صوبائی خودمختاری کا مطالبہ تحریک پاکستان کا مرکزی مطالبہ رہا۔ قائداعظم نے اپنے معروف چودہ نکات میں صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کیا تھا۔ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان میں سبھی صوبوں کو خودمختار بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن پلان کو اس لئے قبول کر لیا تھا کیونکہ اس پلان کے مطابق صوبوں کو دس سال کیلئے صوبائی خودمختاری دی جا رہی تھی اور مرکز کے پاس دفاع‘ خارجہ ‘ تجارت‘ خزانہ اور مواصلات کے امور رکھے جانے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد سکیورٹی خدشات کی بنا پر صوبائی خودمختاری کے مسئلے کو زیرالتوا رکھا گیا۔ پاکستان کی سول ملٹری بیورو کریسی نے اختیارات اور اقتدار کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کیلئے صوبائی خودمختاری کو بلاجواز طویل عرصے تک نظرانداز کیا اور ’’مضبوط مرکز‘‘ کی سوچ نے سقوط ڈھاکہ کو جنم دیا۔ 1973ء کے پہلے متفقہ جمہوری آئین میں صوبائی خودمختاری کا مسئلہ ایک حد تک حل کر دیا گیا اور عہد کیا گیا کہ دس سال کے بعد صوبوں کو مکمل طورپر خودمختار بنا دیا جائے گا۔ جنرل ضیاء الحق کے طویل مارشل لاء نے یہ خواب پورا نہ ہونے دیا۔
محترمہ بینظیربھٹو اور میاں نوازشریف کی محاذآرائی نے صوبائی خودمختاری کے حصول کا موقع گنوا دیا۔ جنرل پرویزمشرف کے آمرانہ دور میں یہ اہم اور حساس مسئلہ مز ید لٹک گیا۔
پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ہونے والے ’’میثاق جمہوریت‘‘ نے سیاسی مفاہمت کا جذبہ پیدا کیا۔ 2007ء میں محترمہ بینظیربھٹو کی شہادت نے جمہوریت اور جمہوری لیڈروں کو مضبوط بنایا۔ 2008ء کے انتخابات میں پی پی پی نے مرکز اور سندھ ‘مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اور اے این پی نے خیبر پختونخوا میں حکومت بنا لی۔ آصف علی زرداری پاکستان کے صدر منتخب ہو گئے۔ میاں نوازشریف پاک فوج کے اثرورسوخ سے باہر نکل چکے تھے۔ پاک فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے میں مصروف تھی اور اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہی تھی۔ اٹھارہویں ترمیم کیلئے حالات سازگار تھے۔ آئین میں ترامیم کیلئے 27 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے۔ اس کمیٹی نے نو ماہ کام کیا۔
پاکستان کے مختلف حلقوں اور افراد نے آئین میں ترامیم کیلئے 988 سفارشات ارسال کیں۔ پارلیمنٹ نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے پورے آئین کو بدل کر رکھ دیا جو شاید اس کا آئینی مینڈیٹ نہ تھا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے خودمختار ہو گئے۔ ان کو وفاقی اختیارات اور وزارتیں منتقل کر دی گئیں۔ بعض حلقوں نے اٹھارہویں ترمیم کو چھ نکات سے تشبیہ دی۔ صوبوں نے مرکز سے اختیارات تو لے لئے مگر ان کے مطابق ان کو مقامی حکومتوں تک منتقل نہ کیا جس سے صوبائی خودمختاری کا مقدمہ کمزور ہوا۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پاک فوج کافی حد تک دہشت گردی پر قابو پا چکی ہے۔ سیاست دان میگا کرپشن اور بیڈ گورننس کی وجہ سے کمزور ہوئے ہیں اور وفاقی اداروں کے زیرعتاب ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کی ناقص کارکردگی نے سوالات اٹھا دئیے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 160 کی کلاز نمبر 3 میں شق اے کا اضافہ کر کے قومی مالیاتی ایوارڈ کے صوبائی حصے کو محفوظ بنانے کے لئے درج کیا گیا کہ صوبوں کا حصہ گزشتہ مالی ایوارڈ سے کم نہیں ہو گا۔ صوبے کل مالیاتی بجٹ سے 56 فیصد حصہ وصول کرتے ہیں جس سے وفاق کا مالیاتی خسارہ بڑھ گیا ہے۔
فاٹا اصلاحات کے مطابق قبائلی علاقوں کو بجٹ کا تین فیصد حصہ دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے لہٰذا نئے حقائق کے مطابق آئین میں اٹھارہویں ترمیم پر نظرثانی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ یکساں نصابِ تعلیم کے لئے لازم ہے کہ سلیبس کا سبجیکٹ وفاق کے پاس ہو۔ ہائر ایجوکیشن کا شعبہ بھی مرکز کے پاس ہونا چاہئے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے نفاذ اور عملدرآمد کے بعد اس پر نظرثانی کی گنجائش موجود رہتی ہے۔
موجودہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ وہ اٹھارہویں ترمیم کا جائزہ لے ا ور اگر وہ اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ ریاست اور عوام کے مفاد میں نئی آئینی ترمیم ضروری ہو چکی تو دوتہائی اکثریت سے ایک اور ترمیم کی جا سکتی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر صوبوں کے نمائندے بیٹھے ہیں وہ صوبائی خودمختاری کا تحفظ کر سکتے ہیں لہٰذا اس ضمن میں خدشات بے بنیاد ہیں۔
ریاست کا بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے اختیارات میں توازن قائم رہے تاکہ ریاست کسی بحران کا شکار نہ ہو اور اس کی سلامتی اور خوشحالی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد اگر صوبے نئی وزارتیں خوش اسلوبی سے چلاتے اور معیاری اہلیت کا مظاہرہ کرتے تو اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں آوازیں نہ اُٹھتیں ۔ اٹھارہویں ترمیم پرنظرثانی کیلئے اگر پارلیمانی کمیٹی بنا دی جائے اور افہام و تفہیم سے کسی نتیجے پر پہنچا جائے تو یہ آئینی اور جمہوری راستہ ہو گا۔ وفاقی حکومتیں بھی اپنا آئینی فرض پورا کرنے سے قاصر رہی ہے ٹیکس نیٹ نہ بڑھنے اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے بجٹ خسارے میں اضافہ ہوا اور اب صوبائی حکومتوں کے مالیاتی حصوں پر نظر ثانی کے اشارے دئیے جا رہے ہیں جس کے امکانات بہت کم ہیں کیوں کہ وفاقی حکومتی پارٹی کے پاس آئینی ترمیم کیلئے نمبر پورے نہیں ہیں ۔
اگر ہم ذاتی و گروہی مفادت اور سیاسی مصلحتوں سے اوپر اٹھ کر قومی مسائل حل کرنے فیصلہ کر لیں تو ریاست کا نظم و نسق بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
انتہاء پسندی اور عدم برداشت ریاست میں بڑھتی جا رہی ہے ۔ پاک فوج ، خفیہ ایجنسیوں اور پولیس نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرکے کافی حد تک دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا مگر گزشتہ حکومت انتہا پسندی اور اشتعال انگیز نفرت پر مبنی تقریروں کو ختم نہ کر سکی جس سے انتہا پسندی اور عدم برداشت کے رجحان میں اضافہ ہوا۔
پاکستان جرنلسٹس فیڈریشن کے صدر ذوالفقار راحت نے اس اہم اور حساس قومی مسئلے پر ایک معیاری فکری نشست کا اہتمام کیا جس کی صدارت پیر کبیر علی شاہ گیلانی نے کی جبکہ وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری مہمان خصوصی تھے ۔ اظہار خیال کرنے واالوں میں ضیاء شاہد، سجاد میر ، صغریٰ صدف، جنرل (ر) غلام مصطفی، چوہدری جاوید الٰہی اور راقم شامل تھے ۔ مقررین نے کہا کہ انتہا پسندی اور عدم برداشت کا رویہ فکری اور نظریاتی مسئلہ ہے۔
کچھ مذہبی حلقے اپنے گروہی مقاصد کے لئے شدت پسندی اور عدم برداشت کو فروغ دیتے ہیں ان کا یہ رویہ قرآن اور سیرت کے پیغام اور قائداعظم و علامہ اقبال کے تصورات کے منافی ہے۔ عدم برداشت کا مقابلہ دلیل کی بنیاد پر بہترفکری اور نظریاتی بیانیے کے ساتھ ہی کیا جا سکتاہے۔ اسلام امن و سلامتی ، برداشت اور رحمت کا مذہب ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کو انتہا ء پسندی اور عدم برداشت کا اختیار نہیں دیا لہذا ایک عام مسلمان یا مولانا حضرات کو یہ اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے۔
مقررین نے کہا کہ عدم برداشت قومی اور سماجی مسئلہ ہے جسے حکومت اکیلے حل نہیں کر سکتی ۔ تمام سیاسی جماعتوں علمائے کرام، صحافیوں ، اساتذہ او روالدین کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا ۔ دینی مدارس کے بیس لاکھ طلبہ کی معیاری تعلیم اور تربیت کے لئے قوم بیدار ہو تا کہ ان کو فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے رجحانات سے محفوظ رکھ کر مثالی شہری بنایا جا سکے اور وہ جدید تعلیم حاصل کرکے ریاست کے مختلف شعبوں میں سرکاری فرائض ادا کر سکیں ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024