صدرِ مملکت عارف علوی نے یہ کہہ کر حیران کردیا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے معیشت کو مضبوط بنانا ہو گا۔ پاکستان میں لوگ بھوک، ناانصافی، بیروزگاری اور ظلم و جبر سے مر رہے ہیں۔ آٹھ ماہ میں مہنگائی کا طوفان برپا ہوا ہے۔ لوگ اُس سے خودکشیاں کر رہے ہیں۔ ان آٹھ دس ماہ میں عوام کے اندر خوف ، اضطراب، ہیجان اور اشتعال 70 گنا زیادہ بڑھ گیا ہے۔ صدر عارف علوی سے پہلے جو صدر تھے۔ وہ بیچارے خاموش اور ایوان صدر میں محصور رہتے تھے کیونکہ اُن میں قائدانہ صلاحیت نہیں تھی۔ صدر ممنون تو اسی بات پر نہال اور ممنون تھے کہ اُن پر صدر کا ٹھپہ لگا ہوا ہے لیکن عارف علوی کا تعلق ایک بارشعور خاندان سے ہے اور وہ خاصے سمجھدار، ذہین، فعال اور متحرک بھی ہیں۔ اس ملک کے کروڑوں لوگ اس درد سے آگہی نہیں رکھتے کہ پاکستان کو بنانے میں یہاں کچھ لوگوں نے کس طرح قربانیاں دی تھیں۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنوں کا لہو بہتے دیکھا تھا۔ اپنے پیاروں کو موت کے گھاٹ اُترتے اور گھائو کھاتے دیکھا تھا۔ عصمتوں کی دھجیاں ہوتے دیکھا تھا۔ اپنی جائیدادوں کی قربانیاں دی تھیں۔ اپنے گھر بار، کاروبار، محلے ، بازار، عزیز رشتے دار، دوست احباب اور وہ مٹی چھوڑی تھی جہاں پیدا ہوئے تھے اور جس مٹی سے اُنکا خمیر اُٹھا تھا۔ ان لوگوں نے انگریزوں، ہندوئوں، سکھوں سے ٹکر لی۔ اُن سے مقابلہ کیا اور دن رات جدوجہد قربانیوں کے بعد یہ ملک بنایا۔ لہو میں ڈوبی ہوئی یہ داستان ہے۔ جب یہ لوگ پاکستان آئے تو جنہوں نے یہ ملک بنایا تھا۔ اُن پر ’’مہاجرین‘‘ کا ٹھپہ لگا دیا گیا۔ انہیں کیمپوں میں لا کر بٹھا دیا گیا۔ ان مہاجرین کو پسماندہ علاقوں میں بھیج دیا گیا۔ جنہوں نے اس ملک کے لیے ہِل کر ایک پتّا نہیں توڑا تھا۔ انہوں نے کلیم کرا کے گھر کوٹھیاں پلاٹ، زرعی اراضی، عہدے مراعات اصل کر لیے۔ وہ لوگ جو آزادی کی خاطر کئی سالوں سے جدوجہد کر رہے تے۔ اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ قربانیاں دیکر انہوں نے پاکستان بنایا تھا۔ سب سے پہلے پاکستان میں اُنہی کی آزادیاں سلب کی گئیں۔ ہر وہ شخص جس کو قائد اعظم، پاکستان اور آزادی سے عشق تھا۔ اُس میں غیرت حمیت، خودداری، انا اور وضع داری تھی۔ پاکستان بننے کے بعد ان غیور لوگوں نے کبھی قربانیوں کا صِلہ نہیں مانگا۔ کبھی حکومت سے نہیں کہا کہ انہوں نے خون کے دریا عبور کیے تھے۔ اپنی جائیدادیں گھر بار چھوڑے تھے تو انہیں اسکے بدلے کچھ دیا جائے۔ اکثر لوگ بیروزگار ہو گئے تھے۔ یہ لوگ منتظر تھے کہ حکومت کوئی قدم اٹھائے۔ یہ لوگ انتہائی مخدوش حالت میں تھے۔ نوکریاں، کاروبار، مال و دولت، تعلقات سب کچھ تو بھارت چھوڑ آئے تھے اور بہت کچھ راہ میں لُٹا آئے تھے۔ پاکستان کے ان غیور معماروں نے منہ سے حرفِ شکایت تک نہ نکالا۔ کسی نے یہ تک نہ کہا کہ یہ ملک ہم نے بنایا ہے۔ یہ آزادی ہمارے خون پسینے سے حاصل کی گئی ہے۔ حکومت اس کے بدلے ہمیں پیسہ دیدے یا روزگار دیدے یا ہمیں رہائش دیدے یا ہمارے وظیفے مقرر کر دے یا ہمارے گھروں میں راشن ڈال دے۔ صدرِ محترم!! ذرا آزادی کے بعد کا ادب اٹھا کر پڑھئے۔ میڈیا کی نمناک درد میں ڈوبی المناک سرخیاں تو پڑھئے کہ مہاجروں کے ایک بہت بڑے طبقے کے ساتھ کیا ہوا۔ اس ملک کو بنانے والوں سے کتنی بے رحمی، سفاکی، خودغرضی برتی گئی ۔ مفاد پرست ٹولے نے گھر زمینیں نوکریاں سب حاصل کر لیں لیکن یہ غیور سچے کھرے لوگ انصاف کے منتظر رہے۔ صرف وہ لوگ ثمرات حاصل کر سکے جن میں حمیت کی کمی تھی یا جنہوں نے اپنی قیمت لگا لی لی لیکن پاکستان بنانے والے اصل معمار پاکستان آ کر زندہ درگور ہو گئے۔ بہت کم لوگوں کو صِلہ ملا۔ یہاں وہ لوگ مسلم لیگیں بنا کر کیش کرتے رہے جنہوں نے پاکستان کے لیے ٹکے کا کچھ نہیںکیا تھا۔ وہ لوگ اثاثوں، عہدوں ، مراعاتوں اور اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہو گئے جن کااس ملک کی آزادی سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ نواب افتخار مددوٹ ، غلام حیدر وائیں ، مجید نظامی، جاوید اقبال جیسے محب وطن ، حساس، باشعور اور غیور پاکستانیوں نے اس دردکا ادراک کیا۔انہوں نے تحریک کارکنان پاکستان کا ادارہ بنایا اور پھر پاکستان بنانے والوں کی خدمات اور قربانیوں کے لیے گولڈ میڈل کا سلسلہ شروع کیا۔ ڈاکٹر مجید نظامی اور ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس دردناک حقیقت کو جانا کہ غیرت مند تحریک کارکنان پاکستان کرب اور اذیت کی زندگی کاٹ رہے ہیں۔چنانچہ دونوں اکابرین نے حکومتِ پنجاب سے کارکنانِ پاکستان کے لیے تین مرلہ پلاٹ الاٹ کرائے۔ سات سال گزر گئے مگر ان مستحق افراد کو وہ پلاٹ نہیں دئیے جا رہے۔ یہ آج تک سمجھ نہیں آئی۔ ان سات سالوں میں بے شمار کارکنان تحریک پاکستان مر گئے۔یہ حسرت لیے ہوئے کہ اُنکے سر پر ان کی اپنی چھت ہوتی۔ کئی لڑکیوں کی بغیر جہیز یا واجبی جہیز کے ساتھ شادیاں ہو گئیں اور وہ تکلیف دہ زندگی گزار رہی ہیں۔ کئی بچے اچھی تعلیم سے محروم رہ گئے اور افسر بننے کے بجائے کلرک بن گئے یا ابھی تک بیروزگار مارے مارے پھر رہے ہیں۔ صدر مملکت! غور فرمائیے کہ جو گولڈ میڈل بھی انہیں بُھولے بھٹکے سے دیا جاتا ہے وہ بھی سونے کا نہیں ہوتا۔ کیا ان محسنوں اور قربانیاں دینے والوں کا اس مُلک پر کوئی حق نہیں؟ اس ملک کے اصل کرتا دھرتا اور حاکم تو یہی لوگ ہیں۔ عارف علوی صاحب!میں آپ سے اور عمران خان سے کہوں گی کہ اگر آپ نے انہیں یہ حق، عزت اور مقام نہ دیا تو یاد رکھیں کہ تاریخ آپ کو معاف نہیں کریگی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024