اصل مسئلہ جس پر بیرون ملک مقیم کچھ پاکستانیوں کااضطراب اور بے چینی دیکھنے میں آرہی ہے ان کی نظر میں عمران خان کے پاس مناسب ٹیم کا فقدان ہے۔ سمندرپارآباد پاکستانی کہتے ہیں عمران خان کو ایسی ٹیم درکار ہے جو ان کے خواب کو حقیقت کاروپ دے سکے۔ ان کے نزدیک بخاری کو بیرون ملک امور کا معاون خصوصی بنا کر عمران خان نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنی ٹیم کی بابت کوئی مثبت پیغام نہیں دیا۔ لوگ جانتے ہیں کہ موصوف کا پاکستان تحریک انصاف کی تشکیل میں کہیں کوئی حصہ نہیں۔ ان کی تقرری ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان ایک ایسی دلدل میں دھنس چکا ہے کہ جہاں اچھی شہرت والے رہنما بھی اپنی مرضی اور قربت کی بناء پر عہدے دینے سے گریز نہیں کرتے۔بیرون ملک مقیم پاکستانی غیرمعاشروں میں رہ کر پیشہ وارانہ زندگی میں میرٹ یا اہلیت کے معیار، مستعدی، شفافیت جیسی اقدار سیکھتے ہیں اور ان کے دلدادہ بن جاتے ہیں کیونکہ خود وہ ایک ایسے معاشرے سے آئے ہوتے ہیں جہاں انہیں اہلیت کے قتل سے لے کر ناانصافی اور مشکوک انداز نے اتنا تنگ کیا کہ وہ گھر بار ترک کرکے بہتر معاشروں کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اسی لئے بیرون ملک مقیم پاکستانی ایک ایک روپے کے لئے حکومت کو جوابدہ ٹھہراتا ہے۔
بدقسمتی سے وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایجنڈے اور منشور پر عملدرآمد کے لئے جو ہیرے جواہرات’ چْنے ہیں، انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں نئی امید جگانے کے بجائے مایوسی پیدا کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حلقے کی سیاست کرنے والے روایتی سیاستدانوں کی تو کیا بات کرنی، اسد عمر جسے عمران خان دس سال ایک معاشی جادوگر کے طورپر ابھارتے اور تعارف کراتے رہے، انہوںنے حکومت کے اولین دو ماہ معاشی سمت کی تلاش اور حل نکالنے میں ہی لگادئیے۔ اس کے برعکس ان کی توجہ ان چیزوں کا واویلا کرنے پر رہی جن کے بارے میں لوگوں کو چھ مہینے پہلے سے اچھی طرح معلوم تھا اور وہ کوئی راز کی باتیں نہ تھیں۔ عدم استحکام کی آگ پر غیرذمہ دارانہ اور غیرمحتاط بیانات نے تیل کا کام کیا جس سے روپے کی بے قدری ہوئی، عدم استحکام اتنا پھیلا کہ لوگوں کے اربوں روپے ڈوب گئے۔ اس معاملے میں پھر کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا نہ ہی غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے پر کسی سے کوئی بازپرس ہی ہوئی۔
اس میں بھی شک نہیں کہ عمران خان کو ڈوبتی معیشت ورثے میں ملی لیکن اس مسئلہ کی شدت اور گھمبیرتا میں اضافہ ان کی پسند کردہ ٹیم کی وجہ سے ہوا۔ پاکستان میں وزیرخزانہ کی ذمہ داری شاید سب سے مشکل ترین کام ہے۔ چاہے یہ اسد عمر ہوں یا رزاق داود۔ کہاجاتا رہا کہ اسحاق ڈار اور نوید قمر کے موازنے میں اسد عمر کہیں بہتر ہیں۔ لیکن ان کی کارکردگی نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اعتماد دینے کے بجائے متفکر ہی کردیا کیونکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کا زیادہ تر انحصار وزارت خزانہ کی کارکردگی پر ہوتا ہے۔
یہ بھی سوال کیاجاتا ہے کہ ڈالر جب 133 روپے کا ہو تو بیرون ملک مقیم کوئی پاکستانی آخر کیوں پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا؟ کوئی ایسا اعشاریہ ہے جس سے یہ امکان ظاہر ہو کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 90 یا سو روپے ہوجائے گی۔ کیا بیرون ملک مقیم انجینئر یا لندن میں مقیم ڈاکٹر کو یہ ضمانت دی جاسکتی ہے کہ وہ سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ لگادے، کاروبار شروع کردے یا پھر جائیداد خریدلے۔ کوئی بیرون ملک پاکستان جس نے مشقت ومحنت سے پیسہ کمایا ہو وہ ان شعبہ جات میں سرمایہ لگانے پر آمادہ ہوجائے گا؟ جسے اشرافیہ بے دردی سے لوٹ رہی ہو اور جس کو پوچھنے اور پکڑنے والا کوئی نہ ہو۔ ایسے ماحول میں بیرون ملک مقیم کوئی پاکستانی کیا سوچے گا؟
سات سمندرپاراپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے سرگرم عمل پاکستانی یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان کو جدہ، برمنگھم یا ہیوسٹن میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر کبھی کھڑے ہونے کا اتفاق نہیں ہوا ورنہ وہ خوب جان لیتے کہ پاسپورٹ کی تجدید کس بھائو پڑتی ہے۔ اپنے کسی پیارے کو کسی قانونی مدد کی ضرورت خدانخواستہ پڑجائے تو ان کے ساتھ کس طرح کا ذلت آمیز سلوک ہوتا ہے؟ اس بے بسی کا تجربہ بھی شاید عمران خان کو نہیں۔ سرکاری عملے کے ہاتھوں ہونے والی ذلت اور رسوائی ان پاکستانیوں کے لئے سبق ہوتا ہے کہ خواہ کتنے ہی پاپڑ کیوں نہ بیلنے پڑیں لیکن اپنے زندہ رہنے کے لئے بیرون ملک ہی آپ نے مشقت جھیلنی ہے، واپس جانے کا سوچنا بھی نہیں۔ جب وہ یہ دیکھیں کہ فلپائن، تھائی لینڈ اور بھارت کے شہریوں کو نسبتا بہتر خدمات میسر ہیں توان کے دل پر کیابیتے گی؟ (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024