فوج اور سول تعلقات
ترقی پذیر ممالک کا ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ اِقتدار کی کھینچا تانی میں فو ج اور سول حکومت باہم بر سرِپیکا ر رہے ہیں با لخصوص پاکستان کی تاریخ اس معا ملے میں خاصی تلخ ہے۔یہاں پر کوئی آدمی اداروں کو مضبوط کرنے کی بات نہیں کرتابلکہ کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنے اِقتدار کو دوام بخشنے کے لئے اپنے بندوں کو ہر اہم ادارے کا سر برا ہ بنا دیا جائے میرٹ بڑے عرصے سے ختم ہو چکا میرٹ اب صرف غریب کے بچے کو اطمنان دینے کے لیے ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکے تمام کام میرٹ پر ہو رہا ہے وزراء دھڑا دھڑ بھر تیاں کر رہے ہیں اب تو بنک اور پرائیویٹ کمپنیوں میں بھی بغیرسفارش کے نوکری تلاش کرنا نا ممکن ہو گیا ہے ۔تمام نوکریاں بیٹوں ،بھتیجوں ، بھانجوں اور دمادوں کے لئے رہ گئی ہیں ۔جس سے لگتا ہے کہ معاشرہ اپنے انجا م کو پہنچ رہا ہے ۔عام آدمی کے لیے قانون ہی قانون اقتدار کے لیے کوئی قانون نہیں ۔اس روش نے ہمارے معاشرے کو ایسی دوڑ میں لگا دیا ہے ۔جو نہ ختم ہونے والی ہے ہر آدمی کوئی نہ کوئی جُگاڑ لگا کر اقتدار کے قریب پہنچنے کی فکر میں ہے فوج نے جب بھی اقتدار سنبھا لا تو یہ ہی کہا کہ سیاستدان ملک لوٹ کر کھا رہے تھے کرپشن میں اضافہ ہو رہا تھا اس لیے ہم نے کاروائی کی اور پھر وہی سیاستدان ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ان کا منہ چڑا رہے ہو تے ہیں جو ہمارے ساتھ ہیں وہ ٹھیک ہیں جو مخالف ہیں وہ ہی کرپٹ ہیں جیسے آج کل پارٹیوں میں بھرتی کھلی ہے جو شامل ہو گیا وہ زم زم سے دُھل گیا جو نہ ہو سکا وہ کرپٹ اور بددیانت ٹھہرا۔
ایک وہ دور تھا جب کسی کو کوئی پتہ نہیں چلتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے کہاں سے فیصلے ہو تے ہیں اور کس طرح ان کو عملی جامہ پہنایا جاتاہے لیکن آج کے دور میں اسمبلی کے ممبران تو نہیں بول سکتے کیونکہ اس کے لیے اجلاس میں جانا ضروری ہے پھر اجلاس میں بولنے کے اجازت ہے تو وہ بھی پانچ سے دن منٹ بات کر سکتے ہیں لیکن میڈیا نے تمام سازشوں کوطشت ازبام کر دیا ہے سوشل میڈیا نے ہر آدمی کے ہاتھ میں مائیک اور اظہارتھما دیا ہے جو وہ محسوس کر تاہے فوراََخبر چھپ جاتی ہے ۔اس کا فائدہ بھی بہت ہے اپو زیشن کو تو فائدہ ہی فائدہ ہے حکومت کو نقصان ہے ۔اب سوشل میڈیا پر چپڑاسی لے کر سیکر ٹری تک اور سپاہی سے لے کر بڑے عہدے دار تک کی دسترس میں ہے اب خبر کو دبایا نہیںجا سکتا ۔
