آصف جاہ پر لکھتے لکھتے میں تھک گیا ہوںمگر یہ مرد خدا خلق خدا کی خدمت سے تھکا نہیں۔ کوئی آفت آجائے۔،وہ جوانوں سے زیادہ جوان نظر آتا ہے اور بے خطر کود پڑاا ٓتش نمرود میں عشق کی مثال بن جاتا ہے۔
شامی مہاجرین کی ابتلا میں وہ دو بار ترکی جا چکا ہے اور ہر بار کروڑوں کا امدادی سامان ساتھ لے جاتا ہے۔ کہتا ہے کہ جو سکون اپنے ہاتھ سے دینے میں ہے، وہ صرف امداد بھیج دینے سے کہاں مل سکتا ہے۔ وہ ترکی جاتا ہے۔ وہاں سے شامی مہاجرین کی بستیوں کارخ کرتا ہے اور پھر بھی اسے چین نہیں آتا تو شامی سرحد کے اندر گھس جاتا ہے اور وہاں بے خانماں افراد کی دستگیری کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ترکی نے شامی مہاجرین کی خدمت کا حق ادا کر دیا ہے۔ اور ایک بار پھر وہاں مواخات مدینہ کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کسی کے پاس گھر میں دو کمرے ہیں تو ایک کمرہ شامی مہاجرین کو پیش کر دیا ہے۔ کسی کے پاس دودکانیں ہیں تو ایک دکان کی چابی مع سامان شامی مہاجرین کی خدمت میں حاضر کر دیتا ہے اور جو مہاجرین دفتری امور انجام دینے کے قابل ہیں ۔، انہیں سجے سجائے دفاتر پیش کر دیئے گئے ہیں مگر شامی مہاجرین کا عذاب اس قدر سنگین ہے کہ اس کا بوجھ کوئی ایک ملک اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا، اس لئے ا ٓصف جاہ کا کہنا ہے کہ ان سے جو بن پڑتا ہے، وہ بھی ان کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔
میری آنکھوں سے ا ٓنسووں کا سیلاب بہہ رہا ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ عالم اسلام ایک سرطان کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ چالیس سال قبل افغانستان کے لوگوں کوہجرت کا دکھ سہنا پڑا ، اس وقت پاکستان اس قابل تھا اور دنیا نے بھی پاکستان کی مکمل امداد کی اور ساٹھ لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کو چار عشروں سے سنبھالا دیا ہوا ہے ۔ مگر اب تو جدھر دیکھو ۔ دل دکھی ہو جاتا ہے۔ ایک طرف روہنگیا مسلمان ہیں جن پر ان کے وطن کی سرزمین تنگ کر دی گئی ہے۔ اور وہ آنگ سو چی جو ایک زمانے میں اپنے لئے بنیادی حقوق مانگ رہی تھی۔ آج اس نے اقتدار میں آ کرروہنگیا مسلمانوں کے بنیادی حقوق پامال کر دیئے ہیں، وہ اس قدر سنگدل واقع ہوئی ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کے جائزہ وفد کو ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ آج ہی آنگ سو چی سے وہ ایوارڈ واپس لے لیا گیا ہے جو اسے بنیادی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے برسوں پہلے دیا تھا۔ لوگ تو مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس کوملنے والا ہر عالمی اعزا زواپس لیا جائے۔روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیش، تھائی لینڈ اور ملائیشیا تک پھیلے ہوئے ہیں اور ان میں سے ہزاروں کی تعداد میں سمندری کشتیوں کے ڈوبنے سے جاں بحق بھی ہو جاتے ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ بنگلہ دیش نے پاکستان کے خیراتی اداروں کو ویزے دینے سے انکار کر رکھا ہے مگر ڈاکٹر آصف جاہ نے کوئی نہ کوئی چینل ایسابنا لیا ہے کہ وہ مسلسل پچھلے دو بر س سے بنگلہ دیش میں روہنگیا کے مہاجر کیمپوں میں امدا دی سامان پہنچا رہے ہیں اور نقد رقوم بھی بھیجی گئی ہیں تاکہ مہاجرین خیمہ بستیاں بسا سکیں۔
مہاجرین کی بات کی جائے تو یمن کی صورتحال پر دل خون کے آنسوروتا ہے۔ یہ لوگ کہیںجانے کے قابل بھی نہیں، ان کی سرحد پر کوئی ایسا ملک نہیں جو وہاں کے دکھی لوگوں کوپناہ دے سکے۔ ان کے ارد گرد ایک حصار بنا ہوا ہے اور وہ بے چارے ایڑیاں رگڑ کر مرنے پر مجبور ہیں۔
