کشمیریوں کے اسلامی تشخص پر بھی بھارتی حملہ!
مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو کرفیو کی اذیت جھیلتے آج 102 دن ہو گئے ہیں۔ ان کی امیدوں کا مرکز پاکستان ہے یہ اُمیدیں ہی تمام تر اذیتیں برداشت کرنے کے لیے انہیں حوصلہ بخش رہی ہیں اندازہ کیا جا سکتا ہے پاکستان کی جانب سے کسی کوتاہی یا سردمہری کا احساس ان کے لیے کس قدر حوصلہ شکن ہو سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر ہی نہیں پاکستان کے طول و عرض میں بھی یہ جانگسل احساس جڑ پکڑ رہا ہے کہ موجودہ حکومت مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جو کرنا چاہئے تھا وہ نہیں کیا جا رہا ۔ عمران خان کی اقوام متحدہ میں تقریر کو ہی یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ پاکستان جو کچھ کر سکتا ہے یہ تقریر کر کے وہ سب کچھ کر دیا گیا ہے ۔ حریت کانفرنس کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے وزیر اعظم عمران خان کے نام جو خط تحریر کیا ہے اس کا پس منظر یہی ہے۔ گیلانی صاحب نے بڑے دکھ کے ساتھ تحریر کیا ہے شاید یہ وزیر اعظم پاکستان سے ان کا آخری رابطہ ہو اس خط میں پاکستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اہم اور ٹھوس فیصلوں کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے چنانچہ پاکستان بھارت کے ساتھ کئے گئے شملہ اور لاہور معاہدوں کی تمام شقوں سے دستبرداری کا اعلان کرے اور کنٹرول لائین کو دوبارہ جنگ بندی لائن کا درجہ دیا جائے کیونکہ بھارت نے موجودہ صورتحال کو دوبارہ 1947-48 ء کی صورتحال میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس طرح کنٹرول لائن پر باڑ لگانے کے معاہدے کو بھی ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
بھارت میں مودی سرکار نے مسلمان اقلیت کا تشخص ختم کرنے کے لیے بھارت کے مختلف شہروں میں اہم شاہراہوں اور عمارات ، مقامات کے نام مسلمان ناموں سے منسوب تھے ’’تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہواہے اور اب مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد وہاں بھی مختلف شاہراہوں، عمارات اور مقامات کے نام تبدیل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے اور انہیں آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں کے ناموں سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ مثلاً جموں و کشمیر ہائی وے پر گیارہ کلومیٹر طویل سرنگ چنائی ناشری کا نام آر ایس ایس کے شیاما یرما مکھر جی سے منسوب کر دیا گیا ہے اس طرح سرینگر کے سٹیڈیم اور دیگر مقامات کے نام بھی تبدیل کئے جا رہے ہیں۔بھارت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے صرف ان کی زمین ہی ہڑپ نہیں کرنا چاہتا بلکہ ان کی ثقافت اور تشخص پر بھی ڈاکہ ڈالنے کے درپے ہے۔ بھارت کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی فیصلوں کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے عوام ایک طویل مدت سے کرفیو کی اذیت برداشت کر رہے ہیں افسوس اس سلسلے میں عالمی ضمیر تو سویا ہوا ہی ہے مسلمان حکمران بھی اس ظلم کی جانب آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان بھی حد درجہ افسوس کہ اس حوالے سے ’’گفتار کی غازی‘‘ کی بنی ہوئی ہے۔ سید علی گیلانی نے اپنے خط میں جسے انہوں نے بیماری اور بڑھاپے کے باعث پاکستان سے ممکنہ طور پر آخری رابطہ قرار دیا ہے۔ شملہ اور لاہور معاہدوں کی تمام شقوں سے دستبرداری کی جو تجویز پیش کی ہے ا گر اس پر عملدرآمد کیا جائے تو یقیناً پوری دنیا اس جانب ضرور توجہ دے گی۔ اس طرح کے خطابات بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے دنیا کو متوجہ نہیں کر سکے ہیں لہٰذا عالمی توجہ مبذول کرانے کے لیے اہم اور ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔ پاکستان کی جانب سے امن پسندی ظاہر کرنے کے لیے مسلسل یہ بات کہ بھارت کے رویہ سے نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے ہم جنگ نہیں امن چاہتے ہیں۔ عالمی برادری کو مطمئن رکھے ہوئے ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ظلم و زیادتی کے مرتکب بھارت کے خلاف جب پاکستان کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گا جس سے امن خطرے میں پڑے تو بھارت پر دبائو ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بھارتی فوج کے ظلم و ستم، آج 102 دن میں داخل ہونے والے کرفیو، کشمیریوں کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے بھارتی اقدامات رکوانے کے لیے اہم اور ٹھوس فیصلے کئے جائیں ۔ سید علی گیلانی کا خط مقبوضہ کشمیر کے مظلوم لوگوں کے جذبات کا عکاس ہے۔ یہ جذبات آج جن میں شکوہ کی قدرے آمیزش محسوس ہو رہی ہے مایوسی میں نہ بدل جائیں۔
پاکستان تو بھارتی سکھوں کو اپنے مذہبی رسومات کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر کے کرتار پور راہداری کی سہولت فراہم کر رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں دس محرم کو ماتمی جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی نہ بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی منانے کی اجازت دی ۔ اس روز بھی سرینگر بالخصوص اور دیگر شہروں میں مساجد بند رکھی گئیں بلکہ کرتار پور راہداری کھولنے کا ’’شکریہ‘‘ بابری مسجد ہندوئوں کے حوالے کر دیا گیا۔