دہشت گردی کی نئی لہر پر قابو پانے کی ضرورت
کراچی میں جمعرات کے روز ہونے والے بم دھماکے سے یہ بات ایک بار پھر واضح ہوگئی ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر سر اٹھا رہی ہے۔ تازہ واقعے میں کراچی کے مصروف ترین کاروباری مرکز صدر میں کوسٹ گارڈز کی گاڑی کے نزدیک ہونے والے دیسی ساختہ بم دھماکے کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق اور 13 افراد زخمی ہوگئے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے دھماکے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی اور ایڈیشنل آئی جی سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بھی اس واقعے پر اظہارِ افسوس کیا گیا ہے۔ ایسے ہر واقعے کے بعد وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی طرف سے ایک روایتی سا بیان جاری ہوتا ہے اور رپورٹ طلب کرلی جاتی ہے لیکن اس سے آگے کیا ہوتا ہے یہ کوئی نہیں جانتا البتہ تخریب کاری کے کسی آئندہ واقعے کے بعد ایک نیا بیان اور رپورٹ کا مطالبہ ضرور سامنے آ جاتا ہے۔ اگر دہشت گردی پر محض بیانات اور رپورٹیں طلب کرنے سے قابو پایا جاسکتا تو ہمیں گزشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں کے دوران بھاری جانی اور مالی نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔ دہشت گردی کی نئی لہر پر قابو پانے کے لیے حکومت کو نیشنل ایکشن پلان کا نئے سرے سے جائزہ لینے اور جہاں بھی کوئی کمی دکھائی دے اسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک معاشی طور پر پہلے ہی سخت مشکل حالات سے گزر رہا ہے، ایسے میں دہشت گردی کی نئی لہر ہمارے مسائل میں مزید اضافہ کرسکتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کئی ممالک پاکستان میں امن و استحکام قائم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے اور ان کی طرف سے تخریب کاری کرنے والے عناصر کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ انھیں ہر قسم کی امداد بھی مہیا کی جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اگر اسے دہشت گردی کی اس نئی لہر کے پیچھے کسی بیرونی ہاتھ سے متعلق شواہد ملتے ہیں تو انھیں اقوامِ متحدہ سمیت اہم عالمی اداروں کے سامنے رکھے تاکہ دنیا کو بتایا جاسکے کہ امن و امان کا دشمن کون ہے اور اس کے لیے ٹھوس کارروائی کا مطالبہ بھی کیا جائے۔