گھر ہونا چاہیے
اس پرتو کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ گھر ہر انسان کی ضرورت ہے ،ادبی موشگافیوںسے قطع نظر جو گھر اور مکان کے ضمن میں جاری رہتی ہیں،یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان نے ہمیشہ پناہ تلاش کی ہے ،کبھی غاروں اور کبھی تنکوں سے بنی جھونپڑیوں کا سہارا لیا ، پھر مٹی کے گھروندے بنائے ،شعور اور وسائل کی ترقی سے معیار بھی بدل گئے ،پختہ گھروں کی تعمیر سے رہائش کے ساتھ شان و شوکت کا اظہار ہونے لگا، اس ڈور میںغریب کا حال پتلا ہوتا چلا گیا ،اسے دال، روٹی کے مسائل سے نمٹنے ہی میں ساری توانائی لگانا پڑ جاتی ہے،گھر بنانا تودور کی بات ہو گئی،حکومتیں گھروں کی قلت کے معاملہ کی حساسیت کو سمجھنے میں ناکام رہیں،آج صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ایک کروڑ مکانات کی کمی ہے ،سرکاری مکانات کی قلت اس حد تک ہو چکی ہے کہ اسلام آبا میں کسی سرکاری ادارے میں ملازمت شروع کرنے والے کا نام اگر ویٹنگ لسٹ میں شامل ہو جاتا ہے ، ریٹائرمنٹ کی تاریخ آجاتی ہے مگر اس کو مکان الاٹ ہونے کی نوبت نہیں آتی ہے ،دیکھا جائے تو ملک میں وفاقی اور صوبائی سطح پر ایسے ادارے موجود ہیں جن کا فرض ہاوسنگ کے شعبہ میںکام کرنا ہے،ان کی کارکردگی کے اظہار کے لئے افسوس ناک کہنا چھوٹا لفظ ہے بلکہ اسے شرمناک کہنا چاہیے،کراچی لاہور اسلام آباد پشاور کوئٹہ اور دیگر تمام اربن سینٹرز میں ترقیاتی ادارے موجود ہیں لیکن گذشتہ چالیس سال کے دوران رہائشی معاملات کے حل کے لئے ان اداروں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو ایک مایوس کن تصویر ہی ابھرتی ہے۔ دور کیوں جائیں اسلام آباد کو ہی لے لیں گذشتہ دس سال میں سی ڈی اے، فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ فائونڈیشن ،پاکستان ہائوسنگ فائونڈیشن کے ایسے کونسے منصبوے ہیں جنھیں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ کہیں زمین ہے تو ترقیاتی کام نہیں، کہیں زمین تک حاصل نہیں کی گئی اور یہ بات جان کر از حد صدمہ ہوتا ہے کہ ان اداروں کے بعض الاٹیز جنھیں طویل ملازمت کے صلہ میں چھوٹا موٹا پلاٹ ملا تھا، وہ اپنا مکان بنانے کی حسرت لئے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، کم و بیش اسی قسم کی صورتحال آپ کو لاہور کراچی اور دیگر شہروں میں نظر آئے گی ،صوبوں یا وفاق کے اداروں نے صرف وقت گزاری اور تنخواہیں اڑانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا جاتاہے، ہمارا احتساب کا نظام اتنا ناقص ہو چکا ہے اور ہماری سوچ اتنی مفلوج ہو چکی ہے کہ ہم کسی بھی معاملہ میں نہ تحقیق کے قابل رہے ہیں نہ ہم سے تفتیش ہوتی ہے اور نہ ہم ٹرائل کر پاتے ہیں۔ کرپٹ اور نااہل عناصر کا دور دورہ کسی طرح بھی کم ہونے میں نہیں آ رہا ، بے شمار نجی ادارے بھی ہائوسنگ کے لئے کام کر رہے ہیں لیکن ان اداروں کا تمام کا تمام فوکس پیسہ بنانا ہے، ان میں سے کوئی ایک ادارہ بھ اس ملک کی ستر فیصد سے زائد انتہائی غریب آبادی کے لئے کام کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ شہروں کو دیکھیں تو کالونیز اور سوسائٹیز کے جنگل کے جنگل بنے ہوئے ہیں جہاں پلاٹوں کی قیمت پوچھ کر کوئی غریب اپنے آپ اور اپنی زندگی سے ہی شرمندہ ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال کی مذمت نہ کی جائے تو اور کیا کہا جائے ۔ کیا کسی فلاحی ریاست میں روٹی کپڑا اور مکان فراہم کرنا اس کی ذمہ دار نہیں ہے؟ کیا صرف یہ ملک ان لوگوں کے لئے بنا تھا جن کے لئے پیسہ بنانے اور اپنے دولت کے انبار لگانے کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہے۔ ہم کیا صرف یہی نوحہ پڑھتے رہیں گے کہ ہزاروں لوگوں کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں اور ان کی مالیت ایک ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔ کیا یہ ملک صرف ان لوگوں کے لئے بنا ہے جو دولت مند ہیں اور اپنے وسائل سے باآسانی پر تعیش زندگی گزار سکتے ہیں، اس ملک کی ستر فیصد آبادی کا پرسان حال کون ہے؟ ان کی ذمہ داری کون لے گا؟ کیا آسمان سے فرشتوں کے آنے کا انتظار کیا جائے گا یا قہر الہی کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ غربت کا جتنا مذاق اس وطن عزیز میں اڑایا جاتا ہے شاید ہی کرہ ارض پر کوئی دوسرا ملک ایسا ہو، غریبوں کے لئے نہ ہسپتال رہے نہ اچھی تعلیم کے ادارے، نہ گھر اور نہ اچھی ٹرانسپورٹ کی سہولت، یہ بیچارے جائیں تو کہاں جائیں، ملک میں اب تبدیلی کی حکومت کا شور و غوغا برپا ہے جس نے پچاس لاکھ گھر پانچ سال میں بنانے کا اعلان کیا ہے۔ بہت سے لوگ حکومت کے اس اعلان کو محض ایک انتخابی ڈھکوسلا قرار دیتے ہیں لیکن یقین جا نئے یہ کوئی ناقابل حصول ہدف نہیں ہے۔ یہ کوئی صدیوں پرانی بات نہیں ،جب ہوا میں اڑنے یا سمندر کی تہہ میں پہنچنے کی بات کو خیال آرائی قرار دیا جاتا تھا لیکن انسانوں نے ہی ان دونوں منازل کو طے کیا، ترکی اور متعدد دوسرے ممالک میں ہائوسنگ پر توجہ دے کر سب کے لئے گھر کے حصول کو ممکن بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ کام ہو سکتا ہے اس کے لئے ایک اچھے منصوبے، ایک اچھی پالیسی اور کرپشن اور دھونس سے پاک میکنزم بنانے کی ضرورت ہو گی، حکومت نے یہ ایک اچھا فیصلہ کیا ہے کہ نجی بینکوں کی ہائوسنگ میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور بینکوں کو انکم ٹیکس میں ریبیٹ دیا جائے گا جس سے توقع کی جا سکتی ہے کہ بینک اپنے کاروبار میں وسعت لانے کے لئے ہائوسنگ کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کر لیں گے۔،ہائوسنگ کے شعبہ کے تمام سرکاری اداروں جن میں سی ڈی اے، فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ فائونڈیشن، پاکستان ہائوسنگ فائونڈیشن، ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن اور صوبوں کے ہائوسنگ کے محکموں کی تشکیل نو کرنے اور ان کے درمیان آپس کے رابطہ کو مضبوط کر کے یکساں پالیسی پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ غریب کو گھر دینا ہے تو سرکار اور نجی شعبہ دونوں کو ایک پیج پر آنا ہو گا اور برسوں کے کام مہینوں میں نپٹانا ہوں گے۔ لینڈ بینک قائم کرنے کا تصور بھی ایک اچھا خیال ہے، اس کو آگے بڑھایا جائے، بڑے گھروں کی بجائے تین سے پانچ مرلہ کے مکانات کی تعمیر کو ترجیح دی جائے اور ہائی رائز بلنڈنگز بنانے کی جانب اب توجہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں دستیاب زمین لامحدود نہیں ہے ہمیں آنے والی نسلوں کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے زمین کے استعمال میں کفایت شعاری اپنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ وفاقی وزیر ہائوسنگ طارق بشیر چیمہ کی متعدد فورمز پر گفتگو سنی ہے جس سے امید کی ایک کرن ضرور جاگتی ہے کہ یہ مثبت سوچ رکھنے والا سیاست دان کچھ کر گزرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اللہ کرے ایسا ہی ہو ۔