ادھر فلسطینیوں کی حالت ایک سو برس سے ابتر ہے۔ ان سے ان کا وطن چھین لیا گیا۔ ان پر ٹینکوں کے گولے برسائے گئے ا ور اب میزائلوں کی بارش کی جا رہی ہے۔ ٹینکوںکے سامنے تو وہ غلیلیں لے کر نکل سکتے تھے مگر میزائل کا تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کدھر سے ا ور کس نے فائر کیا۔ فلسطینیوں کی چار نسلیں خیمہ بستیوں میں پیداہوئیں اور وہیں مر کھپ گئیں۔
لبنان بھی خانہ جنگی کا شکار رہا۔ وہاں گلی گلی میںمورچے لگے ا ور لوگوںنے ایک دوسرے کے گلے کاٹے ۔ ان کے پیچھے عالمی طاقتیں تھیں جو ایک ہنستے مسکراتے ملک کو برباد کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔ عراق کا جس طرح سے کچومر نکالا گیا ہے۔اس کا تصور کر کے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔یہ ملک بھی عالمی بمباری کا نشانہ بنا اور اندرونی قوتوں کو بھی آپس میں لڑایا گیا۔ عراق میں صدیوں پہلے اس وقت بھی خون بہا تھا جب ہلاکو اور چنگیز کی فوجوںنے اس ملک پر حملے کئے اور دریائے دجلہ انسانی خون سے سرخ ہو گیا تھا، یا پھر اب دجلہ اور فرات کی سرزمین کو خون میں نہلایا گیا ہ جب امریکہ اورا س کے اتحادیوںنے اسے نشانہ بنایا ہے۔
پاکستان چونکہ ایک ایٹمی قوت ہے۔ ا سلئے اسے عالمی طاقتیں برداشت کرنے کو تیار نہیں ہو سکیں۔ پاکستان کی بربادی کے لئے دہشت گردوں کو لانچ کیا گیا جنہوں نے بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھا ہو اتھامگر وہ مسجدوں، مزاروں، چرچوں، بازاروں، مدرسوں، سکولوں، کالجوں ، مارکیٹوں حتیٰ کہ جنازوں تک کو نشانہ بنا رہے تھے ۔پاکستان کی بہادر افواج ان کے مقابل صف آرا ہوئیں اور انہیں شکست فاش سے دو چار کیا مگرا س دوران میں سوات،ملا کنڈ اور فاٹا کے لوگ وسیع پیمانے پر بے گھر ہوئے۔ ان کے علاقوں میں امن تو قائم کیا جا چکا ہے مگر بربادی اس قدر ہو چکی ہے کہ نئے گھر بسانے اور متبادل نظام حکومت کی تشکیل کی صورت نظر نہیں آتی۔ یہ ابتلا نائن الیون کے بعد سے شروع ہوئی اور اس کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آتے، اس لئے کہ بیرونی قوتیں پاکستان کو سیاسی طور پر غیر مستحکم کر چکی ہیں اور معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچا چکی ہیں۔اپنے ملک کے بے گھروں کے مسائل تو رہے ایک طرف خود ملک کو چلانے کے لئے وسائل نہیں ہیںکیونکہ اسے بے دردی سے لوٹا گیا ہے اور ماضی کے حکمرانوں نے اسے کھوکھلا کر کے چھوڑا ہے۔
اس قیامت کے عالم میں ڈاکٹر آصف جاہ کا وجود غنیمت ہے۔وہ اندھیرے میں روشنی کی کرن ہیں۔ سوات اور شمالی علاقوں کا زلزلہ ہو۔ پشاور اور پنجاب کے سیلاب زدہ لوگ ہوں۔ آواران کے مصیبت زدہ ہوں یا تھر میں پانی کی بوند کو ترسنے والے بچے۔ ڈاکٹرا ٓصف جاہ مقدور بھر ہر ایک کی مدد کرتے ہیں اور ان کاکردارہر ایک کو نظرا ٓتا ہے۔ حکومت پاکستان نے ان کی انسانی خدمات کی ستائش میںانہیں ستارہ امتیاز سے نوازا۔
میں اپنے قارئین سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ ترکی میں شامی مہاجرین کی امداد کے لئے آگے بڑھیں۔ خود وہاں جا کر حالات کا مشاہدہ کریں یا پھر آصف جاہ کی کتاب شام ترکی ہجرت ا ور خدمت کا مطالعہ کریں۔ یقین مانئے اس سفر نامے کی ایک ایک سطر راتوں کی نیند اڑا دیتی ہے۔اور دل سے دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ! ڈاکٹر آصف جاہ کے حوصلے بلند رکھ تاکہ وہ بے چارگان کا چارہ گر بن سکے اور حالات کا مقابلہ کر نے کے لئے انہیں حوصلہ دے سکے۔
اس سفر نامے کی ایک چھوٹے پیمانے پر افتتاحی تقریب ہفتے کو ہو گی ۔ اس کے مقررین کے جذبات بھی آپ تک پہنچاﺅں گا ، انشا اللہ!
یہاں مجھے وزیراعظم عمران خان کی اس کوشش کا بھی ذکر کرنا ہے جو وہ یمن کے مسئلے کے حل کے لئے کرنا چاہتے ہیں۔خدا کرے آج وہ یہ یمن میں امن قائم کرسکیں اور کل کو شام کی قیامت کو ٹھنڈا کرنے کا بیڑہ اٹھائیں۔ اور پھر فلسطین اور کشمیر کے پیچیدہ مسائل کی طرف توجہ مبذول کریں۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024