جمعرات ‘ 20 ؍ رمضان المبارک 1441 ھ‘ 14؍مئی 2020ء
شہباز شریف نے برطانوی اخبار پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر دیا
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ بالآخر میاں جی نے مقدمہ دائر کر ہی دیا۔ ورنہ حکومتی ارکان تو شور مچا مچا کر تھک گئے تھے کہ میاں جی کیس کیوں نہیں کر رہے اخبار پر۔ ویسے ہمارے ہاں تو ایسے کیس عام طور پر بے فائدہ ہی ثابت ہوئے ہیں۔ مگر یورپ کی بات کچھ اور ہے بقول شاعر…؎
میخانہ یورپ کے انداز نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیںشراب آخر
وہاں ایسے کیسوں کا نتیجہ آنے پر متاثرہ فریق مالا مال ہو سکتا ہے اور اخبار کو غلط خبر پر معذرت چھاپنا ہوتی ہے۔ میاں صاحب نے ’’ڈیلی میل‘‘ کو عدالت مں گھسیٹا ہے اس بات پر کہ اس کی متنازعہ رپورٹ کی وجہ سے ان کی پیشہ وارانہ ساکھ اور ذات کو نقصان پہنچا ہے۔ اسے آئندہ ایسی خبروں سے روکا جائے۔ مزہ تب آتا جب وہ اخبار پر کروڑوں پائونڈکے ہرجانے کا دعویٰ کرتے ورنہ صرف معذرت چھاپنے سے کیا ہو گا۔ لوگوں کو سیدھی سادی معذرت کا مزہ نہیں آتا۔ کروڑوں پائونڈکے ہرجانے والی خبر پر ضرور چونک اٹھتے ہیں اور پھر چٹ پٹے مزیدار تبصرے کر کے موضوع اور زیادہ پُرلطف بنا دیتے ہیں۔ کیس مزیدار وہی ہوتا ہے جو چٹخارے دار ہو۔ اب جس خبر نے میاں جی کی سیاست اور ذات دائو پر لگا دی تھی۔ کیس بھی اتنا ہی مضبوط اور سخت ہونا چاہئے۔
٭٭٭٭٭
ٹرمپ صحافیوں کے سوالات پر بھڑک اٹھے
یہ ساری اداکاری ہے امریکی صدر کی۔ ان کا امیج بن چکا ہے کہ غصہ ہر وقت ان کی ناک پر دھرا رہتا ہے۔ ذرا ذراسی بات پر سیخ پا ہونا۔ مخاطب کو جھاڑ پلانا ان کی عادت ہے۔ صحافیوں کے ساتھ ان کی ان بن بڑی پرانی ہے۔ ان کی ذات ان کی حکومتی کارکردگی پر صحافیوں کی ناقدانہ رائے سب کے سامنے ہے۔ ان پر تنقید ہوتی رہتی ہے۔ مگر کیا مجال ہے جو ٹرمپ صاحب اپنی اصلاح کریں اپنی کارکردگی میں بہتری لائیں۔ صحافیوں کو چھوڑیں، حزب مخالف کے سیاستدانوں کو دیکھ لیں اس سے بھی ذرا آگے دو قدم بڑھائیں حکومتی وزرا اور ارکان کی رائے بھی دیکھ لیں۔ وہ بھی صدر ٹرمپ پر گولہ باری کرتے نظر آتے ہیں۔ ان سب باتوں کے جواب میں ٹرمپ جی …؎
کتنے شریں ہیںتیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھاکے بے مزہ نہ ہوا
کہتے ہوئے کبھی منہ بنا کر کبھی مسکرا کر کبھی روٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ اب گزشتہ روز بھی یہی کچھ ہوا۔ صحافیوں کے سوالات پر امریکی صدر کا جی متلانے لگا اور وہ صحافیوں پر برس پڑے۔ پھر بھی جی نہ بھرا تو پہلے موضوع بدلنے کی کوشش کی جب کام نہ بنا تو غصے میںآ کر پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ کر چلے گئے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ وہ پہلے بھی کئی بار ایسا کر چکے ہیں۔ اس لئے ان کے اس طرز عمل سے کسی کو حیرانی نہیں ہوئی۔
٭٭٭٭٭
لاک ڈائون کی وجہ سے عوام کے کھانے پینے کے اخراجات میں 25 فیصدکمی ہوئی۔ گیلپ سروے
یہ رپورٹ اپریل 2020ء کی ہے۔ جس کے مطابق لاک ڈائون نے پاکستانی عوام کی قوت خرید کو متاثر کیا ہے۔ اور ان کے خوراک کے اخراجات کم ہوئے ہیں۔ یہ کمی بھی معمولی نہیں۔ 25 فیصدہے۔ ظاہری بات ہے جب دکانیںبندہوںگی۔ کاروبار حیات جامدہو گا۔ لوگ گھروں میںنظر بندی کی زندی بسر کر رہے ہوں گے تو ایسی صورتحال میں لوگ اوٹ پٹانگ من پسند چیزیں کھانے کہاں جائیں گے۔ کہاں سے یہ لوازمات منگوائیںگے۔ پھر دیہاڑی دار لوگ ہی نہیں عام متوسط طبقہ بھی آمدن میں کمی دیکھ کر اسی کے حساب سے پیسہ خرچ کرتا ہے۔ غریب کی سب سے بڑی کٹوتی خوراک پر ہی ہوتی ہے کیوں کہ اس کے علاوہ اس کا بڑا خرچہ کوئی اور نہیں ہوتا۔ اب یہ نزلہ بھی برعضو ضعیف کے مصداق خوراک پر ہی گرتا ہے۔ ملک میںسب سے زیادہ تعداد غریبوں کی ہے جب وہ خوراک میں کمی لائیںگے اور سفیدپوش طبقہ ہاتھ کھینچ کررکھے گا تو ایسا ہی نتیجہ سامنے آئے گا جو گیلپ سروے کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے
بھوک تماشہ لگائے رکھتی ہے
زندگی تالیاںبجاتی ہے
یہ آج ہم ہوتا دیکھ رہے ہیں، اشرافیہ کے وہی طور طریقے جاری ہیں وہی لچھن ہیں۔ پیٹ پر پتھر باندھنے کی سنت صرف غریب اداکر رہے ہیں۔