گلگت کے یوم آزادی پررونق تقریبات
یوں تو وطن عزیز کی آزادی کے بعد سے اب تک پاکستان کی آزادی اور گلگت بلتستان کی آزادی کا دن پورے علاقے میں روایتی طریقے سے منایا جاتا رہا ہے اورنپے تُلے انداز میں لکھی ہوئی تقریریں اور خطابات اور چند سیاسی شخصیات کی پُرجوش تقریریں ہوتی رہی ہیں۔ گلگت کے چنار باغ میں شہدا کی یاد گار پر پھو لوں کی چادر چڑھا نا، فاتحہ خوانی اور گارڈ آف آنر پیش کرنا روایت ہے بالکل اسی طرح سکردو میں بھی یادگار شہدا پر ایسی ہی تقریب ہوتی رہی ہے لیکن اس سال یکم نومبر کو یوم آزادی گلگت کے موقع پر کمانڈر FCNAنے یہ روایت توڑ کر ایک ایسی تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ کیا جس میں گلگت بلتستان کے تمام علاقوں سے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمایندہ افراد خصوصاـــجنگ آزادی گلگت 1947اور جنگ آزادی بلتستان1948کے اُن غازیوں اور ہیروز کو مدعوکیا گیا جن کو آج تک اس طرح کی کسی مرکزی تقریب میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ۔ شاید اس سے پہلے حکمرانوں ،سیاست دانوں، عوامی نمائیندوں سرکاری وفوجی حکام نے ایسا ضروری نہیں سمجھا۔ شاید اُن کو ان ہیروزکی قدر وقیمت، اہمیت ، خدمات اور قربانیوں کا اندازہ نہیں تھا یا اُنہوں نے اِن ہیروز کی قربانیوں کو پس پشت ڈال دیا۔ لیکن کمانڈر FCNAجنرل احسان محمود خان نے یہ71 سالہ روایت توڑدی اور اُن کو بلا کر نہ صرف اُن کو احترام اور عزت دی اور اس مرکزی تقریب کی شان کو دوبالا کر دیا بلکہ سابقہ حکمرانوں کو اس بات کا بھی احساس دلایا کہ اگر یہ ہیروز اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر رکھ کر ڈوگروں کے خلاف جنگ لڑ کر یہ علاقے آزاد نہ کرواتے تو آج ہم کسی اور کم ترحیثیت میں ہوتے اور ہماری کیا حالت ہوتی۔ اِ ن ہیروز کو تقریب میں مدعو کرنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ ہماری تیسری نسل کو یہ بتایا جائے کے قیام پاکستان اور گلگت بلتستان کی آزادی کے لئے بے شمار، بے بہا قربا نیاں اور شہا دتیں دی گئیں اور ہم ڈوگروں سے علاقہ آزاد کروانے میں کامیاب ہوئے۔کیونکہ تیسری نسل کو تو بنابنایا پاکستان ورثے میں ملا تھا اُن کو عظیم قربانیوں اور شہادتوں کاعلم ہی نہیں۔ایک مقصد یہ بھی تھا کے ان ہیروز کو یہ احساس دلایا جائے کے قوم نے اپکی قربانیوں اور شہادتوں کو نہیں بُھلایا ہے بلکہ آپ کی قربانیوں کے شکر گزار ہیں کیونکہ اللہ کے فضل اور آپ کی ہی قربانیوں اورشہادتوں کے نتیجے میں آج ہم میں سے کوئی گورنر، کوئی وزیر اعلیٰ، کوئی وزیر، کوئی مشیر ، کوئی ممبر اور کوئی اعلیٰ سول اور فوجی آفیسر کی حیثیت سے موجود ہیں۔اور یہ سب آپ لوگوں کی ہی مرحون منت ہے۔ تیسرا مقصد یہ بھی تھا کہ ان علاقوں کے لوگوں کے دلوں میں پاکستان کے ساتھ دلی عقیدت اور محبت کے جذبات کو ملک کے دوسرے حصوں کے عوام تک پہنچایا جائے اور ساتھ ہی مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں کے ساتھ ان علاقوں کے لوگوں کی دلی وابستگی اور محبت کے جذبات کے حوالے سے پیغام دیا جا سکے۔ ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تمام لوگوں کو جمع کر کے ایک دوسرے کے علاقوں اور صوبوں کی زبان ، تہذیب و ثقافت ، ادب ، رواج، رہن سہن اور تاریخ سے روشناس کرایا جائے تاکہ لوگوں کے دلوں میں پاکستانیت اور قومی یکجہتی کو مزیدمضبوط اور مستحکم کیا جا سکے۔ اگر چہ گلگت سے باہر کے شرکاء کو کمانڈر FCNAنے آرمی پبلک سکول گلگت میں FCNAکے زیر اہتمام ہونے والی تقریب میں دعوت دی تھی لیکن تمام شرکاء نے چنار باغ کی تقریب میں بھی شرکت کی ۔ چنار باغ گلگت کی تقریب کے شروع ہونے سے پہلے کمانڈرFCNAجنرل احسان محمود خان نے ایک ایک ہیرو زاور غازیوں سے ملاقات کی اور اُن کی خیریت دریافت کرتے ہوئے اُن کی گلگت آمد کا شکریہ ادا کیا۔ آرمی پبلک سکول کی تقریب میں کمانڈر FCNAکی فی البدیہہ اور پُرجوش تقریر نے شرکاء کے دلوں کو چُھو لیا۔ اپنی تقریر میں اُنہو ںنے کوئی ایسا پہلو نہیں چھوڑا جس پر بات نہ کی۔ ادب،ثقافت، شاعری، اسلام، پاکستان، تہذیب تمدن، مہمان نوازی، زبان، جغرافیہ، روایات ، تعمیر و ترقی، جنگ آزادی اور ان علاقوں میں فوج کے کردار پر سیر حاصل بحث کی۔ علاقے کی تعمیر و ترقی کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے یقین دلایا کے جی بی حکومت کے ساتھ مل کر وہ تمام شعبوں خصوصاََ تعلیم کی ترقی کے لئے گاوں گاوں جائیں گے اور کوئی بچہ تعلیم کے بغیر نہیں رہے گا۔ اس سلسلے میں FCNAاپنا بھر پور کردار ادا کرے گا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسا کے ایک درد مند، مخلص بھائی لو گوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کے دل کے اندر کی بات کر رہا ہے۔ ایسی ہی تقریر اُنہوں نے سکردو میں بلتستان یونیورسٹی کے پہلے کانووکیشن میں بھی کی تھی اور لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں ہو رہا تھا کے کتنا بولے اور سوچ رہے تھے کے کچھ اور بولیں۔خصوصاََ اُن کے یہ جملے کے پاکستان اور جی بی کا رشتہ سر اور دھڑ کا ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان کے ماتھے کا جُھومر ہے لوگوں کے جذبات دیکھنے کے قابل تھے۔ اُن کا یہ کہنا کہ میں جو بول رہا ہوں اور جو میرے جذبات جی بی کے عوام کے لئے ہیں وہی پاک آرمی کے جذبات ہیں۔ اس بات میں ایک واضح پیغام موجود تھا۔ امن، پیار، بھائی چارگی اور روایات کے فروغ، مشترکات کو ڈھونڈنے اور تفر قات اور نفرت کو مٹانے کے حوالے سے جو باتیں کیں وہ قابل تحسین تھے۔ تقریب میں شریک بہت سے غا زی اور ہیروز (جن کی عمر یں80سال سے اوپر تھیں) کمانڈر FCNAجنرل ڈاکٹر احسان محمود خان کی جذباتی تقریر پر آبدیدہ ہورہے تھے اور اُن کے حق میں دُعائیں دے رہے تھے۔ کمانڈر نے اپنی تقریر میں بار بار بلتستان اور دوسرے جگہوں سے تقریب میں شرکت کے لئے آنے والوں کا فرداََ فرداََ نام لے کر شکریہ ادا کیا۔اور اعلان کیا کہ آئیندہ یوم پاکستان یا یوم آزادی کی تقریب سکردو میں ہو گی جس میں دوبارہ غازیوں اور ہیروز کو دعوت دی جائے گی ۔ تقریب کے بعد کمانڈر FCNAنے غازیوں اور ہیروز سے الگ ملاقات کی اور اُن کے مسائل معلوم کئے اور حل کر نے کی یقین دہانی کرائی ۔ اس موقع پر غازیوں اور جنگ آزادی کے ہیروز نے گلگت کے مرکزی تقریب میں خصوصی طور پر دعوت دینے پر جنرل احسان محمود خان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کے یہ ہماری قربانیوں اور خدمات کا اعتراف ہے جس پر ہمیں خوشی ہے ۔ بلتستان سے غازی ، ہیروز،صحافی، ادیب، شاعر اور مصنفین کا وفد جب سکردو سے گلگت پہنچا تو جنرل احسان محمود خان نے FCNAمیس میں والہانہ اور جذباتی استقبال کیا۔ انہوں نے جنگ آزادی کے ہیروز اور غازیوں کو سیلوٹ پیش کیا اور اُن سے فرداََ فرداََ گلے مل کر اُن کی بھر پور حوصلہ افزائی کی۔ جبکہ واپسی کے موقع پر گلگت آرمی ہیلی پیڈ پر کمانڈر نے تمام مہمانوں کو تحائف پیش کئے اور پر جوش طریقے سے اُن کو سکردو کے لئے رخصت کیا۔ اب کچھ باتیں جنرل ڈاکٹر احسان محمود خان کی ذات سے متعلق کرنا انتہائی ضروری خیال کرتا ہوں کیونکہ اُن کی جی بی خصوصاََ بلتستان کے لئے نہ صرف پیشہ ورانہ حیثیت میں بلکہ ذاتی حیثیت میں بھی خدمات قابل قدر اور قابل تعریف رہی ہیں۔ جب وہ 2000کی دہائی میں 62بریگیڈ میں BMتھے اُسی وقت سے ہی اِن علاقوں اور عوام کے بارے میں اُن کے نظریات ، خیالات اور لوگوں کے ساتھ محبت اور دلچپی عیاں تھی۔
جب 2016-2015میں سٹیشن کمانڈر سکردو رہے تو اُس میں50فیصد مزیداضافہ ہوا اور جب 2018میں پرموشن کے بعد کمانڈر FCNAمقرر ہوئے تو اس میں 100فیصد اضافہ ہوا۔ایک اعلی پایے کے دانشور ، روشن ضمیر، مردم شناس اور علم دوست فوجی آفیسر کی حیثیت سے اُنہوں نے بلتستان میں جو کام کئے ہیں لوگ توقع کرتے ہیں کے اب پورے جی بی کے لئے کام کریں گے کیونکہ اُن کے دل میںاسلام اور پاکستان سے محبت تو ہے ہی ہے لیکن گلگت بلتستان کے عوام سے ان کی محبت ایسی ہے جیسا کہ جسم اور روح کا رشتہ ۔ جنرل ڈاکٹر احسان محمود خان کی ایسی ہی اعلیٰ کارکردگی اور خدمات سے یقینا َ جی بی کے عوام کے دلوں میں پاک فوج کے وقار میں مزید اضافہ ہو اہے۔ جنرل صاحب دنیا بھر گھومے پھرے ہیں دنیا کی یونیورسٹیوں کا دورہ کیا ہے، تحقیقی کام کرتے رہے ہیں ،NDUمیں رہے اور اُن کے تحقیق پر مبنی مواد یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ ڈیفنس سٹیڈیز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے فوجی آفسر کا جی بی میں کمانڈر ہونا علاقے کے لئے باعث اطمینان اور خوشی ہے۔2000سے لے کر 2018تک جہاں کہیں بھی رہے اُن کا ملاقاتوں اور ٹیلی فون کے ذریعے تمام لوگوں سے رابطہ رہا ہر ایک کے دُکھ اور خوشی میں شریک رہے اور یہ اُن کا طرہ امتیاز ہے کہ وہ ایک دفعہ سامنے آنے کے بعد نام کھبی نہیں بھولتے بلکہ سب کو یاد رکھتے ہیں۔ بلتستا ن میں اُن کا نہ صرف سکردو بلکہ پورے بلتستان میں اپنا ایک حلقہ اثر موجود ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ اِن علاقوں میں قومی یکجہتی، اسلام کی سربلندی اور دفاع وطن کے حوالے سے پاک آرمی کے ایک پیا مبر کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں۔ جنرل ڈاکٹر احسان محمود خان نے بلتستان یونیورسٹی کے کانووکیشن میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے اور آرمی پبلک سکول گلگت میں یوم آزادی گلگت کی تقریب کے میزبان کی حیثیت سے اپنی تقریروں میں صحافیوں ، عام آدمی اورغازیوں کے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے جن مراعات کا اعلان کیا ہے وہ خوش آئیند ہیں۔ جن میں صحافیوں کے لئے CMHمیں 50 فیصد رعایت پر علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنا اور اگر 50فیصد بھی ادا کرنے کے متحمل نہ ہوں تو 100فیصد مفت علاج کرنے اور اگرضرورت مند ہو تومفت علاج کے ساتھ امداد بھی فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ NDU