تہران میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ایران مل کر سرحدی امور پر تعاون بڑھائیں گے۔ دورہ اسلام آباد میں مشترکہ سرحدی فورس تعینات کرنے پر بھی اتفاق ہوا۔
پاکستان اور ایران کا 12 سو کلومیٹر طویل بارڈر ہے، دونوں ممالک کے مابین مثالی تعلقات رہے ہیں جس کے باعث اس طویل سرحد پر دونوں طرف سے فوج تعینات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی حالانکہ چھوٹے موٹے ناخوشگوار واقعات بھی ہوتے رہے ہیں۔ایسا ہی ایک واقعہ دو روز قبل پنجگور میں پیش آیا، ایرانی فورسز کے ایک دستے نے سرحد پار ایک پک اپ پر فائرنگ کر دی جس سے دو افراد جاں بحق اور پانچ زخمی ہو گئے۔ قبل ازیں ایران کے اپنے محافظوں کو دہشتگردوں کی طرف سے اغوا کر کے سرحد پار لے جانے کے الزامات سامنے آئے تھے۔ ایران کو ان دہشتگردوں کے خلاف بجاطور پر تحفظات ہونگے، پاکستان کو بھی دہشتگرد مطلوب ہیں ان میں سے کچھ پاکستان میں چھپے ہونگے اور بہت فرار ہو کر افغانستان میں پناہ گزین ہیں۔ یہ ایران اور پاکستان کے مشترکہ دشمن ہیں۔ ان کے خلاف پاک فوج آپریشن کر رہی ہے۔ دہشتگردوں کے ساتھ کسی کی ہمدردی نہیں ہو سکتی، ان کے باعث دو ممالک کے تعلقات پر فرق نہیں پڑنا چاہئے۔ امریکہ نے ایران پر پابندیاں لگا دی ہیں مگر بھارت کو چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر اور افغانستان تک ریل کے ذریعے راہداری و رابطے کی اجازت دیدی ہے۔ بھارت کے لئے پاکستان ناقابل برداشت اوروہ ایرانی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لئے کلبھوشن کے ذریعے استعمال کرتا رہا ہے۔ مستقبل قریب میں پاکستان اور ایران کے مابین بھارت غلط فہمیاں پیدا کر کے تعلقات پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ بہتر ہے ایران امن کے دشمن اور پاکستان کے سخت مخالف بھارت کا اپنے ہاں عمل دخل ختم کر دے۔ پاکستان اور ایران کا سرحد پر مشترکہ فورس تعینات کرنے کا فیصلہ دیر آید ہی سہی مگر درست ہے۔ اس سے سمگلروں اور ناپسندیدہ عناصر اور دہشتگروں کے سرحد کے آر پار آنے جانے کے راستے یقیناً بند ہو سکیں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024