پاکستان اسی اعتبار سے اپنی پسماندگی سے باہر نہیں نکل سکا کہ یہاں کوئی معقول ماہر معاشیات پیدا ہی نہیں ہوا۔ پیدا ہوتا تو پروان چڑھتا جو نظر آیا وہ محض اپنی ڈگڈگی بجا کر نمایاں ہوا عالمی فورم پر کی جانے والی گفتگو کے انداز اور چلن سے نابلد ایسے شعبدہ بازوں کے پھولے ہوئے غبارے سے ہوا تو ورلڈ بنک کی بلڈنگ میں داخل ہونے سے پہلے ہی نکل جاتی ہے چنانچہ ہمارے وزراء خزانہ کے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے مذاکرات یکطرفہ ہی ہوتے ہیں ان کی زبان گنگ اور کانوں سے دھواں نکلتا ہے۔ بات سمجھ آئے یا نہ آئے یہ ان کی ہاں میں ہاں ملانے کو ہی اپنی مہارت سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم کے بعد اگر کسی شخص میں مجھے عالمی معاشیات اور پاکستانی معیشت کے تقاضوںکا، کچھ فہم نظر آیا تو وہ سلمان شاہ ہیں مگر ایسے ماہرین کو جمہوریت اور جمہوری حکمران اس لئے تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اسے اپنی اور جمہوریت دونوں کی تضحیک سمجھتے ہیں۔ سرتاج عزیز نے پاکستان کی معیشت کو سوالیہ بنائے رکھا۔ شوکت عزیز نے اس کے ذریعے وزارت عظمٰی لی اور اسحاق ڈار نے پاکستان کے خزانے کو جس طرح مفت کا مال سمجھ کر استعمال کیا اس کی ساری مہارت صرف فنی اصطلاحات کے استعمال سے بعض دفعہ کابینہ کے اجلاس میں ان کے موقع بہ موقع استعمال اور بعض دفعہ اپنی جماعت کی قیادت یا حکومت کے سربراہ کے سامنے ان اصطلاحات کا اس طرح استعمال کیا کہ معاشیات کی باریکیوں سے ناواقف حکمران اس چرب زبانی سے متاثر ہو جائیں۔ وزیراعظم عمران خان بھی اپنے ایک قریبی ساتھی کی ’’مہارت‘‘ سے متاثر ہو کر پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کو سمجھنے اور سنبھالا دینے کے لئے کسی دوسری آپشن یا کسی دوسرے شخص کو تلاش ہی نہ کیا۔ اسد عمر کا ان ایک دو لوگوں میں شمار ہوتا ہے جنہیں حکومت بننے سے پہلے ہی اپنے پورٹ فولیو کا پتہ تھا جبکہ دوسروں کو تو وزیر بننے یا نہ بننے کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں تھا۔
آئی ایم ایف میں جانے سے پہلے اور انڈونیشیا جا کر قرضے کی درخواست دینے تک ہمارے اس وزیر خزانہ کو آئی ایم ایف کی شرائط کا شاید اندازہ نہیںتھا۔ پہلے قرض پر لگائی جانے والی شرائط کا مطالعہ کر لیا ہوتا تو اس سے واضح مؤقف اختیار کرنے کی راہ نکل سکتی تھی۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ اسد عمر کے کہنے پر ہی عمران خان نے کہا ہو گا ، میں آئی ایم ایف کے پاس جانے پر خودکشی کرنے کو ترجیح دونگا۔
عمران خان ہو یا کوئی بھی دوسرا شخص جسے معیشت کی سمجھ نہ ہو جو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر کو ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ہی پرکھے وہ اس طرح کی اصطلاحات یا ٹرمینالوجی سے متاثر ہو جاتا ہے اور اپنے کسی باتونی ساتھی کو ماہر معاشیات سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ سیاست میں دو نمبری یا دس نمبری بھی چل جاتی ہے۔ معاشیات میں دو نمبری فوراً ظاہر ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ اسد عمر اور اسحاق ڈار کا موازنہ یوں بھی کرتے ہیں۔ اسحاق ڈار کو منی لانڈرنگ تو آتی تھی بلکہ قومی خزانے کو لوٹنے کے کئی گر بھی آتے تھے ایسے سوالات کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ چرب زبانی سماعتوں سے ٹکرا کر اچھے بھلے آدمی کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے اور جو جلد متاثر ہو جانے والا ہو اسے تو مستقل ایسے ٹرمینالوجی کے اسیر اپنی ٹرمینالوجی یا فنی اصلاحات کی ایسی مار دیتے ہیں کہ وہ اس کی اسیری میں دھوکا کھاتے ہیں یہ غلط ٹرمینالوجی استعمال ہو جائے اور بقول ایک ڈرامہ نگار کے ’’بات کی سمجھ آگئی ہے ناں‘‘ والے مکالمہ کا مکمل اطلاق ہو رہا ہو تب بھی یہ اس طرح مداخلت کرتے ہیں یا کہیں کسی دینی مسئلہ کو غلط بیان کر دیا گیا ہے۔ ٹرمینالوجی کی اہمیت سمجھنے کے لئے صرف زر یا روپے کے لین دین میں کس طرح ٹرمینالوجی استعمال ہوتی ہے اگر روپیہ مسجد، مندر، چرچ میں دیا جائے تو یہ عطیہ کہلاتا ہے۔ اگر کسی مزار پر جائے تو اس کا نام چڑھاوا ہو جاتا ہے۔ کسی مزدور کے کام کرنے پر مزدوری کو اجرت، اگر باقاعدہ ملازم کو مہینے پر یہ اجرت ملے تو وہ تنخواہ بن جاتی ہے۔
اگر ریٹائرمنٹ پر کچھ پیسے مل جائیں تو وہ گریجوئٹی اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو ہر مہینے ملنے والی بغیر کام کے تنخواہ کو پنشن۔ ضروریات جیسے بجلی، پانی، گیس، ٹیلی فون کے استعمال کرنے پر دیا جانے والا پیسہ بل کہلاتا ہے۔ بچوں کو سکول میں تعلیم دلوانے کیلئے دیا جانے والا روپیہ فیس کہلاتا ہے یہی ٹرمینالوجی ڈاکٹر اور وکیل کی پیشہ وارانہ خدمات حاصل کرنے پر ادا کرنے میں استعمال ہوتی ہے۔ کسی سے ناجائز کام کروانے یا جائز کام ناجائز طریقے سے کروانے پر دی جانے والی رقم رشوت۔ غریب اور بھکاری کو دیں تو خیرات یا بھیک۔ دین کے ایک حکم کی تعمیل میں اپنی دولت کو پاکیزہ بنانے کے لئے ہر سال اڑھائی فیصد علیحدہ کر کے غریبوں، مسکینوں کو دیں تو زکٰوۃ، مسلمانوں اور غیر مسلموں کو اس کے علاوہ دیں تو صدقہ، کسی قانون شکنی پر ادا کرنا پڑے تو جرمانہ جب کسی عزیز سے یا بنک سے ادھار لیں تو قرضہ، اس پر طے شدہ بنک چارجز دینے کا نام سود۔ حکومت کی طرف سے آمدنی پر مقررہ رقم کی ادائیگی ٹیکس، بینکوں کی شرائط پر پورا نہ اترنے پر دیا جانے والا جرمانہ، ہرجانہ بن جاتا ہے اور اگر کوئی یہ پیسہ ہضم کر جائے یا نہ دے تو وہ دیوالیہ کہلاتا ہے۔ کسی سے زبردستی بدمعاشی کے طور پر وصول ہونے والا پیسہ بھتہ اور کسی کو اغوا کر کے رہا کرنے کی شرائط میں طلب کردہ روپیہ تاوان۔ جب سیاستدان قومی دولت کی چوری کریں تو مالی بدعنوانی یا سکینڈل اور اگر پیشہ ور یا ماہرین کر لیں تو ’’مس مینجمنٹ‘‘ عام سرکاری افسر کر لے تو کرپشن۔ جہاں پیسہ کسی ایسے ذریعہ سے آئے جس کا ظاہر نہ کرنا ضروری ہو یا مجبوری ہو تو وہ منی لانڈرنگ۔ عالمی سطح پر یہ ’’کاروبار‘‘ اور یہ اصطلاح اتنی عام ہے کہ بچہ بچہ اسے سمجھتا ہے۔ بچوں کو دیں تو جیب خرچ، بہرے کو دیں تو ’’ٹپ‘‘۔ گویا ایک روپے کو اتنے نام دے کر اس کی الگ الگ پہچان کے اتنے حوالے دیکر ٹرمینالوجی کے موجدوں اور استعمال کنندگان کی جو اہمیت بن چکی ہے وہ تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حکومتی سطح پر بیلنس آف پے منٹ، فارن ایکسچینج زرمبادلہ، منی لانڈرنگ، ’’کک بیک‘‘ کالا دھن، سفید دھن، کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے ’’پلی بارگین‘‘ یہ سب بعض لوگوں کو الجھانے، بعض کو معتبر بنانے، بعض کو متاثر کرنے اور بعض سے متاثر ہو جانے کے لئے اتنا ضروری ہے کہ اب ان کے مسلسل استعمال سے ان کو ترک کرنا ممکن نہیں رہا۔ جب تک یہ ٹرمینالوجی ہے شعبدہ بازوں کے وارے نیارے ہیں۔
اعداد کا گورکھ دھندا دماغی اور نفسیاتی عوارض کو اس حد تک عام کر چکا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے ، ان کی دسترس اور پکڑ دونوں سے کوئی بھلا آدمی بچ نہیں سکتا۔ اس سے وہ دانائی اور مشرقی دانش ختم ہو گئی ہے جو الجھے ہوئے اور بہت ہی گمبھیر مسائل کو بہت ہی سادہ انداز سے حل کر لیتے تھے اس باورچی کی طرح جس کی بیٹی نے میکے آکر سسرال کی بہت زیادہ شکائتیں کیں اور اس طرح کا تاثر دیا جیسے مصیبتوں اور مسائل نے اکٹھے ہو کر اس پر حملہ کر دیا ہے۔
باپ کی بیچارگی کا اندازہ وہ اس کے چہرے اور آنکھوں سے کر رہی تھی مگر باپ نہ اس کی ہمدردی میں اور نہ ہی اس کے سسرال کی مذمت میں ایک لفظ بولا صبح اسے اپنے ساتھ ہوٹل لے گیا اس نے تین برتنوں میں پانی ڈال کر تین چولہوں پر رکھ دیا۔ پانی ابلنے لگا تو اس نے ایک برتن میں انڈا دوسرے میں گاجر اور تیسرے میں تین چمچے کافی کے ڈال دئیے۔ تھوڑی دیر بعد باپ نے بیٹی سے کہا تینوں کو چیک کر کے ان کے بارے میں بتائے بیٹی نے کہا گاجر نرم ہو گئی ہے۔ انڈا ابل کر سخت ہو گیا ہے، کافی چکھنے کے بعد اسے عجیب سرور آیا ا ور اس کے چہرے پر مسکراہٹ کیا آئی باپ سے پوچھنے لگی بابا اس کا مطلب کیا ہے۔ باپ بولا بیٹا تینوں چیزوں کو ایک ایسے سخت اور مشکل حالات کا سامنا تھا مگر تینوں کا ردعمل مختلف ہے۔ گاجر سخت اور مضبوط تھی ابلتے پانی نے اسے نرم اور کمزور کر دیا۔ انڈا باہر سے سخت اور اندر سے نرم تھا اور سخت چھلکا نرم بلکہ مائع قسم کے حصے کا محافظ بنا، ابلتے پانی نے اس مائع نما حصے کو سخت کر دیا۔
کافی نے ابلتے پانی میں ایک خوشبو اور تاثیر پیدا کر دی جو پانی میں جانے سے پہلے اس میں نہیں تھی۔ اب بیٹی تم بتاؤ تم سخت صورتحال میں گاجر کی طرح کمزور ہو کر اپنی طاقت کھو دو گی۔ انڈے کی طرح سخت جان بن جاؤ گی یا کافی کی طرح اپنی خوشبو اور تاثیر سے ہر چیز بدل دو گی۔ بیٹی بولی بابا سمجھ گئی۔ مشکلات سب کو آتی ہیں آپ کی بیٹی آئندہ ان سے گھبرائے گی بھی نہیں اور کسی مشکل کا آپ سے ذکر بھی نہیں کرے گی۔ واپس جا کر بیٹی نے سب کچھ اتنی جلدی بدل دیا کہ پورے محلے میں اس کی برداشت، دانائی، معاف کرنے اور نظرانداز کرنے کے چرچے اس کے احترام میں بے پناہ اضافہ کر گئے۔
اسد عمر صاحب! کافی والی خوشبو چاہئے تھی کیونکہ آپ عمران خان کے وزیر خزانہ ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024