افغانستان میں وا خان کی ایک چھوٹی سے پٹی سے گزر کرجنوبی ایشیا سے صرف آدھے گھنٹے کی مسافت پر اُس تاجکستان کی فضاؤں کو چھوا جاسکتا ہے، جسے وسطی ایشیا کا بیس کیمپ سمجھا جاتا ہے۔ اِسی وسطی ایشیا کو جنوبی بعیدایشیا سے ملانے والی عظیم گزرگاہ پر مملکت خداداد پاکستان واقع ہے۔ ہندوستان پر کم و بیش نو سوسال حکمرانی کرنے والے جنگجو مغل، ترک اور افغان اِسی راستے سے گزر کر دہلی کے پایہ تخت پر اپنا جھنڈا گاڑتے رہے۔بالخصوص پاکستان جس جگہ موجود ہے، یہ اپنی ہئیت کے اعتبار سے ایک قدرتی گزرگاہ تو رہی ہے، لیکن یہ علاقہ کبھی بھی میدان حرب نہیں بن سکا۔جہلم میں مقدونیہ کے اسکندر کے خلاف لڑی جانے والی ایک چھوٹی سی لڑائی کے برعکس بعد میں آنے والے حملہ آوروں کے گھوڑوں کے سم جرنیلی سڑک پر گرد اُڑاتے گزر جاتے تھے لیکن کسی کو راستے میں اکڑفوں دکھانے کا خیال تک نہ آتا۔ اگر بہت ہوتا تو مقامی لڑاکے مال غنیمت میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کیلئے حملہ آوروں کے ساتھ ہولیتے لیکن دلی کی اینٹ سے اینٹ بجاکر بھی یہ لڑاکے وہاں زیادہ دیر ٹکنے کی کوشش نہ کرتے، بلکہ پنجابی اور پشتون علاقوں کے اُنہی ٹیلوں، بیلوں، جنگلوں، صحراؤں، پہاڑوں اور ویرانوں میں واپس آکر پہلے سی زندگی گزارنے لگتے کہ کوئی اگلا حملہ آور آئے تو اس کا ہمسفر بن کرپہلے سا منظر دہرایا جاسکے۔ اِس انتظار میں بعض اوقات تو کئی نسلیں جوان ہوکر بوڑھی بھی ہوجاتیں۔ اس انتظار کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ پشتون علاقے کے سنگلاخ پہاڑوں سے لے کر پنجاب کے لہلہاتے سرسبز کھلیانوں تک اس علاقے میں کبھی کشت و خون نہ دیکھا گیا! قدرتی گزرگاہ ہونے کی اِسی خوبی کی وجہ سے گزشتہ ڈھائی ہزار سال سے اِس خطے کی اہمیت مسلمہ سمجھی جاتی رہی ہے، جہاں آج پاکستان کی میخیں انتہائی مضبوطی سے گڑی ہیں۔ اِن ڈھائی ہزار برسوں میں اس گزرگاہ کا فرش اور اس فرش پر سرپٹ دوڑنے والے قافلوں کا رُخ ہمیشہ شمال سے جنوب کی جانب رہا، لیکن اِس خطے کی پچیس دہائیوں کی معلوم تاریخ میں اِس گزرگاہ کا رُخ پہلی مرتبہ شمال سے جنوب کی بجائے اب شمال مشرق سے مغرب کی جانب ہونے جارہا ہے اور اِس گزرگاہ کو اب چین پاک اقتصادی راہدری کے نام سے جانا جارہا ہے۔اِس خطے میں رخ کی تبدیلی کوئی معمولی تبدیلی نہیں ہے، بلکہ دیکھنے میں یہ معمولی سی تبدیلی پوری دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دینے کے پوٹینشل کی حامل تبدیلی ہے، یہی وجہ ہے کہ پہلے دن سے ہی سی پیک کے اِس منصوبے پر دشمن نے بری نظریں گاڑ رکھی ہیں۔دو برس پہلے چینی صدر کے دورہ پاکستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری پر ابتدائی سرمایہ کاری کا تخمینہ 46 ارب ڈالر بتایا گیا تھااور اِس ’’معمولی‘‘ سرمایہ کاری پر ہی دنیا کے کان کھڑے ہوگئے اور سی پیک کو ایک طرح سے ’’پنکچر‘‘ کرنے کیلئے سازشوں کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا۔ کچھ دشمن اور بعض بظاہر دوست نما دشمن ممالک اس منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے پوری قوت سے بروے کار آئے اور سی پیک کو نشانے پر رکھ لیا گیا۔ اس مقصد کیلئے سات ممالک کی خفیہ ایجنسیاں پوری طرح اشتراک کار میں شامل تھیں اور اب بھی ہیں۔ سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے ’’تین میم‘‘ کی حکمت عملی پر عمل کیاگیا، جس کے تحت پہلا ہدف یہ تھا کہ ملک میں انتشار، عدم استحکام اور بدامنی کی صورتحال پیدا کرکے سی پیک کو ’’ممنوعہ‘‘ یعنی ناممکن بنادیا جائے۔ بالفرض اگر ایسا نہ ہوسکے تو مغربی روٹ جیسے نان ایشوکو اچھال کر سی پیک کو کالا باغ ڈیم کی طرح ’’متنازع‘‘ بنادیا جائے اور اگر کسی طرح سی پیک کا منصوبہ اِس حملے سے بھی بچ کر نکل جائے تو اس منصوبے کو کم از کم دس سال تک کے لیے ’’موخر‘‘ ضرور کرادیا جائے۔ 