''جاگ اٹھاہے سارا وطن ''

May 14, 2025

طلعت عباس خان

ٹی ٹاک 
طلعت عباس خان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ

چھ اور سات مئی2025 کی شب بھارت نے جنگ شروع کر دی۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈرون کا استعمال کر رہا ہے ابتک 70ڈرون گرا ئے چا چکے ہیں۔پاکستان نے بھارت کے پانچ لڑاکا طیارے تباہ کر دیے ، یہ طیارے بھارتی فضائی حدود میں مارے گئے،  شہریوں کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہے؟ دشمن کے اتنے اندر جا کر نشانہ لگانا، وہ بھی بغیر  دیکھے؟ جی یہ اب ممکن ہے۔ یہ سب کچھ اب اس لیے ممکن ہے کہ پاکستان نے اپنے لڑاکا طیاروں میں میزائل شامل کر رکھے ہیں یہ میزائل بہت طویل فاصلے تک دشمن کے طیاروں کو مار گرا سکتا ہے۔ تخمینوں کے مطابق یہ 200 کلومیٹر یا اس سے بھی زیادہ دور تک جا سکتا ہے مگر اصل کمال اس کے اندر لگے ہوئے جدید ریڈار سسٹم اور "انرشیل نیویگیشن" سسٹم کا ہے، جو میزائل کو پرواز کے دوران بھی ہدف کی سمت میں درست رکھتے ہیں۔جب بھارت کے طیارے پاکستانی حدود کے قریب آتے ہیں، یہ ایئر بیس پر موجود ہوں، پاکستانی فضائیہ کا گرانڈ ریڈار سسٹم ان کی نقل و حرکت کو دور سے ہی محسوس کر لیتا ہے۔ ان ریڈارز میں زمین پر موجود "راڈار پکٹس" طیارے، اور جدید گرانڈ سینسرز شامل ہیں۔ یہ تمام ریڈارز مسلسل دشمن کے طیاروں کی پوزیشنز، اونچائی، اور رفتار کو مانیٹر کر رہے ہوتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کیسے جانتا ہے کہ واقعی یہ طیارے تباہ ہو گئے ہیں؟ اس لیے کہ جب PL-15 میزائل دشمن کے طیارے کو نشانہ بناتا ہے تو اس کا اثر زمین پر موجود ریڈار پکٹس، سگنل انٹیلجنس اور پاکستان کے ایئر بورن وارننگ سسٹم پر فورا ظاہر ہو جاتا ہے۔ مثلا، جب کوئی طیارہ تباہ ہوتا ہے تو اس کا سگنل غائب ہو جاتا ہے۔ اس کی آواز، رفتار، اور مقام اچانک ختم ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات دشمن خود اپنے ہی ہنگامی چین بھیجتا ہے، جو پاکستانی انٹیلجنس سسٹم پکڑ لیتا ہے۔ اس کے علاوہ، گرانڈ پر موجود دیگر شواہد جیسے دھواں، راڈار سے اچانک لاپتہ ہونا، یا انٹیلیجنس رپورٹز یہ ثابت کرتے ہیں کہ واقعی ہدف تباہ ہو چکا ہے۔اس پورے عمل میں انسانی آنکھیں کچھ نہیں دیکھتیں، لیکن ریڈار، میزائل، اور ڈیجیٹل نظام ایک لمحے کے اندر دشمن کو ختم کر دیتے ہیں۔ یہی جدید جنگی حکمت عملی ہے، جہاں فاصلے کی قید ختم ہو گئی ہے اور دشمن اپنے ایئر بیس کے اندر بھی اب غیر محفوظ ہو چکا ہے۔اس وقت ساری قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ مورال اچھا ہی نہیں بہت اچھا ہے۔ آٹھ مئی بروز  کو سپریم کورٹ بار میں بھارتی  دہشتگردی کے حوالے سے جنرل باڈی کا اجلاس  صدر بار میاں محمد روئف عطا، سیکرٹری  سلیمان منصور اور کابینہ  نے طلب کر رکھا تھا۔ اس سے قبل صبح دس بجے ترک سفیر سپریم کورٹ بار میں تشریف لائے۔ وکلا نے بڑی گرم جوشی سے  ویلکم کہا۔ انہوں نے بھی اس مشکل گھڑی  میں پاکستان کا ساتھ دینے کا عزم کیا۔ ترک صدر اس کا اعلان پہلے ہی کر چکے ہیں۔اس سے پہلے ترک  حکومت نے سپریم کورٹ بار کو سجانے خوبصورت بنانے میں اہم رول ادا کر چکی جب صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری تھے آج موسم ابر الود تھا۔ بار کا پروگرام پہلے سے تھا۔ بار میں مختصر پروگرام کے بعد سپریم کورٹ بار سے بھارت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے شاہراہ دستور سے قومی اسمبلی تک مارچ کیا۔ بار میں صدر، سیکٹری کے علاوہ حافظ آحسان کھوکھر، سید منظور گیلانی صالحین مغل نے مختصر خطاب کیا۔ اس روز راولپنڈی شہر میں تین ڈرون حملے ہوئے اور مگر انہیں بھی مار گرایا گیا۔ اس وقت ساری قوم بھارت کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ ثالثی اگر امریکا، جین اور روس کریں گے تو ممکن ہے ورنہ نہیں۔ اس کا دوسرا طریقہ یہ کہ بھارت پر ایک زور دار حملہ ہو۔ جس پر بھارت چیخ اٹھے کہ اب بس لٹرائی ختم کرو ورنہ یہ جنگ ہلکی پلکی جاری رہے گی۔ میرے پیارے دوست ایڈووکیٹ سپریم کورٹ عامر سہیل جنھیں پڑھنے لکھنے کا شوق ہے انہوں نے میرے کالم کیلئے یہ تحفہ لکھ بھیجا ہے جو حقیقت پر مبنی ہے۔ لکھتے ہیں سندھ طاس نہیں تو تاشقند اور شملہ معاہدہ بھی ہمیں قبول نہیں۔ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی بڑھک کے بعد اب اصل مزہ کھیل کا تو آنے لگا ہے۔ پاکستان بھی اسکے جواب میں کھل کر جواب دے کہ اگر سندھ طاس معاہدہ نہیں تو پھر نہ تو تاشقند معاہدہ باقی بچے گا اور نہ ہی شملہ معاہدہ باقی رہے گا۔ یوں پاکستان بھی ان جبری معاہدوں سے جو مشکل حالات میں کئے گئے تھے جان چھڑائے گا۔ تب بھارت کو بھی لگ پتہ جائیگا کہ وہ تو پوجا پاٹھ معاف کرانے گیا تھا مگر یہاں تو مرن بھرت اور رکھشا بندھن بھی گلے پڑنے لگے ہیں۔ سب سے زیادہ فائدہ اس کا یہ ہوگا کہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول کے جبری مسلط کردہ نام سے جسے زیر انتظام کہا جاتا ہے نجات ملے گی اور پہلے کی طرح لائن آف کنٹرول کا نام سیزفائر رکھا جائیگا اور دنیا بھر نے نقشوں میں تحریریوں میں سرکاری خط و کتابت میں بھی اسے سیزفائر لائن حد متارکہ لکھنے سے بنا کسی سے پوچھے ہی پتہ چلے گا کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے جہاں 1948 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کرائی گئی۔ یہ تو تھا تاشقند معاہدے کا تحفہ جو ہمارے گلے پڑا تھا اسکے علاوہ شملہ معاہدہ کی سوغات کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان اندرونی مسئلہ ہے دونوں ممالک اسے باہمی گفت وشنید سے حل کریں۔ عالمی فورم پر نہیں جائیں گے اس سے نجات ملے گی۔ یوں ہم کسی بھی عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر اٹھانے پر پابندی سے آزاد ہو کر بھارت کو دن میں تارے دکھا سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہر شر سے خیر نکلتا ہے آگ سے اگر سرسبز علاقہ جل کر خاکستر ہوتا ہے تو بعد میں یہی خاکستر علاقہ زرخیر سرسبز علاقے کا روپ دھار لیتا ہے۔ پرانے پتے گرتے ہیں تو نئے پتے اگتے ہیں۔ اب لگتا ہے سندھ طاس معاہدے کی موت تاشقند اور شملہ جیسے پرانے چیتھڑوں سے نجات دلانے کی راہ نکالے گی اور بھارت پھر 1948 والی پوزیشن پر آئیگا۔ جب اقوام متحدہ نے کشمیر میں جنگ بندی کرائی تھی۔بہت شکریہ عامر بھائی۔ اب ایک تحریر امریکا سے رانا رمضان  صاحب کی ہے۔ رانا صاحب کو عمرے کی سعادت حاصل کرنے پر بہت بہت مبارک ہو۔ لکھتے ہیں۔جنگ و جدل کے بجائے غربت اور افلاس کا خاتمہ کرنے کی جنگ کرتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔بھارت کی بہت بڑی غلط فہمی تھی کہ جس نے اسرائیلی فرعونی طاقت کے نقش قدم پر چل کر اپنے ارد گرد کے ملکوں پر حملے کرکے عورتوں بچوں تک کو مارنے کے منصوبے پر عمل کر رہا ھے۔جس سے وہ آج سویلن کو مار کر جنگی جرائمز کا مرتکب ھو چکا ھے بشرطیکہ پاکستان ورلڈ کورٹ میں جنگی جرائمز کا مقدمہ درج کرا پائے۔بھارت پاکستانی غدار اور بھارتی ایجنٹ چند یو ٹیوبرز کی بنا پر سمجھ بیٹھا تھا کہ پاکستان میں عوام اور فوج میں تقسیم ھے جس کا اس نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ھے۔ دوسرا پاکستانی فورس کو سمجھ بیٹھا کہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کر پائے گی جس کے رد عمل میں پاکستان نے بھارت کے گھر میں گھس کر بھارتی جہازوں کومار گرایا ھے۔ تاھم بھارت نہیں جانتا ھے کہ پاکستان کے خطے کے لوگوں نے  بھی ھندوستان کی آزادی کے لئیے بے تحاشہ قربانیاں دے رکھی ہیں جو جنگ آزادی سے بہت اچھی طرح واقف ہیں بحر حال بھارت کے پاس اب بھی وقت ھے کہ وہ اس خطے میں جنگ و جدل کی بجائے یورپین یونین طرز کی برصغیر یونین کی بنیاد رکھے تاکہ اس خطے میں امن بحال ھو۔ رانا صاحب مشورہ تو آپ کا ٹھیک ہے مگر بھارت کا شمار '' لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں ماننے والوں میں ہوتا ہے!!

مزیدخبریں