وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے گزشتہ روز اسلام آباد میں سینیٹر فیصل جاوید اور وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ منی لانڈرنگ نے ملکی معیشت کا بُرا حال کر دیا ہے۔ 5 ہزار سے زائد جعلی اکائونٹس اور سات کھرب روپے کے اثاثوں کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔ علاوہ ازیںپانچ ارب 30کروڑ ڈالر پاکستان سے غیرقانونی طورپر بیرون ملک منتقل کئے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوئس بنکوں میں پاکستانیوں کے اثاثوں کے بارے میں قوم کو اس ماہ کے آخر میں بڑی خوشخبری دیں گے۔ بیرسٹر شہزاد اکبر نے انکشاف کیا کہ دبئی میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں پاکستان چوٹی کے ممالک میں شامل ہے۔
لوٹی ہوئی دولت اور بیرون ملک سے قومی اثاثوں کی واپسی کے ضمن میں حکومت کی فعالیت اطمینان بخش اور قابل تحسین ہے۔ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ وزیراعظم کی کوششوں سے سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور چین نے ہمیں اس دلدل سے نکلنے میں بڑی مدد دی۔ اس امداد کے حصول میں خود وزیراعظم کی شخصیت نے اہم کردار ادا کیا کہ دوست ملک ان کی دیانتداری پر اعتماد کرتے ہیں۔ ایک اہم سوال کیا جا رہا ہے کہ پاکستان دوست ملکوں کی مدد سے عبوری طورپر بحران سے نکل آیا‘ لیکن آئندہ کیا ہوگا؟ وزیراعظم کے معاون کی پریس کانفرنس اس سوال کا اطمینان بخش جواب فراہم کرتی ہے۔ سات کھرب یعنی سات سو ارب روپے اور پانچ ارب 30 کروڑ ڈالر بہت بڑی رقوم ہیں‘ اگر رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری اور آف شور کمپنیوں کا پیسہ بھی واپس آگیا تو بڑی پریشانیاں ختم ہو جائیںگی۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں نے اس پریس کانفرنس میں اگرچہ یہ تو نہیں بتایا کہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پاکستانیوں کے اثاثوں کی حقیقی مالیت کتنی ہے‘ لیکن قیادت کے سابقہ بیانات کی روشنی میں ان رقوم کی مالیت دو سو ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ اگر یہ ساری رقوم قومی خزانے میں منتقل ہو جائیں تو پاکستان نہ صرف غیرملکی قرضوں کی پائی پائی اتار سکے گا بلکہ آئندہ بھی امریکہ اور عالمی اداروں کی محتاجی سے نجات حاصل کر لے گا اور دوستوںکو امتحان میں نہیں ڈالنا پڑے گا۔ بشرطیکہ حکمرانوں نے قومی خزانے کو امانت سمجھا اور لوٹ مار سے اجتناب کیا۔ پریس کانفرنس میں بیان کردہ ہوشربا اعدادوشمار آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہیں۔ عام شہری کو پہلی بار علم ہوا ہے کہ ملک کبھی نہ غریب ہوتا‘ اگر اسے غریب نہ بنایا جاتا۔ توقع ہے کہ ان رقوم کے جلد از جلد حصول میں تساہل سے کام نہیں لیا جائے گا۔ مزید تاخیر بہرصورت پیچیدگیاں پیدا کرے گی۔ پانی پہلے ہی سر سے گزر چکا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ریڑھی والے‘ فالودہ بیچنے والوں اور رکشہ والوں کے نام پر پکڑے گئے جعلی اکائونٹس کے اصل مالکان کے نام قوم کے سامنے رکھ دیئے جائیں تاکہ حکومتی کاوشوں پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو ۔ اور حکومت کی طرح قوم کو بھی اپنے ’’محسنوں‘‘ کا پتہ چل جائے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024