پاکستان مسلم لیگ ن کا یہ المیہ ہے اس کے رہنمائوں نے کبھی ’’نو مسلم لیگیوں ‘‘ کو قبول کیا ہے اور نہ ہی اپنے علاوہ کسی دوسرے کو مسلم لیگی کہلانے کی اجازت دی ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) جہاں ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے وہاں سب سے زیادہ غیر منظم بھی ہے جس میں کارکنوں سے زیادہ’’ لیڈروں ‘‘کی تعداد زیادہ ہے پارٹی کا ہر لیڈر ٹکٹ کا امیدوار نظر آتا ہے پارٹی ٹکٹ نہ ملے تو اپنی پارٹی کے امیدوار کے خلاف کھڑا ہوجاتا ہے اگر اپنی پارٹی کے امیدوار کے خلاف کھڑا نہ ہو تو ’’اندرون خانہ‘‘ اسے شکست دلوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے میں نے پچھلے 35،40 سال کے دوران دیکھا ہے کہ پرانے مسلم لیگیوں نے کبھی ’’نئے مسلم لیگیوں ‘‘ کو’’ ویلکم ‘‘ کیا اور نہ ہی ان کے لئے جگہ بنائی ۔ پرانے اور پیدائشی مسلم لیگیوں کی حالت یہ رہی ہے جب مسلم لیگ دو دھڑوں میں بٹ رہی تھی حامد ناصر چٹھہ اور اقبال احمد خان مرحوم ، اس وقت کے مقبول ترین لیڈر میاں نواز شریف کو مسلم لیگی لیڈر ہی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے میری ان سے پہروں بحث ہوتی لیکن وہ اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہ ہوتے ۔ اسی طرح آج کے دور میں جب بھی مسلم لیگ (ن) کی تنظیم نو کا فیصلہ کیا گیا مسلم لیگی رہنما’’من پسند‘‘ افراد پر مشتمل مرکزی و صوبائی جنرل کونسل قائم کر لیتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ گھروں میں بیٹھ کر’’جعلی رکنیت سازی ‘‘ کی جاتی رہی ہے ’’نئے خون ‘‘ کو پارٹی کے اندر آنے نہیں دیا جاتا تاکہ وہ پارٹی کے اندر اپنی جگہ نہ بنا لے جب کوئی شخص ایک بار عہدیدا ر بن جائے تو وہ ساری زندگی عہدہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا یوتھ ونگ اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن پر ایسے لوگ قابض ہیں جو جوان ہیں اور نہ ہی طالبعلم ۔ یہی وجہ ہے جو نوجوان مسلم لیگ (ن) کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے مسلم لیگ (ن) میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے دوسری پارٹیوں کا رخ کرلیتے ہیں ۔ پچھلے کئی سالوں کے دوران الیکشن کمیشن کے قوانین کے تقاضے پورے کرنے کے لئے مسلم لیگ (ن ) کے مرکزی اور صوبائی انتخابات کرائے تو گئے لیکن اس کے بعد پارٹی قیادت دیگر عہدیداروں کی نامزدگی کرنا ہی بھول گئی جب میاں نواز شریف کو وقت کے’’ جبر ‘‘نے ’‘ پارٹی قیادت سے ہٹا دیا تو ان کی جگہ میاں شہباز شریف کو صدر بنا دیا گیا ، صدر کا انتخاب عمل میں آگیا لیکن پارٹی کے دیگر عہدیدار نامزد کرنے کا صدر کو اختیار دئیے جانے کے باوجود تاحال اس کو استعمال نہیں کیا گیا اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ پارٹی قیادت کو نیب کے مقدمات میں الجھا دیا گیا خالی عہدوں پر آئین کے مطابق قائم مقام عہدیدار کام کر رہے ہیں سوا سال قبل جب میاں نواز شریف کو اقتدار سے الگ کیا گیا تو جی ٹی روڈ پر ان کے ساتھ عوام کا سیلاب رواں دواں دیکھ کر کچھ لوگ پریشان ہو گئے تھے نچلی سطح پر پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے اس سیلاب کو ’’محفوظ سیاسی قوت‘‘ میں تبدیل نہیں کیا جاسکا میاں نواز شریف کا شمار ملک کے مقبول ترین لیڈروں میں ہوتا ہے آج بھی پاکستان کی خاموش اکثریت ان کے ساتھ ہے ان کی پارٹی کے حصے بخرے کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں دو نمبر مسلم لیگ کھڑی کرنے کی کوئی کوشش کامیا ب نہیں ہوئی ۔ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا مینڈیٹ چوری نہیں کیا گیا بلکہ ’’ڈاکہ ‘‘ ڈالا گیا اس کے باوجود مسلم لیگ(ن) کو ختم نہیں کیا جاسکا نواز شریف کے بعد شہباز شریف کو گرفتار ہی اس لئے کیا گیا ہے مسلم لیگ(ن) کی پارلیمانی قوت مجتمع ہے مسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک بنانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی میاں نواز شریف پچھلے سوا سال سے احتساب عدالت کے سامنے ایک سو سے زائد پیشیاں بھگت چکے ہیں راولپنڈی سے سینیٹر چوہدری تنویر خان اور اسلام آباد سے انجم عقیل باقاعدگی سے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں میاں نواز شریف کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے موجود ہوتے ہیں راولپنڈی سے مسلم لیگی رہنما سردار نسیم بھی احتساب عدالت میں آتے رہتے ہیں لیکن مذکورہ دونوں رہنما باقاعدگی سے احتساب عدالت میں نظر آتے ہیں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک 80 سالہ خاتون زبیدہ بی بی اور جہلم سے ایک اور خاتون جس کا وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری کے گائوں سے تعلق ہے اپنے قائد میاں نواز شریف کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ہر پیشی پر احتساب عدالت کے باہر کھڑی نظر آتی ہیں اسی طرح راولپنڈی کینٹ سے تعلق رکھنے والا نوجوان مسلم لیگی کارکن قیصر خان یوسفزئی میاں نواز شریف سے ملاقات کی خواہش لے کر احتساب عدالت میں گھسنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کبھی اس کی کوشش کامیاب ہو جاتی ہے کبھی اسے مایوس لوٹنا پڑتا ہے عدنان کیانی ، چوہدری جمیل ،چوہدری مشتاق بھی باقاعدگی سے آتے ہیں میاں نواز شریف کی ضمانت دینے والے سخی عباسی ،ربنواز عباسی اور رحمنٰ عباسی روزانہ بنی چوک راولپنڈی سے پھولوں کی تازہ پتیاں لے کر میاں نواز شریف پر نچھاور کرتے ہیں ۔
جس رات میاں نواز شریف کی اڈیالہ جیل سے رہائی ہوئی اس روز مسلم لیگی کارکنوں کا جوش و خروش دیدنی تھا لیکن پارٹی کی مقامی قیادت سے اس وقت ان کارکنوں جن میں خواتین بھی شامل ہیں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے خلاف مختلف مقدمات درج ہونے پر ضمانت دینے کے لئے کوئی لیڈر تیار نہ ہوا یہ سینیٹر چوہدری تنویر خان اور انجم عقیل خان ہی تھے جنہوں نے ان کی ضمانتیں کروائیں اگر راولپنڈی اور اسلام آباد میں مسلم لیگ(ن) کا موثر سٹرکچر موجود ہوتا تو کارکنوں کو ایسی صورت حال درپیش نہ آتی ۔ محض فوٹو سیشن کے لئے احتساب عدالت میں آنے والے لیڈروں کو پاکستان کے کروڑوں عوام کے لیڈر میاں نواز شریف سے اظہار یک جہتی کے لئے کارکنوں کی بسیں بھر کر لاتے تو احتساب عدالت اسلام آباد کا منظر ہی کچھ اور ہوتا۔ میاں نواز شریف سینیٹر چوہدری تنویر خان اور انجم عقیل ہی کو حکم جاری کر دیتے تو احتساب عدالت کے باہر کارکنوں کا میلہ لگ جاتا۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان ہمیشہ ابتلا کے دور میں شریف خاندان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں آج بھی وہ ہر پیشی پر نواز شریف کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنی وفاداری ثابت کر رہے ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر و قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف 12 روز تک وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نیب کے ’’مہمان‘‘ رہے، انہیں منسٹرز انکلیو میں اپوزیشن لیڈر کی رہائش گاہ کو سب جیل کا درجہ دے کر رکھا گیا ہے۔ سپیکر اسد قیصر نے انہیں پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی بلا کر جہاں انہیں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا ہے وہاں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے ارکان پارلیمنٹ اور اپوزیشن کے رہنمائوں آصف علی زرداری ، سید خورشید شاہ اورسید نوید قمر سے ملاقاتیں بھی کیں ۔ اپوزیشن لیڈر کا چیمبر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ لاہور روانگی سے قبل انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے اجلاس کی بھی صدارت کی جس میں پارٹی کی تنظیم نو کے سلسلے میں اہم فیصلے کئے گئے ۔ اجلاس میں جہاں دو ماہ میں مسلم لیگ (ن) کی تنظیم نو کا فیصلہ کیا گیا وہاں عام انتخابات میں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ’’سخت کارروائی‘‘ کرنے کا فیصلہ کیا گیا 2013کے انتخابات میں جس طرح راولپنڈی میں مسلم لیگ (ن) کے بیشتر مقامی رہنمائوں نے ملک شکیل اعوان کو مل کر ہروایا اسی طرح 2018ء کے ضمنی انتخاب میں شیخ رشید احمد کے بھتیجے شیخ راشد شفیق کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سجاد خان کو ہروانے کی پوری کوشش کی 2018ء کے انتخابات میں بھی این اے 62کا مینڈیٹ چوری نہ ہوتا تو نوجوان بیرسٹر دانیال چوہدری جیت جاتا۔ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی مثالیں کم و بیش ہر شہر میں ملتی ہیں لہذا جب تک پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوںکو نکال باہر نہیں کیا جائے گا اس وقت تک پارٹی منظم نہیں ہو گی یہ اسی وقت ممکن ہے جب ’’درگزر‘‘ کی پالیسی ترک کر دی جائے گی میاں شہباز شریف پارٹی رہنمائوں کو حکومت کو’’ ٹف ٹائم‘‘ دینے کی ہدایات جاری کر کے لاہور گئے ہیں ۔ جب آشیانہ ہائوسنگ سکیم میں نیب کو کچھ نہ ملا تو اب ایک گندہ نالا تعمیر کرنے کا حکم جاری کرنے کے ایک اور مقدمہ میں ان کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے اجلاس میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل بنانے کے لئے احسن اقبال جیسی متحرک شخصیت کا نام زیر غور آیا جنہوں نے 2018ء کے انتخابات میں ریکارڈ ووٹ حاصل کئے سندھ سے سینیٹر اسد جونیجو نے پارٹی قیادت کو احسن اقبال جو پہلے ہی قائم مقام سیکریٹری جنرل کے طور پر کام کر رہے ہیں ، سیکریٹری جنرل بنا نے کی تجویز پیش کی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک ہی صوبے سے تعلق رکھنے والے دونوں لیڈروں کو مرکزی عہدے دئیے جاتے ہیں یا پار ٹی مصلحتوں کا شکار ہو جاتی ہے بہر حال اس بارے میں پارٹی کے قائد کو جلد فیصلہ کرنا پڑے گا یہ بھی معلوم ہوا کہ سینیٹر چوہدری تنویر خان کو وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں سنٹرل سیکریٹریٹ اور میڈیا سنٹر کے قیام کے لئے ہوم ورک مکمل کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے جب سے چوہدری نثار علی خان کو مسلم لیگ(ن) کی سیاست سے کنارہ کشی کرنے پر مجبور کیا گیا ہے اس کے راولپنڈی میں مسلم لیگ (ن) پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اگر سینیٹر چوہدری تنویر خان کو راولپنڈی میں مسلم لیگ (ن) کو منظم کرنے کا ٹاسک دیا جائے تو وہ سردار نسیم ، حاجی پرویز ، ضیا اللہ شاہ ، راحت قدوسی ، ملک ابرار ، ملک شکیل اعوان راجہ حنیف ، شیخ ارسلان حفیظ سمیت تمام مسلم لیگی لیڈروں کو ایک میز پر بٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اسی طرح سینیٹر چوہدری تنویر خان اور رانا تنویر کی سربراہی میں چوہدری نثار علی خان کو منانے کے لئے جرگہ تشکیل دیا جائے ۔ سالہاسال سے پارٹی کے یوتھ اور سٹوڈنٹس ونگ پر قابض ’’ادھیڑ عمر‘‘ جوانوں سے پارٹی کی جان چھڑائی جائے تو پارٹی میں نئی جان آجائے گی مسلم لیگ (ن) کی رکنیت سازی کے لئے کیمپ لگائے جائیں تو عوام کی طرف سے مثبت رسپانس ملے گا ۔ تعلیمی اداروں کے باہر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کیمپ لگا کر طلبہ کو ایم ایس ایف کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے اگر پارٹی کے لیڈر تنظیم نو کی طرف سنجیدگی سے کام لیں تو پارٹی کے لئے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے بصورت دیگر’’ لیڈروں‘‘ کی جماعت اس وقت میاں نواز شریف کے گرد گھیرا ڈالے رکھے گی جب تک ان کی مقبولیت کا سورج نصف النہار پر ہے ۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024