ہو کیا رہا ہے ، آگے کیا ہوگا؟
کوئی شخص، کوئی خاندان یا کوئی قوم و ملک اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کن خطوط پر استوار کرتا ہے اسکا تمام تر انحصار اسے درپیش حالات پر ہوتا ہے، حالات کی اہمیت و خصوصیت یہ ہوتی ہے اسے بعض اوقات ایسے فیصلے بھی کرنا پڑ جاتے ہیںجو اسکے حال یا مستقبل کے مفاد کے خلاف ہوتے ہیں، ایسے فیصلے جو اسکے حال یا مستقبل کے مفاد کے خلاف جاتے ہوں اسکی بڑی وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ اسکی نظر میں( عام نظر میں نہیں ) کچھ بہت بڑے نقصانات حال یا مستقبل میں ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے جس سے بچنے کے لیے وہ اپنے حال یا مستقبل کے مفاد کے نقصان کو قبول کر لیتا ہے، دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اس سے جو طاقتور ہوں وہ اسکی کمزوری سے فائیدہ اٹھا کر اسے ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں جو اسکے حال و مستقبل کے مفاد کے خلاف ہوتے ہیں!! اس قسم کی صورتحال سے دوچار شخص یا ملک جو حالات کے سامنے سمجھوتہ کرنے پر مجبور تو ہوتا ہے؛ اگر وہ شخص یا ملک اپنے وجود سے سو فیصد مخلص ہو تو وہ اپنے خلاف ہونے والے فیصلے یا فیصلوں ایسی کوئی نہ کوئی بات ضرور شامل کر دیتا ہے جو بظاہر بے ضرر و غیر ضروری ہو لیکن اسکی نظر ( عام نظر میں نہیں ) آگے چل کر اسکے نقصانات کو مفاد میں بدلنے کا سبب بن سکتی ہو!ٹھیک اسی قسم کی صورتحال سے آج پاکستان دوچار ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس صورتحال میں پاکستان کرتا کیا ہے ؟ پاکستان یا پاکستانی حکومت ان حالات میں کرتی کیا ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جسکے جواب کی تلاش میں سارا پاکستان مصروف ہے، سارے پاکستان سے مراد پاکستانیوں کی وہ تعداد ہے جو اپنی سوچ میں صرف پاکستانی ہیں جسکی طلب پاکستان کا مفاد ہے لیکن اس پاکستانی اکثریت کو اس سوال کا کوئی جواب کہیں سے نہیں مل رہا جسکی وجہ سے ہر کوئی کسی دوسرے سے پوچھتا پھر رہا ہے کہ بھائی، یہ کیا ہو رہا ہے اور آگے کیا ہونیوالا ہے اور تسلی اس بات پر ہوتی ہے کہ شائید آنے والے کچھ دنوں میں الجھے ہوئے حالات سلجھ جائیں گے کہ یہ اندازہ ہو سکے کہ ہو کیا رہا ہے اورآگے کیا ہونیوالا ہے ۔ ان سوالات میں الجھ جانے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کچھ معاملات کو جان بوجھ کر اتنا الجھایا جا رہا ہے کہ اصل حالات و واقعات سے پاکستانیوں کی توجہ ہٹائی جا سکے، وہ اصل حالات کیا ہیںجن سے پاکستانی عوام کی توجہ ہٹائی جانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں؟ یہ ایک الگ سوال ہے بلکہ ایک الگ بحث ہے ، جس میں مزید کئی سوال جنم لیتے ہیںمثلاََ یہ کہ بے یقینی کی یہ کیفیت پیدا کرنیوالے کون ہیں، وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ تو ان سوالات کا مختصر جواب یہ ہے کہ پاکستان کا ایک مخصوص اور مراعات یافتہ طبقہ ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے جو اس کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے ، وہ طبقہ کسی بھی طرح اس صورتحال سے نکلنا چاہتا ہے اور اسکے ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ جن حالات کا شکار ہے ان حالات کا اس قدر پرچار نہ ہو کہ سب پاکستانیوں کی توجہ اس صورتحال پر مرکوز ہو جائے جو انہیںدرپیش ہے، اس لیے کہ اسکے بعد پر پاکستانی یہ مطالبہ کریگا کہ بتائیں جناب، یہ سب کیوں ہے اور کیا ہے؟ اس لیے وہ طبقہ اپنے اثر و رسوخ اور دولت کے سبب میڈیا کے کچھ حصے کے ذریعے ملک میں ایسا پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ اصل معاملات سے عوام کی توجہ ہٹا کر دوسری موضوعات و بحرانوں پر مرکوز ہو جائے۔ یہ اسی پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے کہ آجکل ہر کوئی دوسرے سے پوچھتا پر رہا ہے کہ بھائی ملک میں آجکل ہو کیا رہا ہے؟
ہو کیا رہا ہے اور آگے کیا ہوگا؟ یہی سوال ہمارے حلقہ احباب کے ذہنوں میں ہے تو لازمی بات ہے کہ جواب کی ہمیں بھی جستجو تھی۔ اس جستجو میں جہاں کئی لوگوں کو اپنی سوچ میں اس سوال کے جو جوابات ملے جسکا سب نے اظہار بھی کیا لیکن یہ بات ہر وقت موجود رہی کہ ہر کوئی اس سوال کا کوئی نہ کوئی جواب تلا ش تو کر لیتا ہے لیکن پھر خود ہی اپنے جواب سے اتفاق نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ کوئی سوچنے والا اپنا کوئی موقف پیش کر کے اسکے درست ہونے کے لیے کوئی بحث مباحثہ نہیں کرتا۔ اس دوران کچھ دوست اس بات پر متفق ہوئے کہ ہم سب اس لیے ایک کنفیوژن کا شکار ہیں کہ ایک بہترین منصوبندی کے تحت میڈیا کے ایک مخصوص حصے کے ذریعے ایک خاص طبقہ نے( جو آجکل مشکل حالات سے دوچار ہے) پاکستانیوں کو 72روزہ حکومت کے معاملات میں ایسا الجھا کر رکھ دیا ہے کہ انکی توجہ حقیقت پر مرکوز ہی نہ ہو، کم از کم اتنے عرصے تک مرکوز نہ ہو جتنے عرصے تک وہ طبقہ خود سے درپیش مسائل سے اپنی جان نہ چھڑوا لے مثلاََ یہ کہ کسی بھی مالی، زورآوری، اندرونی و بیرونی ذریعے سے کوئی این آر اوکر کے خود کو اپنی تیس پینتیس سالہ داستان کرپشن مثلاََ پانامہ، 56کمپنیاں، میٹرو، آشیانہ، اومنی گروپ بینک کے ذریعے ہمالیہ سے زیادہ بلند فراڈ جیسے دیگر سینکڑوں گھنائونے و قوم دشمن الزامات سے بچا نہیں لیتا! پاکستانیوں کو بڑے ٹیکنکل طریقے سے الجھایا جا رہا ہے وہ الیکشن 2018 اور ضمنی الیکشن14اکتوبر2018 تک بہت ہی کم عرصے پر محیط ہے لیکن اس کم عرصے یا کم وقت کو اتنا اہم بنا دیا گیا ہے، اس عرصے سے پہلے یا اس عرصے کے بعد کے وقت کی جانب توجہ مبذول ہو ہی نہیں پاتی جبکہ! یہ کم وقت و عرصہ تو محض ایک وقفہ تھا ایک ایسے کام میں جو الیکشن سے پہلے بھی شروع تھا اور الیکشن کے بعد بھی شروع ہے اور آگے بھی امید ہے شروع رہے گا وہ اس طرح کے حقیقی انجام سے دوچار ہوگا۔ یہ کم وقت اسطرح کا وقفہ تھا یا ہے جیسا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان جاری جنگ کے درمیان ماہِ رمضان کی آمد ہو جاتی ہے ۔ جنگ کے دوران رمضان کریم آجائے تو ہوتا یہ ہے کہ رمضان المبارک کے احترام میں ایک ماہ کے لیے جنگ بندکر دی جاتی ہے یعنی جاری جنگ کے دوران وقفہ آجاتا ہے، لوگ اپنے اپنے طور پر عبادات میں مصروف ہو جاتے ہیں اور جیسے ہی رمضان و عید گزرتے ہیں جنگ دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔ جنگ کا ماحول رمضان کی وجہ سے یکسر بدل گیا ہوتا ہے اور یہ ماحول ایک وقفہ کے طور پر بہت کم وقت کے لیے ہوتا ہے۔ اس کم وقت میں تمام طالبان، تمام حکومتی لوگ تو نہیں لیکن طالبان و حکومت کی انتہائی مرکزی لیڈرشپ صرف سحری، افطاری نہیں کرتی بلکہ اس عارضی وقفے سے دونوں طرف کی قیادتیں اپنی تمام سوچ اس بات پر مرکوز رکھتی ہیں کہ عید کے بعد جو جنگ دوبارہ شروع ہونی ہے اس جنگ میں ایسا کیا کرنا چاہیے کہ ایک نہ ختم ہونیوالی جنگ اسطرح ختم ہو جائے کہ ہم سرخرو ہو جائیں۔بالکل اسی طرح پاکستان میں بھی ایک لازمی و آئینی وقفہ آیا جو اب تقریباََ ختم ہونے کو ہے ، ہوا یہ کہ پانامہ کا واقعہ رونما ہونے کے بعد پاکستان ایک قانونی جنگ شروع ہو گئی تھی جو اسمبلی سے ہوتی ہوتی سڑکوں پر آگئی، اسکا ایک فریق دھرنا دیکر بیٹھ گیا۔ اسی دوران APSپشاور میں معصوم بچوں کے ظالمانہ قتل عام نے دھرنے کے فریق کو دھرنا ختم کرنے پر مجبور کر دیا اور وہ فریق پانامہ لیکر سپریم کورٹ آف پاکستان چلا گیا۔ ساری قوم ہی نہیں ساری دنیا جانتی ہے کہ سپریم کورٹ میں پانامہ کے سلسلے میں کیا کچھ ہوا اور کیا کچھ ہونے جا رہا ہے کہ قومی انتخابات سر پر آگئے تو لازمی بات ہے کہ پانامہ یا دیگر کرپشن کیسز میں جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے یا ہونے جا رہا ہے وہ سب کچھ رک گیا اس لیے کہ جو کچھ ہو رہا تھا یا ہونے جا رہا تھا اس میں ساری سیاست ملوث تھی جو اقتدار میں تھی یا وہ اپوزیشن جو حقیقت میں اپوزیشن بلکہ شریک اقتدار تھی، اس سیاست نے الیکشن 2018ء لڑنا تھا جو اسکا قانونی و آئینی حق تھا لہٰذا سیاست کے خلاف قانونی کاروائی ختم ہوئی اور الیکشن2018کی مہم شروع ہو گئی، اسطرح جوکچھ ہو رہا تھا یا ہونے جا رہاتھا اس میں ایک وقفہ آگیا اور وہ تمام قانونی کاروائی ایک اور فریق کا احتجاج جو کرپشن کے خلاف جاری تھا وہ سب کچھ رک گیا بالکل اسی طرح جیسے جاری جنگ رمضان آجانے کی وجہ سے رک جاتی ہے۔
جس طرح رمضان اور عید کے بعد جنگ دوبارہ زور و شور سے شروع ہو جاتی ہے اور رمضا ن کا وقفہ محض ایک یاد بن کر رہ جاتا ہے بالکل اسی طرح پاکستان میں جاری قانونی و احتجاجی جنگ کے دوران الیکشن کی وجہ سے جو وقفہ آیا تھا وہ وقفہ اب ختم ہو چکا ہے اور پورے زوروں شوروں سے جنگ دوبارہ شروع ہو چکی ہے جو بوجہ الیکشن ختم ہو گئی تھی لہٰذا کچھ ہی عرصہ بعد یہ وقفہ بھی ایک یاد بن کر رہ جائیگا تو پاکستانیوں کو اس سوال کا جواب آنکھوں کے سامنے نظر آئیگا کہ ہو کیا رہا ہے، آگے کیا ہوگا؟ میڈیا دیکھیں جو صرف پی ٹی آئی کے اس 72 دن کی حکومت پر ہی نہیں ٹوٹ پڑا جو سیاست کے گزشتہ تیس پینتیس برسوں کا ذکر بھی کرتا ہے ، الیکشن 2018ء کی وجہ سے جو تاریخی فرق پڑا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اقتدار کی کرپشن پر پردہ ڈالنے میں مصروف تھا وہ اقتدار اب اقتدار نہیں رہا بلکہ احتجاج بن کر پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر آگیا ہے اور کنٹینر پر جو احتجاج تھا وہ اقتدار بن کر اقتدار میں آگیا ہے جو ایک عالمی سیاسی تبدیلی ہے۔