عدل و انصاف کی اہمیت
انسانی تاریخ میں عدل کو جو اہمیت دی گئی ہے اس کے قیام ونفاذ کے جو بھرپورفائدے انسانوں کوحاصل ہوئے ہیںاس سے روگردانی یااسے نظر انداز کرنے کا جس قدر نقصان اور خسارہ بنی نوع انسان نے بھگتا ہے اس کی نظیر کسی بھی دور میںآسانی سے تلاش کی جاسکتی ہے اور کوئی دوسرا رویہ فائدہ اور نقصان پہنچانے کے حوالے سے اس عدل کے برابر نہیں ہوسکا۔ وہ قومیں جنہوں نے عدل کی اہمیت کوجان لیا پہچان لیا اور مان لیا وہ اقوام عالم میں نمایاں ہوگئیں۔ پاکستان جن ہمہ جہت مصائب و مسائل کی آماجگاہ بنا ہوااور کسی سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہورہا بلکہ کسی مسئلہ کو حل کرنے کیلئے کی جانے والی ہر جدوجہد ناکام ہورہی ہے۔ اسکا اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے اور دیانتداری سے تحقیق کی جائے تو ایک بات کھل کر سامنے آجائیگی کہ عدل کے قیام میں اہل وطن سے انفرادی اور اجتماعی طور پر عوامی اور حکومتی سطح پر اس حدتک بھول ہوئی اس قدر غلطیاں ہوئی ہیں کہ اس بھول او ر غلطیوں کی سزا مسلسل بھگتنے کے باوجود یہ سزاختم نہیں ہورہی کم نہیں ہورہی اور یقینا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک صدق دل سے اس کو (اگر علمائے کرام معاف کردیں اور اسے گناہ کبیرہ کہنے کی اجازت دیدیں تو درست وگرنہ) غلطی کی معافی نہیں مانگی جاتی۔ اس سے توبہ نہیں کی جاتی اور عدل کو صرف عدالتوں تک ہی محدود کرنے کی سوچ سے نجات نہیں حاصل کی جاتی بلکہ عدل کوانفرادی، اجتماعی، عوامی، حکومتی بلکہ ہرسطح پر نافذ نہیں کردیا جاتا۔ اس میںشک نہیں کہ عدل کے قیام و نفاذ کی سب سے زیادہ ذمہ داری عدلیہ پرعائد ہوتی ہے اس لئے آزاد عدلیہ کی مہذب معاشروں میں آرزو بھی کی جاتی ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کی جب بھی کہیں کوشش ہوئی وہ انتظامیہ کی رسوائی و ذلت کا موجب بھی بنی اور اسکے اقتدارکے خاتمے کا ذریعہ بھی۔ آزاد عدلیہ کسی بھی ملک کے عوام کی بنیادی ضرورت تصور ہوتی ہے۔ اسی لئے انصاف کی فراہمی کویقینی بنانے کیلئے صاحبان اقتدار کواپنے عوام سے وعدے وعید بھی کرنا پڑتے ہیں۔ عدلیہ اپنی آزادی کی حفاظت خود بھی کرتی ہے اورجس معاشرے میں عدلیہ نے اپنے اس فرض منصبی سے ذرا سی بھی غفلت برتی یا اسکے کسی ذمہ دار فرد نے عدل کے قیام و نفاذ اور عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے کہیں کسی بھول چوک کا مظاہرہ کیا وہاں عدلیہ پرعوام کا اعتماد کمزور پڑ جاتا ہے جو کسی قوم کی تباہی و بربادی کیلئے ایک بہت ہی مضبوط اور طاقتور حوالہ بن جاتا ہے۔ ایسے ہی تو چرچل نے دوسری جنگ عظیم کے موقع پر جرمنی کی عسکری برتری اور انگلستان کی کمزور فوجی پوزیشن کے باوجود بڑے پراعتماد لہجے میں نہیں کہا تھا جب تک انگلستان کا عدالتی نظام ٹھیک کام کررہا ہے۔ لوگوں کو انصاف مل رہا ہے انگلستان بالکل محفوظ رہے گا۔
