منگل ‘ 8 ؍ رمضان المبارک ‘ 1440ھ‘ 14؍مئی 2019ء
بالا کوٹ پر حملے کے وقت بادلوں کی وجہ سے ہمارے طیارے راڈار پر نہیں آئے: مودی
کبھی تو جی چاہتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کی جان چھوڑ دیں۔ وہ آج کل ویسے بھی الیکشن کی وجہ سے بہت دبائو میں ہیں۔ مگر کیا کریں ان کی درفنطنیاں سن کر قلم بے قابو ہو جاتا ہے۔ خودبخود ان کی ذہنی اور ابلاغی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے کو جی جاتا ہے۔ سیاستدان تو تھے ہی وہ۔ اب خیر سے فوجی امور کے بھی تجزیہ کار بن گئے ہیں۔ بھارت کے میڈیا گروپ انہیں انتخابات میں ناکامی کی صورت میں بطور فوجی تجزیہ کار اپنے پروگراموں میں دھڑا دھڑ بلا سکتے ہیں۔ اس طرح چائے بنانے کے ساتھ وہ دانشوری بگھار کر بھی معقول پیسے کمانے لگیں گے۔ ابھی تک مودی جی کے کاسہ سر سے بالا کوٹ سٹرائیک کا بھوت نہیں اُترا۔ وہ ابھی تک اپنے ناکام ترین مشن کو بھارت کا سب سے کامیاب کارنامہ ثابت کرنے پر تلے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ایک بار پھر اس موضوع پر منہ کھولا حالانکہ اس پر انہیں منہ بند رکھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ کہتے ہیں خراب موسم تھا فضائیہ والوں نے تاریخ بڑھانے کی بات کی مگر میں نے سوچا بادلوں کی وجہ سے ہمارے طیارے پاکستانی ریڈار پر نظر نہیں آئیں گے۔ اس لیے حملے کا حکم دیا۔ ایسی بے تکی منطق پر بھارتی ائیر فورس کے افسران کی بے بسی دیکھنے کے لائق ہو گی۔ ان کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ مودی کو بھی اٹھا کر ابھی نندن کی طرح پاکستان میں گرا دیتے۔ دفاعی امور سے ان کی یہ واقفیت دیکھ کر اب بھارت کے دانشور اور سیاسی رہنما ایک بار پھر مودی کی ذہنی بلوغت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کی بے تکی باتوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس طرح انہوں نے گہرے بادلوں کا ذکر کر کے اپنی عقل پر پڑے گہرے پردے کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔ دنیا بھر میں لوگ ان باتوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
پاکستان کیخلاف دوسرے ون ڈے میں انگلش بائولر کی بال ٹمپرنگ کی ویڈیو وائرل
کسی بھی چیز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ویسے ہی غلط بات ہے۔ کرکٹ والے تو بال کے ساتھ چھیڑ چھاڑ قطعی برداشت نہیں کرتے۔ اگر یہی حرکت کسی پاکستانی بائولر نے کی ہوتی تو اس وقت پورے یورپ کے کھیلوں کے چینلز پر وہ طوفان بدتمیزی برپا ہوتا کہ ہماری ٹیم کے کھلاڑیوں اور آفیشلز کیلئے چھڑانا مشکل ہو جاتا۔ مگر الزام جب اپنے تک پہنچتا ہے تو سچ بھی جھوٹ لگتا ہے۔ سو یہی سب کچھ انگلینڈ کے دورے میں بھی ہو رہا ہے۔ انگلینڈ کا بائولر ویڈیو میں واضح طور پر بال کے ساتھ غلط قسم کی حرکات میں مشغول نظر آ رہا ہے۔ ایسی حرکات پر ہمارے ہاں پولیس میں جو رپورٹ درج ہوتی ہے وہ کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ …جوڑا سرعام فحش حرکات کرتا یا بوس و کنار کرتا پکڑا گیا۔اب پاکستانی آفیشل نجانے کس انتظار میں ہیں۔ بقول شاعر…؎
ایک پتھر جو دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے
ہماری ٹیم مینجمنٹ کب عالمی کرکٹ کونسل میں اس محبت بھری چھیڑ چھاڑ کی دہائی دے گی۔ اگر کوئی اس خوش فہمی میں ہے کہ وہ خود کوئی نوٹس لیں گے تو یہ محض خوش فہمی ہے۔ ایسا کرنا ہوتا تو کب کا ہو چکا ہوتا۔ الٹا انہیں تو ایسی کوئی چھیڑ چھاڑ نظر نہیں آئی جو قابل گرفت ہو۔ پاکستانی ٹیم مینجمنٹ کو ہی شور مچانا ہو گا ورنہ کچھ نہیں ہونے کا…یورپ والے اپنی غلطیوں پر خامیوں پر پردہ ڈالنا بخوبی جانتے ہیں۔ مگر یاد رہے چپ رہنے سے بولنا بہت بہتر ہے۔
