بدھ ‘ 5؍ ربیع الاوّل 1440 ھ ‘ 14 ؍ نومبر2018ء
کمپنیاں دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں ، گیس مہنگی کرنا پڑے گی ، وزیر پٹرولیم
عوام ایک صدمہ اٹھا کر سنبھلے نہیں پاتے ہیں کہ ان پر ایک نیا حملہ ہو جاتا ہے۔ گزشتہ دو اڑھائی ماہ میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں پے در پے ہونے والے اضافے کی وجہ سے عوام چڑچڑے ہونے لگے ہیں ۔ ویسے ہی جیسے
’’ایک تھی چڑیا ایک تھا چڑا دونوں نے شادی کر لی دونوں ہوگئے چڑ چڑے ‘‘ اب پے در پے بجلی اور گیس کے دھماکے بھی عوام کو چڑانے لگے ہیں ۔ اوپر سے حکومتی عہدیدار بجائے زخموں پہ مرہم رکھنے کے مزید نشترزنی کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ ابھی کچھ عرصہ مزید سختیاں برداشت کرنا ہوں گی۔
یہ ساری سختیاں صرف عوام کی قسمت میں کیوں لکھی جاتی ہیں۔ کیا ان کا قصور یہ ہے کہ وہ حکمرانوں کو ووٹ دے کر لائے ہوتے ہیں ۔ اس ایک گناہ کی اتنی بڑی سزا ، خواص کو زیر دام کیوں نہیں لایا جاتا۔ان سے پورا ٹیکس کیوں نہیں لیا جاتا۔ ان سے ناجائز طریقہ سے چھپایا اور کمایا منافع اور دھن دولت کیوں نکلوا نہیں لیا جاتا۔ جب بھی زد پرتی ہے غریب کی جیب پر پڑتی ہے ۔ جس سے 100یا 200روپے ہر صورت نکلوائے جاتے ہیں ۔ کروڑوں اربوں والوں کو ہاتھ کوئی نہیں لگاتا ۔ وزیر پٹرولیم و گیس کا فرمان عالی شان ہے کہ گیس کمپنیاں خسارے میں تھیں اس لئے گیس کی قیمت میں اضافہ ضروری ہے ۔
بجلی والوں نے تو فی یونٹ 64پیسے بڑھانے کی تجویز بھی دے دی ہے۔گویا عوام تیار رہیں بجلی اور گیس بم کا سامنا کرنے کے لئے …
٭…٭…٭
برقعہ پہن کر محبوبہ سے ملنے کے لئے جانے والے کی خواتین کے ہاتھوں چھترول
لگتا ہے اس نو آموز عاشق کو ابھی زمانے کی ہوا نہیں لگی۔ورنہ اس جدید دور میں یہ آرٹ آف فیشن قسم کی حرکتوں کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ پہلے کسی زمانے میں جب موبائل فونز اور انٹر نیٹ کا وجود نہیں تھا ۔ برقعہ پہن کر مجنوں اپنی لیلیٰ کے گھر کا چکر کاٹتے تھے ۔ گلیوں کے پھیرے لگاتے تھے ۔
موقعہ بموقعہ پکڑے جانے پر ان کی چھترول بھی ہوتی تھی۔ سر کے بال مونچھیں، داڑھی اور بھنوئیں مونڈھی جاتی تھیں ۔ جسے چار ابردو کا صفایا بھی کہتے ہیں ۔ کئی حاسد قسم کے لوگ تو انہیں منہ کالا کرکے کپڑے اتار کر گلے میں جوتوں کا ہار ڈال کر گدھے پر گھمانے بھی نکل پڑتے تھے ۔ بقول غالب
شوق ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
اب صد شکر کہ اس عاشق نامراد کے ساتھ کچھ ایسا نہیں ہوا پٹائی کے بعد اسے پولیس کے سپرد کر دیا گیا ۔ یوں اس کے دل کے ارمان آنسو میں بہہ گئے ۔ اب امید ہے باقی اولڈ فیشن آرٹ آف ڈیٹ قسم کے مجنوں اس قسم کی حرکتوں سے باز رہیںگے …
