فوری انتخابات کے امکانات

پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔اسلامی ریاست میں قانون کی طاقت کے بجائے طاقت کا قانون چلتا ہے۔حقیقی عوامی جمہوری نظام نہ ہونے کی بناء پر جمہوری اصولوں کی پاسداری نہیں کی جاتی۔اس نوعیت کی ریاست میں درست تجزیے اور اندازے ممکن نہیں ہوتے۔پاکستان کی تاریخ میں ریاست آج جس نازک حساس اور سنگین نوعیت کے سیاسی معاشی اور آئینی بحران کا شکار ہے کسی لیڈر سیاسی جماعت اور ریاستی ادارے نے اس کا تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔پاکستان کے سیاست دان بحران پیدا تو کر سکتے ہیں مگر بحران کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔یہ مہارت جس ریاستی ادارے کو حاصل ہے وہ آجکل سخت دباؤ میں ہے۔ اس کے خلاف شرمناک مہم چلائی جا رہی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک بار پھر دو ٹوک اور سخت الفاظ میں ایک بیان جاری کیا ہے جس میں پہلی بار تحمل اور برداشت آخری سطح پر پہنچ جانے کا تاثر دیا گیا ہے۔ عسکری مزاج شناس شیخ رشید نے جھاڑو پھرنے کا عندیہ دیا ہے۔عسکری ادارے نے اپنے آپ کو نیوٹرل قرار دے دیا ہے اس غیر جانبداری کا بھی مذاق اڑایا جا رہا ہے۔اگر یہ ادارہ ثابت قدمی کے ساتھ اپنے اس موقف پر قائم رہے تو نا اہل سیاست دان اپنی روایتی ذہنیت کے مطابق اس قدر سیاسی گند ڈالیں گے کہ اشرافیہ کی سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ جمہوریت کے چہرے کا نقاب مکمل طور پر اتر جائے گا۔پاکستان کے عوام قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق نئے سماجی معاہدے اور ریاستی نظام پر آمادہ ہو جائیں گے۔اگر پی ڈی ایم کے لیڈروں کو یہ اندازہ ہوتا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان کی مقبولیت کا گراف اس قدر بڑھ جائے گا کہ ان کی اگلے انتخابات میں کامیابی کے امکانات مخدوش ہونے لگیں گے تو وہ کسی صورت عدم اعتماد کا آپشن استعمال نہ کرتے اور اگر کرتے تو عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے کے بعد نئی حکومت بنانے کی بجائے اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کرا دیتے یا مزید ایک سال انتظار کر لیتے تاکہ عمران خان کی کارکردگی پوری طرح عوام میں ظاہر اور باہر ہو جاتی۔پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے لیڈروں کے خلاف عدالتوں میں مقدمات چل رہے تھے جن کے بارے میں عوام کو یقین ہے انہوں نے قومی دولت لوٹی ہے۔انہوں نے وزارتوں کے حلف اٹھا لیے۔ پاکستان کے عوام ہمیشہ امریکا کے خلاف رہے ہیں۔امریکہ کی سفارتکاری چونکہ مہارت کی بجائے طاقت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ عمران خان کی حکومت کے بارے میں امریکہ نے کھلی دھمکی دے کر پاکستان کے عوام کے غصے میں اضافہ کردیا اور عمران خان کو سیاسی شہید بنا دیا۔عمران خان اگر خود مستعفی ہو کر اسمبلی توڑ دیتے تو ان کو پاکستان کے عوام کی ہمدردی اور محبت حاصل نہ ہوتی۔پاکستان کی موجودہ وفاقی حکومت میں وہ جماعتیں شامل ہوچکی ہیں جو ایک دوسرے کی سخت سیاسی دشمن رہی ہیں لہٰذا وہ اتفاق اور اتحاد سے فیصلے کرنے سے قاصر ہیں۔