسجد کی بے حرمتی کر کے اُسے شہید کر دیا گیا اور آج سپریم کورٹ نے بھی اِن انتہا پسندوں کا ساتھ دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب ہندوستان میں ہندواتوا سوچ ہی چلے گی۔ یہ انصاف کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔
کشمیری مسلمان 72 سالوں سے بھارتی ظلم و تشدد کا شکار ہیں اور مودی سرکار نے کشمیر کی حیثیت ختم کر کے اس جلتی پر تیل ڈال دیا۔ افسوس کا مقام ہے کہ دنیا اِس پر توجہ نہیں دے رہی ہے۔ یہ فیصلہ صرف بابری مسجد کی حد تک نہیں رہے گا بلکہ پورے ہندوستان میں اسکے اثرات مرتب ہونگے۔ دوسری طرف پاکستان نے ہندوستان کے شہریوں کے لیے کرتاپور بارڈر کھول کر مذہبی رواداری کا اعلیٰ مظاہرہ کیا ہے مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ دوسری جانب مسلمانوں سے اُن کی عبادت گاہ چھینی جا رہی ہے گو یہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے مگر اِسکی متنازعہ ٹائمنگ بتا رہی ہے کہ یہ ایک خاص مائنڈ سیٹ کا حصہ ہے جسے متعصبانہ اور جانبدارانہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
11 ۔ اگست 1947ء کو جب تقسیم ہند ہو گئی تو انہوں نے اپنے نظریے کا اظہار ایک اجلاس میں کیا ’’آپ لوگ یہ لازمی یاد رکھیں کہ جیسا کہ میں نے کہا یہ طاقتور انقلاب مثالی انقلاب ہے۔ اِن دو قوموں کے درمیان پائے جانیوالے احساسات کو کوئی بھی آسانی سے سمجھ نہیں سکتا۔ جہاں ایک اکثریت (ہندو) اور دوسری اقلیت (مسلمان) میں ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اور طریقہ قابل عمل یا ممکن تھا۔ جیسا کہ ہوا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں میں ایسے لوگ ہیں جو اِس سے رضامند نہیں ہونگے اور اس کو پسند نہیں کرتے مگر میرا خیال ہے کہ اِسکے علاوہ کوئی حل نہیں تھا اور مجھے یقین ہے کہ آنیوالی تاریخ اپنا فیصلہ اِسکے حق میں دیگی اور جیسے تیسے ہم آگے جائینگے ہمارا تجربہ ثابت کر د یگا کہ یہ ہندوستان کے آئینی مسائل کا واحد حل تھا۔ آج ہندوستان میں بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ ہوا۔ گجرات میں ان کا قتل عام ہو۔ کشمیر میں لاکھوں کشمیریوں کی شہادت اور ا’ن کا لاک ڈائون یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال نے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کا درست خواب دیکھا تھا اور لاکھوں مسلمانوں کی شہادتوں سے یہ خواب عملی تعبیر حاصل کر سکا۔ ہمارے آبائو اجداد کی قربانیوں نے پاکستان کے مسلمانوں کو آزاد زندگی اور معاشی خوشحالی سے روشناس کرا دیا۔ اپنے ملک میں وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ ہندوستان کے مسلمان اسقدر خوف کا شکار ہیں کہ وہ کھل کر بابری مسجد کے متعلق فیصلے کی مذمت بھی نہیں کر سکتے ہیں جبکہ پاکستان میں ہمارے ہاں لوگ سرعام عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنے پر آزاد ہیں مثلاً شاہی امام سید احمد بخاری کا کہنا ہے ریویو پٹیشن دائر کرنا ٹھیک نہیں لگتا ہے۔ ساتھ ہی اُنہوں نے کہا ہے کہ اس فیصلے کو قبول کیا جانا چاہئے۔ بابری مسجد معاملے کی مدعی اقبال انصاری نے اِس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ خوشی ہے کہ مسئلہ سلجھ گیا ۔ وہ فیصلے کو چیلنج نہیں کرینگے۔ بابری مسجد کے تنازعے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد اترپردیش میں ایودھیا کی بابری مسجد کے صحن میں ایک چبوترے کے بارے میں چند بیراگیوں نے 1949ء میں اچانک دعویٰ کر دیا کہ یہاں رام پیدا ہوئے تھے۔ مسجد کو تالا لگا دیا گیا۔ چبوترے پر مورتیاں رکھ دی گئیں۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان یہ تنازعہ چلتا رہا حتیٰ کہ 1981ء میں مسز گاندھی نے ہندوئوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے بھارت کی سیاست میں فرقہ پرستی کا زہر گھولا۔ اِس مسجد کے متعلق ہندوئوں کے دعوئوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ہندو پہلے صرف چبوترہ کو رام رام کی جائے پیدائش کہتے تھے۔ اب مسجد والے حصے کو بھی اِس میں شامل کر لیا گیا۔ 1983ء سے انتہا پسند ہندو مذہبی تنظیموں و شوا ہندو پریشد اور آر ایس ایس نے اپنی سیاسی شہرت بڑھانے کیلئے اِس نعرے کو استعمال کیا۔ رتھ یاترائوں کے ذریعے ہندوئوں میں اشتعال پھیلایا کہ بابری مسجد، رام جی کا مندر تھا اور مسلمانوں کے بادشاہ بابر نے جبراً اُسے توڑ کر مسجد بنایا تھا۔
بابری مسجد کا معاملہ تو اُسکی شہادت کی وجہ سے کافی مشہور ہو گیا۔ ہندوستان میں ہزاروں مسجدوں پر غیر مسلموں کا ناجائز قبضہ ہے اِن میں مویشی باندھے اور رکھے جاتے ہیں یا اِن میں کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے۔ عدالتیں اور انتظامیہ ان کا کوئی نوٹس نہیں لیتی ہیں۔ اس فیصلے کے بعد ہندو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پورا ہندوستان رام کی جنم بھومی ہے تو کیا پھر پورے ہندوستان کی مساجد میں رام کی مورتیاں رکھ دی جائیں گی اور بعد میں اُن کو مندر بنا کر اِن پر قبضہ کر لیا جائیگا۔ آر ایس ایس نے ہزاروں مساجد کی فہرست تیار کی ہوئی ہے جو مندروں کو توڑ کر تعمیر کی گئی ہیں۔ دوسری طرف ہندوئوں کا عقیدہ یہ ہے کہ زمین اپنے پیدائش سے لیکر اب تک دو مرتبہ تہہ و بالا ہو چکی ہے تو پھر اِسکے باوجود اُنکے نام نہاد خدا جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ بابری مسجد میں چبوترے کی نشاندہی جوتش کی مدد سے کی گئی ہے۔ ہندو علما شری رام کو پوری کائنات میں جاری و ساری تسلیم کرتے ہیں لہٰذا یہ بات آج واضح ہو گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے اِس فیصلے نے بھارت کے کروڑوں مسلمان کے حقوق کو غصب کیا ہے۔ بابری مسجد کو مندر میں تبدیل کر دینے کا اقدام سیکولر ازم میں دی گئی مذہبی آزادیوں کو کچلنے کے مترادف ہے۔ اگر کسی سیکولر نظام کے دعویدار ملک میں ایک طاقتور فرقہ کمزور فرقے کے حقوق غصب کرے تو کیا ایسے نظام کو سیکولر نظام کہا جا سکتا ہے۔ بابری مسجد مسلمانوں کے ہندوستان میں تشخص کی علامت تھی۔ یہ مسجد بھارتی معاشرے کیلئے کڑا امتحان بن چکی ہے آج قائد اعظم تاریخ نے درست ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کا مسئلہ تبھی حل ہو گا جب اقلیت اکثریت ایک علیحدہ قوم کی حیثیت سے زندہ رہے وگرنہ ہندوئوں کے دیس میں مسلمانوں کو آئین اور قانون کے مطابق منصفانہ تحفظ نہیں ملے گا۔ شاید یہ کبھی ممکن نہ ہو اب ہندوستان کے مسلمانوںکو یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ بھارت میں حکومت صرف ہندوئوں کی ہے۔ حکومت میں مسلمان شامل نہیں ہیں۔