پاکستان کی معروضی صورتحال کوئی زیادہ حوصلہ افزا اور خوشگوار نہیں عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے اور عدل و انصاف کے قیام و نفاذ اور فراہمی و دستیابی کے حوالے سے سامنے آنیوالے تینوں فریقوں کا کردار مثالی نہیں بلکہ کردار میںایسی کجی پیدا ہوچکی ہے جسکی اگر اصلاح نہ کی گئی تو تباہی و بربادی کی جانب ہمارے سفر کرنے کی رفتارخدا نخواستہ بہت تیز ہوجائیگی چونکہ پاکستان اسلام کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کے عملاً نفاذ کیلئے حاصل کیا گیا تھا اس لئے اس ایک شعبہ کی طرف بھرپور توجہ دینا عدلیہ، حکومت اورعوام سبھی کی ذمہ داری ہے۔ حضرت علیؓ کے اس فرمان کا اگر غور سے جائزہ لیں جس میں آپ نے فرمایا معاشرہ کفر کے ساتھ تو باقی ر ہ سکتا ہے انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، تو عدل و انصاف کی اہمیت اس طرح واضح ہو جاتی ہے کہ کسی تشریح و وضاحت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ دوسری بڑی شخصیت جس نے عدل کی اہمیت کو انتہائی مختصر مگرموثر انداز سے بیان کیا ہے وہ امام غزالیؒ ہیں جنہوں نے فرمایاکہ اگر اللہ تعالیٰ اس دنیا سے اپنی آخری کتاب قرآن مجید واپس لے لے اورانسانوں کیلئے صرف ایک لفظ رہنے دے ’’اعدلوا‘‘ یعنی عدل کرو تو بھی معاشرہ زندہ و سلامت رہ سکتا ہے۔ قرآن نے انصاف کی فراہمی میںعام مسلمانوں کواپنی ذات اپنے قریبی اعزہ اور تعلق والے سبھی افراد کو عدل کی راہ میںرکاوٹ بننے یابنانے سے خبردار رہنے کا حکم دیا ہے۔ سورۃ النساء میں اگرچہ قیام عدل کیلئے نہ تو گواہی دینے سے گریز کرنے یا خاموشی اختیار کرنے کی اجازت ہے نہ سچائی کو اس لئے توڑنے مروڑنے کی اجازت کہ اسکے اظہار سے سچ بولنے والا خود پھنس رہا ہے اور اسکی گرفت میں اسکی قریبی اعزہ آرہے ہیں بلکہ عدل و انصاف کے قیام میں مددگاربننے والے مومن پر یہ واضح کردیا گیاہے کہ اسے اپنی یا اپنے رشتہ داروں کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں اوراپنے نفس کی خواہش پوری کرنے کی کوشش نہیں کرناچاہئے کیونکہ یہ اللہ کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ عمل ہوگا پھر سورۃالمائدہ میں ایک دوسرے انداز سے اہل ایمان کو انصاف کی گواہی دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری ہے ’’اے ایمان والو اللہ کی خاطر سچائی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو عدل کرو خدا اس سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرتے رہو۔ اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘
آج ہم عدل و انصاف سے جس حد تک محروم ہیںاسکی تجدید کیلئے ہر سطح پر کوشش کرنا ہوگی انفرادی سطح پر کوشش کاآغاز ہر شخص فوراً کرسکتا ہے اس نے جہاں انصاف کی فراہمی میں کوئی دبائو قبول کر کے انصاف کونافذ ہونے سے روک دیا ہے وہ خدا سے توبہ کرے اوراپنے رب کی خاطر انصاف قائم کردے دبائوڈالنے والے اس کا بال بیکانہ کرسکیں گے۔ جوانصاف کی فراہمی کومحض اس لئے روک رہے ہیں اورانصاف نافذ کرنے والے پردبائو ڈال رہے ہیں کہ فریق ثانی ان کا حامی نہیں یااس سے انہیں کوئی خطرہ ہے وہ بھی اس بے لذت گناہ سے توبہ کریں۔ اس سے پہلے کہ انصاف و عدل کی فراہمی میںرکاوٹ بننے کے جرم میںان سے وہ حیثیت چھین لی جائے جواس دبائوکا موجب بنی ہے۔ جوکسی فرد یاگروہ کے مشتعل کرنے کی وجہ سے انصاف سے پھر گئے ہیں ان کیلئے بھی توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوا اوران کی توبہ یہ ہے کہ وہ انصاف پرواپس آجائیں۔
گویا ہم میں سے ہر شخص کو اپنے ساتھ اپنے گھر والوں اورعزیزوں کیساتھ اپنے رابطے میں آنے والے دوسرے انسانوں کے ساتھ عدل کرنے میں کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔ حقوق اللہ اورحقوق العباد کی اس طرح ادائیگی جس طرح قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے قیام عدل کو آسان بنا دے گی۔ اس طرح انصاف کے معاشرہ میں زندہ نہ رہنے کا خطرہ ختم ہو جائے گا۔ اگر انفرادی سطح پر یہ رویہ عام ہو جائے تو حکمران اسے اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور عدلیہ اپنی ذمہ داری نبھانے اور عدل کی محافظت کرنے میں زیادہ موثر ہو جائے گی۔ اب پاکستان کے ہمہ جہت اور ہمہ گیر مصائب و مسائل سے نجات کا یہی آسان راستہ ہے کہاللہ کی خاطر گواہی دینے اور عدل قائم کرنے کے حکم پر بلاتاخیرعمل شروع کردیا جائے کیونکہ اب اس کو مزید موخر کرنے کا ہمارے پاس وقت نہیں بچا‘ عدل کے لئے کسی فردکی خوشنودی کی بجائے رضائے خداوندی کی طرف دیکھنے والوں کی کامیابی و کامرانی کی بشارت تو کوئی بھی دے سکتا ہے۔جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں اور بار دگر اس لئے عرض کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ مسئلہ جتنا اہم ہے اس کی اہمیت کا ہمیں اندازہ نہیں اور جس طرح ہم ا کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں اس سے ہونے والی قومی‘ ملّی‘ اجتماعی اور انفرادی بربادی کا ہمیں شعور نہیں ہم اس بات سے بالکل بے خبر ہیں۔
آج پاکستان میں زندگی کے جملہ شعبوں میں جو بگاڑ پیدا ہو چکا ہے اس کی اگر اکلوتی نہیں تو سب سے بڑی وجہ عدل کا تصور‘ افراد اور قوم کے ذہن سے مفقود ہو جانا یا مٹ جانا ہے۔ اس لئے یہ بات مان لینی چاہئے کہ عدل واقعی انفرادی اور اجتماعی سطح پر نظر نہیں آتا۔ انفرادی اجتماعی اور قومی سطح پر عدل کا تصور صرف عدالتوں سے وابستہ کر کے اس کی ہمہ گیریت پر ضرب لگائی گئی اور اس کے بھرپور کردار کو محدود کردیا گیا ہے۔ یہ بات بھی مکرر اور بار دگر کہنے کی اجازت دیجئے کہ عدل کی ہمہ گیریت اوراس کی بے پناہ اہمیت کے پیش نظر ہی امام غزالیؒ نے فرمایا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنی آخری کتاب جو بنی نوع انسانوں کیلئے چشمہ ہدایت ہے اگر اللہ تعالیٰ واپس لے لے اور بنی نوع انسان کے لئے صرف ایک لفظ ’’اعدلو‘‘ یعنی عدل کرو رہنے دے تو بھی انسانی زندگی کو ہموار‘ مطمئن اور کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔ (جاری)