٭٭٭٭٭
جناح ایکسپریس کوایک ماہ میں 14 کروڑ کا خسارہ
یہ جدید سہولتوں سے آراستہ شیخ رشید کے ہونہار کمائو پوت کی ایک ماہ کی کارکردگی ہے جو وزیر ریلوے کے نمائشی اقدامات کامنہ چڑا رہی ہے۔آئے روز نت نئی ٹرینوں کے افتتاح کے شوق میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ پاکستان ریلوے کے پاس نہ تو مطلوبہ تعداد میں ڈبے (بوگیاں) ہیں نہ انجن۔ تو پھر یہ؟…؎
ٹرینیں چلانے والے کیا تیرے من میں سمائی
تو نے کاہے کو بھان متی ٹرین چلائی
یہ اِدھر اُدھر سے اچھی ٹرینوں سے ڈبے اتار کر ریزرو انجنوں کے ساتھ لگا کر اس کو نیا نام دے کر ٹرین چلانے کے ڈرامے سے اب سب واقف ہو چکے ہیں۔ ان نئی ٹرینوں کی وجہ سے اچھی خاصی منافع پر چلنے والی ٹرینوں کی بوگیوں کی تعداد کم کر دی گئی ہے۔ اندرون ملک بڑے چھوٹے شہروں کی ٹرینوں سے اچھی بوگیاں اتار کر انہیں کھٹارا بوگیاں اور انجن لگا کر چلایا جا رہا ہے جس سے ان علاقوں کے مسافر پریشان ہیں۔ ٹوٹی کھڑکیاں دروازے پائیدان سیٹیں دیکھ کر کون خوش ہو سکتا ہے۔ سب کو چھوڑیں کبھی وزیر ریلوے کراچی یا راولپنڈی تا کوئٹہ اکبر اور جعفر ایکسپریس کی حالت دیکھ لیں تو ان کو پتہ چلے کہ یورپی ممالک میں کسی شکایت پر وزیر استعفیٰ کیوں دیتے ہیں اس لیے اب یہ نت نئے تجربے کرنے کی بجائے پہلے سے چلنے والی ٹرینوں کی حالت بحال کریں۔ سیاست میں اِدھر اُدھر کے مشورے دینے کی بجائے اپنے محکمہ پر توجہ دیں اور دوسرے وزرا کی نہیں‘ اپنی فکر کریں۔
٭٭٭٭٭
اسلام آباد ائیر پورٹ پر قیمتی ٹیرنٹولا مکڑیاں سمگل کرنے کی کوشش ناکام
اب تک یہی دیکھا اور سنا تھا کہ فلاں ائیر پورٹ پر ہیروین ، قیمتی پرندے، کرنسی ، چرس، سونا چاندی، نودرات ہیرے موتی اور بچے سمگل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ اس کام میں ملوث سمگلر جو اِدھر کا مال اُدھر اور اُدھر کا اِدھر کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ ان کی بھی گرفتاری کی پوری رام کہانی درج ہوتی ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ کاروبار ماٹھا نہیں پڑتا کیونکہ ہم سمگلر کو ہی پکڑتے ہیں مگر جو مافیا یہ کام کرا رہا ہوتا ہے ان لوگوں پہ ہاتھ نہیں ڈالتے۔ اس طرح ان کا اور ہمارے گلشن کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ مگر اب یہ جو کچھ سمگل ہو رہا ہے وہ خاصہ حیرت ناک ہے۔ اسلام آباد ائیر پورٹ پر ایک شخص کو نایاب قسم کی مکڑیاں سمگل کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔ ہو سکتا ہے یہ بے چارہ یورپ میں مقیم اپنی بیوی اور بچوں کو ڈرانے کے لیے یہ مکڑیاں چھپا کر لے جا رہا ہو یا کسی تحقیقاتی ادارے کو مہنگے داموں فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہو۔ اگر یہ زہریلی مکڑیاں ہیں تو کہہ سکتے ہیں اپنے دشمنوں کو ان سے مروانے کا پلان بنایا ہو۔ وجہ اب تحقیقاتی ادارے خود معلوم کر لیں گے مگر شاباش ہے ان چیکنگ والوں پر یا چیکنگ والی مشینوں پر جنہوں نے مکڑی جیسی چیز بھی تلاش کر لی۔ ورنہ انہی جہازوں میں کیا کچھ سمگل نہیں ہوتا۔ اِدھر اُدھر کے منافع بخش کاروبار میں یہ غیر ملکی فلائٹس بہت کارآمد ثابت ہوتی ہیں اور یہ سارا کام سکیورٹی اور چیکنگ والوں کے زیر سایہ ہی ہوتا ہے۔ افسوس ہے یہاں ہاتھی تو نکل جاتاہے مگر دم پکڑی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