2014ء کے ’’تاریخی اور یادگار‘‘ دھرنے یوں تو بظاہر انتخابی دھاندلی کے بہانے کی آڑ میں دیے گئے لیکن اِس کے پس پردہ محرکات اور عوامل میں اصل ہدف چین پاک اقتصادی راہداری منصوبہ ہی تھا۔ اس دھرنے کی کڑیاں ملائیں تو ہر چیز صاف دکھائی دینے لگتی ہے کہ دشمن کا گیم پلان کیا تھا؟دھرنوں کے بھیس میں سی پیک کو ’’ممنوعہ‘‘ یعنی ناممکن بنانے کے اِس خوفناک ترین حملے سے بچ نکلنے کے بعد گیم چینجر منصوبے کو متنازع بنانے کیلئے سی پیک کے خودساختہ ’’ماہرین‘‘ نے جو اپنے قلم کی ’’ناان صافی‘‘ دکھائی،وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، لیکن اس مرحلے سے بھی با آسانی نکل آنے کے بعد اِس منصوبے کو موخر کرنے کیلئے کبھی پانامہ لیکس اور کبھی ڈان لیکس جیسے نان ایشوز کا سہارہ لیا جانے لگا۔سی پیک کا منصوبہ صرف چھیالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ ہی نہیں ہے، بلکہ اِس منصوبے سے ممکنہ طور پر حاصل ہونے والے فائدے اور اس منصوبے کے پھلنے پھولنے کی اصل گنجائش اور صلاحیت کے سامنے 46 ارب ڈالر کی ہمالیہ جیسی یہ بڑی رقم رائی جتنی بھی نہیں۔یہ گزر گاہ مکمل طور پر فعال ہونے کے بعد اربوں نہیں بلکہ کھربوں ڈالر ’’پیدا‘‘ کرنے اور کماکر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اکیس ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی جی ڈی پی رکھنے والے چین کی معیشت کے مستقبل کا دارومدار بھی اب اِسی سی پیک منصوبے پر ہوگا، جس سے سی پیک کے اصل پوٹینشل اور اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا۔ سی پیک کو ممنوعہ یا متنازع بنائے جانے میں ناکامی کے بعد اِس منصوبے کو موخر کرنے کیلئے دشمن نے جب تیزی سے پیشرفت کی تو نان ایشوز میں اُلجھے سیاستدانوں اور اداروں کو دنیا کے سب سے بڑے سرمایہ کار نے بالآخر کہہ ہی دیا کہ ’’اینف از اینف‘‘۔’’ بہت ہوگئی‘‘ کا جملہ زبان پر لانے کیلئے چین کے پاس ایک دو نہیںبلکہ کئی ایک جواز موجود ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ دشمن اِس خطے میں سی پیک کو ناکام بنانے کیلئے پوری قوت سے سامنے آچکا ہے۔ کلانچیں بھرتے سی پیک کومشرق میں بھارت اور شمال مغرب میں افغانستان اور ایران تمام تر تہذیب اور سفارتی آداب بھول کر وحشی بھیڑیوں کی طرح بھنبھوڑدینا چاہتے ہیں۔ اطراف سے سرحدی محاذ گرم ہونے پر سی پیک کے ’’انویسٹر‘‘ چین کیلئے پاکستان کے اندر سیاسی انتشار اور عدم استحکام سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ چین سی پیک کیلئے پاکستان کو سیاسی اور عسکری لحاظ سے ایک مستحکم ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کچھ ہفتوں سے ملک میں سیاسی صورتحال ڈرامائی طور پر بہتری کی جانب گامزن ہوئی ہے۔ ڈان لیکس سے لے کر پانامہ لیکس تک قانونی طور پر سلجھتے معاملات کو پسِ پردہ متحرک چینی ’’خواہش‘‘ کے تناظر میں دیکھا جائے تو تمام گتھیاں سلجھنے لگتی ہیں۔عالمی سفارتکاری میں جوتا اُٹھاکر کسی کے منہ پر نہیں دے مارا جاتا! بلکہ سفارتکاری تو فن ہی ایسا ہے کہ آپ کسی کو ایٹم بم بھی ماریں تو وہ پھول معلوم ہو، لیکن اُس پھول کی تاثیر جوہری دھماکے سے کچھ کم بھی نہ ہو۔ جس جیو پولیٹیکل اور جیو اسٹریٹیجک صورتحال سے پاکستان اِس وقت گزر رہا ہے، وہ بھی اسی طرح کی سفارتکاری کا تقاضہ کرتی ہے۔ عالمی سفارتکاری میں خاموشی کے اِسی ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے چین نے پاکستان میں کچھ باتیں بڑے پیار سے سمجھادی ہیں اور ’’چند ایک‘‘ کے سوا باقی اسٹیک ہولڈرز نے وہ باتیں پلے بھی باندھ لی ہیں اور جنہوں نے اِس شٹ اپ کال پر بھی اپنے کان بند کیے ہوئے ہیں، اُن کی آنکھیں بھی جلد کھل جائیں گی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024