دوہرا معیارِ تعلیم اور گھمبیر طبقاتی جنگ
حکومتوں ا ور معاشروں کی ترقی میں تعلیم کا بنیادی رول ہے۔ دنیا میں وہی معاشرے اور ملک ترقی کرتے ہیں اور اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہیںجو تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ یورپی معاشرے اِسی لیے ترقی یافتہ ہیں کہ انہوں نے اپنے تعلیمی نظام پر خصوصی توجہ دی اُسے وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا ، جدید خطوط پر استوار کیا۔ مقصدِ تعلیم اور حصولِ علم جن کا نصب العین اور ضابطۂ حیات ہو، وہ کبھی زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہیں رہتے۔ ہم کسی بھی یورپی ملک کو لے لیں، اُنکے تعلیمی نظام اور اصلاحات پر نظر دوڑائیں تو محسو س ہو گا کہ انہوں نے تعلیم کو بامقصد بنانے کیلئے حکومتی ہی نہیں، نجی سطح پر بھی کافی کاوشیں اور کوششیں کیں، اِس میں کامیاب بھی رہے۔ اِن ملکوں میں ترسیلِ علم یا حصولِ تعلیم کیلئے ایسے اساتذہ کا چنائو اُن کی اوّلین ترجیح رہی جو غیر معمولی علمی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں یا جن میں دوسروں کو علم منتقل کرنے کا لازوال قدرتی ہُنر یا کمال ہوتا ہے۔پاکستان کا تعلیمی حوالے سے ذکر کریں تو ہم خود کو اس دوڑ میں بہت پیچھے پائیں گے۔ اگر ہم اِن تلخ حقیقتوں کو دیکھیں، اور کوئی بند باب کھولیں تو محسوس ہو گا کہ ان گزرے ہوئے سالوں میں ہم نے ترسیل علم کیلئے کچھ نہیں کیا بلکہ دوہرا معیارِ تعلیم قائم کر کے اپنے معاشرے کو دو واضح طبقوں میں تقسیم کر دیا جس سے بے چینی پھیلی اورگھمبیر طبقاتی جنگ کا آغاز ہُوا۔یہ مسلمہ اُصول ہے کہ جو معاشرہ طبقات میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ وہاں نفسیاتی جنگ رہتی ہے اور معاشی جنگ بھی شروع ہو جاتی ہے۔کسی بھی نظامِ تعلیم میں پرائمری سطح کی تعلیم مضبوط تعلیمی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ پرائمری تعلیم اگر بہتر یا مضبوط ہو گی تو آپ کا اگلا تعلیمی اسٹرکچر بھی بہتر اور مضبوط تر ہوتا جائیگا ورنہ ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ گزشتہ 40سالوں سے پرائمری سطح پر تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ایسے پرائمری سکولوں کی بنیاد نہیں رکھی گئی جس سے تعلیمی میدان میں کئی انقلاب برپا ہوتا۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا پرائمری سطح کی تعلیم نرسری کا کام دیتی ہے۔ یہ مضبوط ہو گی تو مڈل، ہائی، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر بھی اس کا لیول بہتر ہو گا اور اس سے اچھی اور معیاری تعلیم کے دروازے کھلیں گے۔ یہی وہ بنیادی کلیہ ہے جس پرپوری دنیا میں عمل ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اس میدان میں پیچھے نہیں بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے محلوں اور گلی کوچوں میں جو پرائیویٹ سکول کُھلے، انہوں نے پورے تعلیمی نظام کا ہی بیڑہ غرق کر دیا۔ اِن سکولوں کے منتظمین نے اساتذہ پر مشتمل ایسا سٹاف رکھا، جن میں سے اکثریت میٹرک پاس ہوتی ہے یا انڈر میٹرک۔ تعلیمی میدان میں کسی کو علم منتقل کرنا ایک بہترین ہُنر یا فن ہے۔ تربیت ہو تو اُسکے بعد ہی کسی میں ایسی صلاحیت پیدا ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو علم منتقل کر سکے۔ جو خود علم سے بے بہرہ ہو گا وہ دوسروں کو کیا بتا اور سکھا سکے گا۔ میں نے چند ماہ پہلے کچھ ایسے سکولوں کا وزٹ کیا، جو پرائمری سطح کے تھے۔ بات چیت کے بعد معلوم ہوا کہ ان سکولوں میں تعینات ٹیچرز ، تعلیم دینے کے بنیادی اوصاف سے محروم ہیں۔ اُنکی تعلیم واجبی تھی۔ کوئی میٹرک تھا یا ایف اے۔ یہ دیکھ کر اور بھی دُکھ ہُوا کہ شہر کے گلی محلوں میں جو بھی سکول کھلے ہوئے ہیں وہ تعلیم نہیں دے رہے بلکہ تعلیم کے نام پر تجارت کر رہے ہیں۔ فیسیں تو بڑی بڑی لے رہے ہیں لیکن بامقصد تعلیم فراہم کرنے کیلئے اُنکے پاس کوئی ڈگری یا تجربہ نہیں۔ بھلا کوئی میٹرک یا ایف اے پاس بھی ایسی تعلیم دے سکتا ہے جو تعلیم دینے کیلئے ضروری ہے یا اس کیلئے ضروری قرار دی گئی ہے۔جیسے پودے نرسریوں سے ملتے ہیں، پھر کہیں بھی لگا دیا جائے تو تناور درخت بن جاتے ہیں ایسے ہی پرائمری سکول بھی ان نرسریوں کی مانند ہیں۔ تاہم آج تک ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ہمارے ہاں جتنی بھی جمہوری یا غیر جمہوری حکومتیں آئیں سب نے ہی تعلیمی اصلاحات کی بات کی لیکن ہم نے کسی بھی دور حکومت میں ان ’’اصلاحات‘‘ کو عمل پذیر نہیں دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اب بالکل برباد ہو چکا ہے۔ سرکاری سکولوں کا جو حال ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ہم اُس طرف بھی کوئی توجہ نہیں دے سکے۔ ہم نے ان سرکاری اسکولوں میں بی اے بی ایڈ ٹیچرز تو بھرتی کر لئے لیکن یہ نہیں دیکھا کہ کیا اُن میں علم منتقل کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے؟ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا سرکاری سکولوں پر سے اعتماد اُٹھ گیا اور رجحان پرائیویٹ سکولوں کی طرف ہو گیا۔ ان سکولوں کی کہانی بھی کافی حوصلہ شکن ہے۔ تجارت کرنے والوں نے تعلیم کو تجارت سمجھ لیا اور ارب پتی بن گئے ۔اِسے معاشرے کی بدقسمتی ہی کہیے کہ گھی اور تعلیم بیچنے والے جب میڈیا ہائوسز اور ایجوکیشن جیسے اہم انسٹی ٹیوشنز چلانے لگیں اور اُنکے ہیڈ بن جائیں تو یہی ہو گا، جو آج ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ اِن شعبوں میں ہم مسلسل زبوں حالی کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے گھروں میں سکول قائم کر لئے۔ ڈربہ نما کمروں کو کلاسز کا نام دے دیا۔ جن میں نہ کوئی پلے گرائونڈ، نہ لائبریری، نہ لیب جو قواعد و ضوابط کے مطابق کسی بھی سکول کیلئے اہم اور ضروری ہے۔ تعلیمی بورڈ کی طرف سے سکولوں کے قیام کیلئے جو قواعد بنائے گئے ہیں، افسوس کہ اُن پر عمل نہیں ہوتا۔ جو اِن ضوابط کی پاسداری کرانیوالے ہیں وہ بھی کہیں آنکھیں بند کر کے سوئے ہوئے ہیں۔ چونکہ چیک اینڈ بیلنس نہیں، اس لیے ایسا ہو رہا ہے۔ تعلیم کے نام پر یہ پوری قوم سے کھلواڑ ہے جہاں اچھی تعلیم نہیں، وہاں اچھی قوم بھی وجود میں نہیں آ سکتی۔ اس لیے اس معاملے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