بلدیاتی انتخابات ۔۔۔۔۔۔۔تاریخ کا حتمی فیصلہ نہ ہو سکا
راﺅ شمیم اصغر
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے غیریقینی صورتحال کے باوجود شیڈول پر عملدرآمد کا آغاز ہو چکا ہے اور کاغذات نامزدگی داخل کرانے کا سلسلہ جاری ہے۔ کاغذات نامزدگی جمع کرنے میں ایک دن کا اضافہ اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ امیدواروں کو سہولت حاصل ہوگئی ہے۔اسی طرح اب جبکہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ جاری ہے الیکشن کمشن آف پاکستان کی جانب سے اقلیتی امیدواروں کو غیرمشروط طور پر بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس سے قبل یہ شرط تھی کہ اقلیتی امیدوار جس حلقے سے الیکشن لڑنے کا خواہشمند ہے وہاں کم از کم 200اقلیتی ووٹرز کا موجود ہونا لازمی تھا۔ یہ اعلان بھی خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعلان کس وقت ہوا۔ کاغذات نامزدگی داخل کرانے کے دوسرے دن تک لوگوں کو اس کے بارے میں علم نہیں تھا۔ اس فیصلے سے اقلیتی امیدواروں کا خوش ہونا فطرتی عمل ہے۔ الیکشن کمشن کی جانب سے بلدیاتی الیکشن لڑنے والے امیدواروں پر جائیداد و دیگر ہر قسم کے اثاثوں کی تفصیل جمع کرانے کی بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ اثاثوں کی تفصیل جمع نہ کرانے والے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دئے جائیں گے۔ یہ ہدایات ریٹرننگ افسروں تک پہنچ گئی ہیں جس کی وجہ سے امیدوار نئی پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اثاثوں کی تفصیل فراہم کرنے کے لئے کافی دستاویزات کی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب جبکہ کاغذات نامزدگی داخل کرانے کا آدھا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اس پابندی کے منفی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے اور کئی امیدوار کاغذات تیار کرتے ہی رہ جائیں گے۔ ایک طرف بدانتظامی کی یہ صورتحال ہے دوسری طرف پنجاب بھر میں جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ماحول میں تبدیلی آئی ہے خصوصاً حکمران جماعت کے بہت سے رہنما اور کارکن اب حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔ بلدیاتی انتخابات پر چونکہ اراکین اسمبلی چھائے ہوئے ہیں۔ وہ پارٹی کارکن جو سالہاسال سے پارٹی کے لئے خدمات سرانجام دے رہے تھے اب ان کے لئے ایک ہی سہارا ہے کہ ضلعی سطح پر الیکشن بورڈ بنیں گے جس میں ضلعی و شہری تنظیموں کے عہدیدار بھی ہوں گے اور ان کی شنوائی ہو سکے گی۔ اگر پارٹی قیادت نے الیکشن بورڈ بھی اراکین اسمبلی پر مشتمل بنا دئے تو پھر پارٹی عہدیداروں اور اراکین اسمبلی کے مابین محاذ آرائی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
اب تک جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں ان میں پرانے ناظمین‘ نائب ناظمین کے علاوہ نئے چہرے بھی شامل ہیں۔ نئے چہروں کی اکثریت کا تعلق تحریک انصاف سے ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں میں سے متعدد ایسے ہیں جو ماضی میں مسلم لیگ ق میں شامل رہ چکے ہیں۔ کاغذات نامزدگی داخل کرانے والوں میں ایم پی اے‘ ایم این اے حضرات کے قریبی عزیزواقارب کے علاوہ 2013ءکے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے رشتہ دار بھی شامل ہیں۔ ادھر سیاسی جماعتوں نے ٹکٹوں کے لئے درخواستیں طلب کی ہیں اور اس کے حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں‘ ایک ہی دن میں تین بڑی جماعتوں سے سینکڑوں امیدواروں نے رابطہ کر لیا ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے موقع پر بڑے پیمانے پر سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کے امکانات ہیں اور متعدد مقامات پر کئی مضبوط سیاسی دھڑے لفٹ نہ ملنے کی صورت میں حکمران جماعت کو خیرباد کہنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ بعض مقامات مثلاً ضلع لودھراں سے ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ حکمران جماعت کے 2013ءکے انتخابات میں ہارنے والے رہنماﺅں نے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر گروپ بندی کر لی ہے۔ اس قسم کی صورتحال ڈیرہ غازیخان‘ راجن پور کے اضلاع میں بھی ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر عام انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے والے مسلم لیگ ن کے رہنماﺅں کو پارٹی قیادت کی جانب سے لفٹ نہ ملی تو بڑے پیمانے پر سیاسی توڑپھوڑ ہو گی جس کے اثرات آئندہ انتخابات پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