ملکی معیشت کی زبوں حالی
مکرمی! نئی حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف سے مذاکرات اور اس کی بیشتر شرائط تسلیم کیے جانے کے باوجود سر دست پٹرولیم نرخ نہ بڑھانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ گزشتہ 9 ماہ جولائی سے مارچ کے دوران ملکی امپورٹس 49 فیصد اضافے کے ساتھ بڑھ کر 58.7 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ جبکہ ملکی ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ زرمبادلہ کے ذخائر صرف 2 مہینے کے لئے کافی ہیں۔ پاکستان سری لنکا جیسی صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے۔ نئی حکومت آنے کے بعد ڈالر182 سے بڑھ کر 192 روپے تک پہنچ گیا ہے اورمزید بلندیوں کی طرف محو ِ پرواز ہے۔ شہباز شریف چین سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے اپنے دیرینہ تعلقات استعمال کرکے ملک میں سرمایہ کاری اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کریں گے۔ آٹو سیکٹر نے رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں گاڑیوں کی فروخت میں 53.8 فیصد ٹرکوں کی فروخت میں 66.4 فیصد جیپ پک اپ کی فروخت میں 45.8 فیصد اور ٹریکٹر کی فروخت میں 12.1 فیصد اضافے کے ساتھ ایک مضبوط کارکردگی ظاہرکی ہے۔کاروں کی کل فروخت بڑھ کر ایک لاکھ 72 ہزار 612 یونٹس ہوگئی ہے۔ گاڑیوں کی تعداد بڑھنے سے لامحالہ ٹریفک بڑھے گی اور فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہوگا تیل کی درآمد زیادہ کرنا پڑے گی۔ قرضے لینے کی وجہ پچھلے قرضوں کی سودسمیت واپسی ہے۔ ملک کا کل سرکاری قرضہ 42 ہزار ارب روپے ہے عمران خان نے چار سال قبل قرضوں کا حجم 28 ہزار ارب روپے بتایا تھا۔ قرضے امریکہ اور جاپان پر بھی ہیں۔ ہمارا ٹیکسوں کا ناقص نظام درآمدات و برآمدات میں عدم توازن‘ تیل‘ گیس کی تلاش میں سنجیدہ کوششوں کا فقدان سرفہرست ہیں۔ قرضوں کا حجم جی ڈی پی کا 55 فیصد بنتا ہے۔ حکومت کو اپنے غیرترقیاتی اخراجات کوکم‘ برآمدات میں اضافہ درآمدات میں کمی اور قومی آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے چاہئیں۔ اس وقت ڈیزل کی شدید قلت کے باعث بہت سے پیداواری مسائل پیدا ہو گئے ہیں جن کا ملکی معیشت پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے ۔ وزیر اعظم نے ا س صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے ڈیزل کی مارکیٹ میںفی الفور فراہمی کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔دیکھیں ان ہدایات پر کب عمل درآمد ہوتا ہے۔ ) خالد محمود ، لاہور)