نیا سال آنے تک تمام چوروں پر جھاڑو پھر جائے گی: شیخ رشید
شیخ جی کی زبان مبارک ہو ، خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ بہت بھگت چکے پاکستانی عوام ٹھگوں ، چوروں اور ڈاکوئوں کو۔ آج تک جو بھی آیا وہ لنکا سے جو نکلا سو باون گز کا ہی ثابت ہوا۔ ایک سے بڑھ کر ایک حکومت آئی ۔ یہی لوگ عوام پر مسلط رہے ۔ صرف پارٹیاں بدلیں مگر لوگ وہی رہے۔
کیا یہ سب جھاڑوپھرنے دیں گے ۔ ایک مرتبہ صرف ایک مرتبہ پاکستان میں حقیقی معنوں میں اگر جھاڑو پھر جائے تو مزہ آ جائے گا ۔نہ کوئی بندہ بچے گا نہ بندہ نواز۔ اس کے بعد کہیں جا کر ملک میں امن ، خوشحالی اور انصاف کا دور دورہ ہوگا ۔
امید ہے حکومت یہ جھاڑو پورے ملک میں پھیرے گی۔ یہ نا ہو کہ اپنے کمرے چھوڑ کر باقی سب کے کمروں کی صفائی ہو ۔ صفائی سب کمروں کی ہونی چاہیے ۔ تاکہ جو مٹی اور گرد ہے کچرا ہے وہ ایک ہی بار صاف ہو جائے ۔ ایسا ہوا تو یہ ستر برسوں میں پہلی بار ہوگا۔ ویسے عقلمند قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ اچھے کام کی ابتدا اپنے گھر سے کرنی چاہیے مگر شیخ جی اتنے بھی بھولے نہیں کہ وہ حکومت کو اس قسم کا مشورہ دے کر اپنی وزارت خطرے میں ڈال دیں،ایسا کرنا تو
آگ لگی ہمری جھونپڑیا میں
ہم گائیں ملہار
والی بات ہوگی۔ اور شیخ جی یہ کریں گے نہیں۔
٭…٭…٭
لاہور میں 12لاکھ ریموٹ کنٹرول بجلی کے میٹر لگانے کے لئے 20ارب کا منصوبہ
اتنی بڑی رقم لگانے کی بجائے اگر بجلی فراہم اور بل وصول کرنے والے محکمے بجلی چوری پر ہی کنٹرول کر لیں تو حکومت کو 20ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ سالانہ اربوں روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے ۔ جو بجلی فراہم اور بل وصول کرنے والوں کی مہربانی اور سہولت کاری کے سبب ہی ممکن ہے۔
ان اداروں میں موجود اگر ان کالی بھیڑوں کا صفایا کر دیا جائے تو یہ ادارے سالانہ اربوں روپے منافع حاصل کر سکتے ہیں ۔ نئے میٹرز لگانے کی بجائے یہ رقم یا اس کی بھی آدھی رقم بوسیدہ بجلی کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنانے پر خرچ کی جائے تو لائن لاسز کی مد میں بھی اربوں کی بچت ہوگی۔
نجانے کیوں حکومتیں اس طرف آتی نہیں اور اربوں روپے ضائع کرنے پر زور دیتی ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ ان میٹروں کی آڑ میں کروڑوں روپوں کا کمیشن ادھر ادھر ہوگا۔ یہ رقم اربوں میں ہوسکتی ہے۔ آخر 20ارب روپے تھوڑی رقم تو ہے نہیں ۔ اور پھر غضب یہ کہ یہ رقم بھی صارفین کی جیب سے ہی نکلوائی جائے گی وہ بھی بمعہ منافع کے ۔ بوجھ پڑے گا تو بے چارے صارفین پر ہی۔ کیا اس سے بہترنہیں کہ پرانے ٹرانسفارمر اور بوسیدہ بجلی کی تاروں کو تبدیل کیا جائے اور بجلی چوری پر سختی سے قابو پایا جائے …