اصولی طور پر فوج سول انتظامیہ کے ماتحت ادارہ ہے اگر حکمران کوئی بد اعمالی یا غلط کا م کرتاہے تو ان کو روکنا یا ان کی سرزنش کرنا اپوزیشن کا کام ہے پارلیمنٹ اگر کام نہیں کرر ہی یا اجلاس نہیں بلایا جا رہاتواحتجاج کا راستہ کھلا ہے ۔وہ احتجاج کریں ،جلسے کر یں،جلوس نکا لیں، بھو ک ہڑ تال کریں یہ ان کا کام ہے ۔لیکن اگر سکیورٹی یا کسی اور معاملے میں فوج اپنا Concern بتاتی ہے تو اس کو ملاقات کر کے اپنا کام کرنا چاہیے سوشل میڈیا یا پریس کانفرنس کے ذریعے با ت پہنچانا دراصل اختلافات کو ہو ا دینے کے مترادف ہے اس میں کوئی شک نہیں جب وزیراعظم آرمی چیف صوابدیدی اختیارات کے تحت لگائیںگے تو مسائل جنم لیتے ہیں وزیراعظم یہ توقع رکھتے ہیں کہ میں نے ایساآدمی چنا ہے جو آرمی کو چلانے کے لیے بھی مجھ سے مشورہ کرے گا لیکن عملاََ یہ ممکن نہیں فوج کے ادارے کی ساخت اس طرح کی ہے کہ وہ صرف آرمی چیف کے ا حکا مات کے پابند ہیںاور تقا ضہ بھی یہی ہے کہ آرمی چیف کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیاجائے اور کوئی بھی آرمی چیف اپنے افسران کے مشورے کے بغیر نظام نہیں چلا سکتا آرمی نہ صرف داخلی اور خا رجی محا ذ پر اپنی رائے رکھتی ہے بلکہ بین الالقو امی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کو مدِنظر رکھ کر سکیو رٹی پالیسی ترتیب دیتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے ڈنڈے کے زور پر پاکستانی سیاست میں مداخلت کی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی معا شی کمزوری کی بنیاد پر امریکہ کی رائے کا احترام کیا گیا جس کی وجہ سے ہماری سیاست میں امریکہ کا رول فیصلہ کن سمجھا جاتا ہے جس طرح نیوز لیگ کے مسئلے پر چھپا کہ امریکہ آزادی اظہار کی حما یت کرتا رہے گا ۔ زیادہ مناسب یہی ہے کہ سپریم کورٹ کی طرح آرمی ایکٹ میں ہی تبدیلی کر دی جائے تا کہ سینئر ترین جنرل کوہی آرمی چیف بنا یا جائے اس طرح کسی کی حق تلفی کا احسا س بھی نہیں ہو گا اور سینئر جرنیلوں کے تجربے سے بھی خوب فائدہ اُٹھا یا جاسکے گا ڈان لیک پر آرمی نے بھی تحفظا ت کا اظہار کیا تو عوام کی توقعات بھی فوج سے وابستہ ہو نا قدرتی عمل ہے اور پھر فوج کا خود ہی یہ کہنا ہے کہ ڈان لیک کا باب بند ہو گیا ہے نامناسب ہے حکومت اور فوج کا یہ مسئلہ بھی نہیں تھا نہ ان کا ذاتی مسئلہ تھا کہ صلح کر لیں بلکہ یہ بیس کروڑ عوام کے تحفظ کا مسئلہ ہے اس کو منطقی انجام تک پہنچانا جائے اب حکومت نے و زراء اور ایک افسر کو عہدوں سے برطرف کر کے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ کوئی جرم ہو ا تھا اب حکومت کو چاہیے کہ ان لوگوں پر غداری کا مقدمہ درج کرے تاکہ اس ملک کی سیکورٹی کے ساتھ کھیلنے والے اپنے انجام کو پہنچیں اور عبرت حاصل کریں ۔پاک فوج اس ملک کی سرحدوں کی محافظ ہے اس کی قربانیاں بے پناہ ہیں اور وہ واحد قوت ہے جس سے دنیا اور پاکستان کے دشمن کانپتے ہیں اور پوری عوام پاک فوج کے شانہ بشانہ ہے جب بھی کوئی کڑا وقت آیا تو چند لو گ ہی ا س ملک کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے لیکن اس ملک کے بیس کر وڑ عوام اپنی زمین کے چپہ چپہ کی حفاظت کریں گے وہ آج بھی اپنی فوج کے ساتھ ہیں اور آ ئندہ بھی ساتھ ہو ں گے ۔پاک آرمی زندہ باد پاکستان پائندہ باد