پاکستان کی معاشی صورتحال انتہائی تشویشناک ہوچکی ہے اور معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان تکنیکی اعتبار سے دیوالیہ ہو چکا ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ابھی تک کابینہ تشکیل نہیں دی جا سکی۔ شدید گرمی کے باوجود پاکستان کے عوام بزرگ خواتین نوجوان اور بچے جوق درجوق عمران خان کے جلسوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ان پر جوش اور سر گرم عوامی جلسوں نے نہ صرف پی ڈی ایم کے لیڈروں بلکہ عالمی قوتوں اور ریاستی اداروں کو مضطرب کر رکھا ہے۔ان حالات میں موجودہ وفاقی حکومت کا آئینی مدت پوری کرنے کاامکان معدوم ہو رہا ہے۔ پاکستان کی ریاست کو مکمل بربادی سے بچانے کے لئے فوری انتخابات کا آپشن ہی استعمال کرنا پڑے گا۔ عدم اعتماد کی تحریک نے پاکستان کو واضح طور پر دو گروپوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک گروپ پی ڈی ایم کی جماعتوں پر مشتمل ہے جبکہ دوسری جانب عمران خان تنہا سیاسی جنگ لڑ رہا ہے۔عمران خان نے لانگ مارچ کی کال دے رکھی ہے جس کی وجہ سے حکومت سخت دباؤ میں ہے۔تحریک انصاف کے سینئر لیڈروں کے مطابق عمران خان لانگ مارچ کا آپشن فوری طور پر استعمال نہیں کرے گا اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کے عوام میں مزید ایکسپوز ہونے کا انتظار کرے گا ۔لانگ مارچ سے پہلے دوسرے آپشنز استعمال کیے جائیں گے۔ تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے جس کے تحت قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے کر اسمبلی اور حکومت کو بحال کردیا گیا تھا۔ غیر متوقع طور پر موجودہ سیاسی بحران کی کنجی اب عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسے جس عوامی مقبولیت سے نوازا ہے اس کا اندازہ خود عمران خان کو بھی نہیں تھا۔پی ڈی ایم کے لیڈروں نے اقتدار کے نشے میں ایسی سیاسی چال چلی ہے جو ان کے گلے پڑ گئی ہے اور صیاد خود ہی اپنے دام میں آچکا ہے۔انہوں نے پاکستان میں جو حالات پیدا کر دیئے ہیں ان سے باہر نکلنے کے لئے ان کو کوئی راستہ بھی نظر نہیں آ رہا۔وفاقی حکومت کے لیے لمحہ موجود بڑا بھاری ہو چکا ہے۔جبکہ عمران خان ایک دو ماہ انتظار بھی کر سکتا ہے۔اسے فوری انتخابات کے لیے زیادہ بے چین اور مضطرب نہیں ہونا چاہیے۔ اسے عوام میں جو مقبولیت حاصل ہو چکی ہے اسے اب کوئی نہیں چھین سکتا۔ تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے جب کہ حکومت کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے ہاتھ پاؤں بندھے ہو ئے ہیں۔ حالات کی صدا یہ کہہ رہی ہے کہ اکتوبر نومبر میں انتخابات کروانے پڑیں گے۔پاکستان کے عوام کے لئے نئے انتخابات کے بعد بھی خیر کی کوئی خبر نہیں ہوگی۔ موجودہ پانچ سو سیاسی چہرے اگلے انتخابات میں بھی منتخب ہو کر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوں گے۔ پاکستان کی بدقسمت تاریخ کا فیصلہ یہ ہے کہ جب تک چہرے اور نظام دونوں تبدیل نہ کیے جائیں پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام کسی طور ممکن نہیں ہو سکتا۔پاکستان کے 22 کروڑ عوام کے مفاد کا تقاضا تو یہ ہے کہ دو سال کے لیے غیر جانبدار قومی حکومت تشکیل دی جائے جو انتخابات سے پہلے ضروری اصلاحات کرے تاکہ اس کے بعد جو انتخابات کرائے جائیں ان کے قوم اور ریاست کے لیے مثبت نتائج برآمد ہوں اور ریاست کی سیاست کا قبلہ درست کیا جا سکے۔