’’ڈینگی مچھر‘ کا انسداد‘‘ اور حکمران
مکرمی! اس ’’ڈینگی مچھر‘‘ نے اس ارض‘ پر خوف و ہراس‘ کی ایک فضاء قائم کر رکھی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ’’پر خطر ڈینگی مچھر‘‘ جسکی غیر ملکی افریقہ‘ سے اس کی افزائش ہوئی تھی یہ (ڈینگی مچھر) برصغیر ہند‘ کے ’’مچھر‘‘ سے جسامت کے لحاظ سے تین گناہ بڑا ہے‘ اس کے کاٹنے سے احتیاطی‘ کے سبب ’’انسانی ہلاکت‘‘ کا ہونا لازم ہے اور جس کا ’’بروقت علاج کیا جانا ضروری ہے۔ ’’جدید میڈیکل ریسرچ‘‘ کے مطابق یہ انسانی خون کے ’’سفید سیلز‘‘ جو کہ بیرونی دیگر وائرسز‘ سے محفوظ رکھتے ہیں کو تلف کر کہ ’’انسانی ہلاکت‘‘ کا سبب بنتا ہیں۔ ایک جریدہ کے کالم نگار جو کہ اپنی دکھ بھری اور آپ بیتی ’’ایک شکایت نامہ‘‘ کے طور پر فرما رہے تھے۔ وہ موصوف اپنی رہائش گاہ کے قریب ایک دودھ فروش جیسے عام فہم زبان ہیں گوالے کے نام سے پکارا جاتا ہے کی وجہ سے سینکڑوں مکینوں کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا بھینسوں کے گوبر میں گانگو وائرس ڈینگی سے زیادہ خطرناک نہیں۔ اس پر لوگوں کا اتفاق کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے‘ کیا ان مذکورہ بالا مچھروں کی اقسام اور ان کے زہر آلود کاٹنے سے بچائو کرنا ممکن ہے… ’’حکومت وقت اور انتظامیہ کے لئے یہ مذکورہ بالا معروضات پیش خدمت ہیں تا کہ اس وطن عزیز پاکستان کے عوام کسی مزید اندوہناک سانحہ سے دوچار نہ ہو سکیں اور حکومت سپرے کے کام کو تیز کرے۔(امتیاز علی خان ترین‘ نسبت روڈ لاہور)