خالدہ ریاست
خالدہ ریاست کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے ایک دھڑکا سا لگا ہے کہ ابھی وہ اُٹھے گی اور پہلے تو سراہے گی کہ چلوجی آپ کو ہمارا خیال آ ہی گیا اب ذرا سب اچھا ہی اچھا لکھیے گا۔پھر آنکھیں نکالے گی اور دھمکائے گی خبردار جو میرے بارے کچھ ایسا ویسا لکھا میں پکڑ کے یہ سارے لکھے کو چیر پھاڑدوں گی۔اور پھر خوب ہنسے گی ۔ قہقہے لگالگا کر۔ پھر فوراً ہی سنجیدہ ہو جائے گی اور کہے گی یہ لائن ہنستے ہوئے نہ بولوں ذرا سا استہزا آ جائے گا۔ پھر یک دم خاموش سی ہو جائے گی اور کسی گہری سوچ میں ڈوب جائے گی۔ مگر یہ کیفیت صرف چند منٹ رہے گی اور پھر وہ بالکل نارمل ہو جائے گی۔میں چند منٹ کے اندر ہی اُس سے دوسری ملاقات میں۔۔۔۔نہیں پہلی ہی ملاقات‘ کیوں کہ اس سے پہلے تو میں نے صرف ایک آدھ بار اُس پر نگاہ ڈالی تھی یا سلام وغیرہ کیا ہو گا۔۔۔۔۔ بھانپ گیا تھا کہ یہ کوئی غیر معمولی لڑکی ہے۔ ہُوا یوں تھا کہ 1975 کے کوئی بھلے سے خوشگوار سے دن تھے اور میں ایک جاسوسی سیریز کے لیے اسلام آباد میں اصغر بٹ سے اُن کی لکھی سیریز ’’نامدار ‘‘ کے اسکرپٹس پر میٹنگ کر کے لوٹا تھا۔ میل لیڈ Male Leadکے لیے تو میرے پاس شکیل تھے مگر فیمیل لیڈکے لیے میں کسی نئے چہرے کا متلاشی تھا تا کہ کردار میں کوئی دیکھی بھالی لڑکی نہ محسوس ہو۔اتفاقاً اُنہی دنوں ایک روز آنٹی خورشید شاہد دو لڑکیوں کے ساتھ میرے دفتر میں تشریف لائیں۔ لاہور کے بعد اب اُن سے ملاقات ہوئی تھی مگر بہت مختصر۔ اُنہیں اور لوگوں سے بھی ملنا تھا چنانچہ وہ کچھ ہی دیر میرے پاس رُکیں اور پھر وہ شیریں کے دفتر کو چلی گئیں۔ لیکن اتنی دیر میں مَیں اُن کے ساتھ کی ایک لڑکی کو چُن چکا تھا ۔چنانچہ فوراً شیریں کے دفتر پہنچا اور اُ ن دو میں سے ایک کافی خوبصورت سی لڑکی کو پوچھا کہ آیا وہ کسی پلے میں کام کرنا چاہے گی؟ اُس سانولی سلونی لڑکی نے اُسی وقت صاف ستھرا انکار کر دیا اور میں اپنا سا منہ لے کر واپس آ گیا۔ پتہ چلا کہ اُس لڑکی کا نام زینت منگھی ہے ۔(کرنا خدا کا کیا ہُوا کہ یہ لڑکی زینت منگھی بعد میں جاوید شیخ کو پیاری ہو گئی۔ہے ناں کمال کی بات؟!) اُن دنوں ماسٹر کنٹرول روم اور ساری مشینیں کراچی پی ٹی وی سینٹر کے گراؤنڈ فلور پر ہوتی تھیں خبروں اور اناؤنسمنٹ کا اسٹوڈیو بھی نیچے ریسیپشن کی بغل میں تھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد میں اوپر کی منزل پر اپنے دفتر سے نکلا اور نیچے ماسٹر کنٹرول روم کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ اچانک ایک لڑکی کا چہرہ میرے چہرے سے تقریباًچار انچ کے فاصلے پر رُکا۔ میں ٹھٹک کر کھڑا ہُوا ہی تھا کہ اُس چہرے نے مجھ پر سوال داغ دیا،"Can't I act?"میں اُس چہرے کو دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا! سفید سی رنگت جس میں سُرخی برائے نام تھی، ہلکی گرے سی قدرے بڑی بڑی آنکھوں میں ہلکا سا غُصہ اور سوال، سادے سے ہلکے سنہری بال،پیشانی جیسے فراخ ہوتے ہوتے رہ گئی ہو اورناک جیسے ستواں ہونے سے بچ گئی ہو، نہ پتلے نہ موٹے ہونٹ، اصلی ‘کمان دار بھنویں اورتقریباً صراحی دار گردن۔وہ دُبلا پتلا لیکن پُر تاثّر چہرہ میرے سامنے کلوز اپ میں میرے چہرے کے برابر تھا۔ میرے حیران ہونے پر قدرے نیچا ہُوا تو میں نے‘احتیاطاً بھی‘ ایک قدم پیچھے ہٹ کر اُس کے دبلے پتلے سراپا کو دیکھا۔حقیقت یہ ہے کہ میں اُس کی جرأت اور بے باکی سے حیران پریشان ہو کر اُسے تقریباً کاسٹ کر چکا تھا ،"Yes you can act....but you are too thin...." اُس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا۔۔۔لیکن میں نے اُسے موقعہ نہیں دیا۔"But I have to have a look at you on camera, come on." اور میں اُسے نیوز اسٹوڈیو میں لے گیا۔ کیمرے پر اُس کے چہرے اور سراپا کو مختلف زاویوں سے دیکھا ۔۔۔۔۔اور خالدہ ریاست کو ’’نامدار‘‘ نامی ہلکی پھُلکی جاسوسی سیریز میںشکیل کے مقابل لیڈ میں کاسٹ کر لیا گیا۔ یوں ٹیلیویژن کو ایک اور بہت بڑی ایکٹر میسّر آ گئی۔خالدہ، شکیل، راجو، منیزہ(نازیہ اورزوہیب کی امی، یہ دونوں 1975 میں ابھی بچے تھے اور آؤٹ ڈور شوٹنگز پر ہمارے ساتھ ہوتے تھے) کریو کے لوگ ، میری بیگم اور بچے ساحلِ سمندر پر ایک دو بار شوٹنگز پر گئے۔یہ ایک قسم کی پکنک بھی ہو جاتی۔ میری بیگم کھانا اور لوازمات ساتھ لے لیتیں اور کام کے بعد ہم سب بچے بن جاتے اور خوب مزے کرتے۔ ایک بار ہم بیمبینو سینما میں وحید مراد کی آخری فلم بھی دیکھنے گئے اور بالکل بچوں کی سی حرکتیں کرتے رہے ۔ راجو جمیل اور خالدہ ایسے موقعوں پر سب کو خوب ہنساتے۔خالدہ تو ہر بہانے قہقہے لگاتی۔ ایسے لگتا اس چھوئی موئی سی لڑکی کو دنیا کا کوئی غم نہیں ہے لیکن ہم سب غلَط تھے۔ اُسے ایک گہرا غم تھا جسے شاید اُس نے کبھی کسی سے شئیر نہ کیا ہو، کم از کم اُس وقت تو نہیں کیا ہُوا تھا۔ پھر ایسا بھی ہُوا کہ اُس نے اپنا غم مجھے بتا دیا۔وہی ازلی غم جو ہر ایک کو الہڑ پنے کے خوشگوار بہاریہ باغوں سے نکلتے ہی خود اپنی اور دنیا کی آگاہی بخش دیتا ہے اور پھر یہ غم کبھی بھی نہیں مُرجھاتا ،مرتے دم تک تر و تازہ ہی رہتا ہے۔شاید بعد میں بھی سوہانِ بنا رہتا ہوگا۔۔۔۔ابھی اس کا تجربہ نہیں ہُوا۔میرا ‘وتیرہ اپنی کاسٹ کے ساتھ ہمیشہ ہی ایک بزرگ کا سا رہا کرتا ہے تو میری کاسٹ مجھ پر اعتماد کرتی ہے۔ خالدہ نے بھی مجھ پر اعتماد کیا اور مجھ سے اپنا قہقہوں اور شرارتوں کے رنگا رنگ رومال سے ڈھکا ہُوا غم بے نقاب کر دیا۔ جب میں اُسے دنیا کی اونچ نیچ سمجھانے لگتا تو وہ فوراًً ہی خود سمجھ دار بن جاتی اور مجھ پر ہی پھبتیاں کسنے لگتی۔خوب ہنستی اور طرح طرح کی مضحکہ خیز حرکتیں کرنے لگتی۔ اُس کے موڈ کا کوئی پتا نہیں چلتا تھا۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔مجھ میں شاید اُسے فادر فگر مل گئی تھی ۔ میرے گھر میں بھی بے تکلفی سے آتی جاتی ۔ظاہر ہے میری بیگم اور بچوں سے بھی ہنستی بولتی اور خوب مزے کرتی۔یہاں تک کہ ایک دن میری بیگم نے تقریباًہنستے ہوئے بتایا،’’پتا ہے آج خالدہ کیا کہہ رہی تھی؟‘‘’’ظاہر ہے کچھ اُلٹی سیدھی ہانک رہی ہوگی۔‘‘’’ہاں۔ کہنے لگی بھئی کیا ہُوا مرد دوسری شادی بھی تو کر لیتے ہیں۔‘‘میں قدرے بھونچکا رہ گیا۔ پھر مجھ پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا،’’ارے اُس کی بات کو کہیں سیریس نہ لے لینا وہ بہت fickle minded سی ہے۔‘‘اور بات آئی گئی ہو گئی۔ دراصل جو ٹھیس اُسے پہنچی تھی وہ اُس سے کسی بھی طور چھٹکارا چاہتی تھی۔اُس نے اپنے پہلے غم کو جان کا روگ بنا لیا تھا۔’’نامدار‘‘ میں شکیل ایک چھوٹے سے خوبصورت کافی ہاؤس کا مالک اور پرائیویٹ جاسوس کا Happy-go-lucky کردار کر رہا تھا ۔اُس کردار کے لیے گاڑی بھی عجیب سی ہونی چاہئیے تھی تو میں نے اپنی Citroen گاڑی کو ہلکا نیلا رنگ کروا کے ڈرامے میں شکیل کے حوالے کیا ہُوا تھا۔اگر آپ اُس گاڑی کو جانتے ہیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ انتہائی آرام دہ اور عجیب و غریب گاڑی ہوتی ہے۔اُس گاڑی کو ہم ڈرامے میں اور اپنے سیر سپاٹے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ ایک رات شوٹ سے فارغ ہو کر میں اور شکیل اُسی گاڑی میںخالدہ کو اُس کے گھر ڈراپ کرنے نکلے۔ راستے میں وہی جوائنٹ پڑتا تھا جو ہم شکیل کے ریسٹوران کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ہم وہاں کافی کے لیے رُک گئے۔ ہم ہنس بول رہے تھے کہ خالدہ اچانک سیریس ہوگئی۔بچاری! بڑے رسان سے کہنے لگی۔۔۔۔۔(جاری ہے)