نواز رضا
جب فاطمہ جناح وویمن یونیورسٹی میں حکومت پنجاب کی طرف سے ذہین طالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریب میں سروں پر سفید ٹوپیاں سجائے قومی پرچم میں ملبوس طالبات نے چھولو آسمان .... تم ہو پاکستان “ کے ملی نغمے کا جادو جگایا تو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے بے اختیار اپنی آواز کو نوجوان نسل کی آواز سے ملا دیا۔ یونیورسٹی کے دردودیوار سے ملی نغمے کی گونج سنائی دے رہی تھی ۔وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف علی الصبح فاطمہ جناح یونیورسٹی کی ذہین طالبات میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کرنے کے لیے لاہور سے راولپنڈی آئے تھے۔ قبل ازیں اسی نوعیت کی دو تقریبات راولپنڈی اوراسلام آباد میں منعقد ہوچکی تھیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نوازشریف نے جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں چاروں صوبوں کے منتخب طلبہ وطالبات کو لیپ ٹاپ دئیے جبکہ ہفتہ عشرہ بعد قومی اسمبلی کے رکن حمزہ شہبازشریف نے مہر علی شاہ بارانی یونیورسٹی میں طلبہ وطالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم کئے ۔ وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف جنہوں نے دوسری بار پنجاب کا اقتدار سنبھالا تو انہوں نے جہاں پنجاب کی انتظامی مشنری میں اصلاحات کا بیڑہ اٹھایا وہاں تعلیمی میدان میں اصلاحات کرکے ایک تعلیمی مصلح کی حیثیت سے قوم کے سامنے ابھر کر آئے ۔ انہوں نے غریب بچوں کو دانش سکولوں میں تعلیم کی سہولت فراہم کی وہاں انہوں نے پنجاب کے زیر تعلیم نوجوانوں کو دور حاضر کا تحفہ ”لیپ ٹاپ“ دینے کا فیصلہ کیا تو ان کے سیاسی مخالفین نے اس فیصلے پر کڑی نکتہ چینی کی اور کہا کہ نوجوانوں میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کا منصوبہ سستی روٹی سکیم کی طرح ناکام ہو جائے گا ‘ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف جو اپنی دھن کے پکے ہیں انہوں نے تمام تر تنقید کی خاطر میں نہ لاتے ہوئے میرٹ کی بنیاد پر لیپ ٹاپ کی تقسیم کو یقینی بنایا۔ جس طرح انہوں نے ییلو کیب سکیم میں کسی مسلم لیگی رکن اسمبلی کی سفارش کو خاطر میں لائے بغیر پر شفاف قرعہ اندازی کی بنیاد پر مستحق افراد کو گاڑیاں دیں اسی طرح انہوں نے لیپ ٹاپ سکیم میں کسی طالب علم کو سفارش کی بنیاد پر لیپ ٹاپ نہیں دیا یہی وجہ ہے اب تک تقسیم ہونے والے لیپ ٹاپ کے بارے میں کسی تعلیمی ادارے کے ایک طالب علم کی شکایت موصول نہیں ہوئی وزیراعلیٰ پنجاب ہر تقریب کے شرکا سے یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ کیا کسی کو میرٹ کے بغیر لیپ ٹاپ دیا گیا ہے یا کوئی میرٹ والا لیپ ٹاپ لینے سے رہ گیا ہے۔ فاطمہ جناح یونیورسٹی میں منعقدہ تقریب میں بھی یہ سوال کیا گیا ۔ کیا کوئی ایسی طالبہ ہے جس کو میرٹ پر لیپ ٹاپ نہ ملا ہو۔ یا میرٹ کو نظر انداز کرکے لیپ ٹاپ دے دیا گیا ہو تو وہ کھڑے ہو کر بتائے اس کے جواب میں طالبات نے ہاتھ کھڑے کرکے اس امر کی تصدیق کی کہ سب کو میرٹ پر لیپ ٹاپ ملے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے وہ اپنی گرتی صحت کی پروا کئے بغیر دن رات اسی جنون میں مبتلا رہتے ہیں ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وزارت اعلیٰ پنجاب کا قلمدان ان کے پاس چند ماہ کے لئے ہے پنجاب کے حصے بخرے ہونے والے ہیں لہذا وہ مختصر مدت میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب وہ پنجاب میں اپنی سوچ اور تخیل کے مطابق کام ہوتے نہیں دیکھتے تو شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ پنجاب کی بیورو کریسی میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جن پر ان کی نظر انتخاب پڑی ہے یہی وجہ ہے وہ پنجاب میں ہونے والی تمام خرابیوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں مجھے ذاتی طورپر اس بات کا علم ہے ”منہ زور اور بے قابو بیورو کریٹ“ پنجاب میں تعیناتی پر گھبراتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جس صوبے کا وزیراعلی ہر صبح دو چارافسروں کا ناشتہ کرتا ہو وہاں کام کرنا بڑا مشکل ہے کسی افسر سے کوئی غلطی یا غفلت ہونے پر فوراً معطلی کا پروانہ جاری کر دیا جاتا ہے یا پھر مقدمہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے درحقیقت انتظامی مشنری بھی اسی صورت میں صحیح طورپر کام کرتی ہے جس ضلع کا انتظامی سربراہ اس وقت سوتا ہوتا ہے جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ صوبے کا وزیراعلی بھی سوگیا ہے ۔ حکومت پنجاب کو پاکستان کی مثالی حکومت تو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وزیراعلی پنجاب کی تمام ترکوشش کے باوجود عدلیہ پولیس اور مال کے شعبوں میں اصلاح نہیں ہوسکی ان محکموں میں کرپشن نے اس قدر جڑیں پکڑ رکھی ہیں کہ اصلاح احوال کے لیے کسی بڑے آپریشن کی ضرورت ہے تاہم حکومت پنجاب کا وفاقی اور دیگر صوبائی حکومتوں سے موازنہ کیا جائے تو پنجاب میں زندگی کے مختلف شعبوں میں گڈگورننس کی ایک جھلک نظر آتی ہے پنجاب میں کوئی ”دلال“ نظر نہیں آئے گا جو شریف خاندان سے کام کروانے کے عوض ایڈوانس وصول کررہا ہو شریف خاندان کے کسی فرد کے بارے میں یہ بات منظر عام پر نہیں آئی کہ اس نے کسی ترقیاتی پراجیکٹ میں کمشن کا تقاضا کیا ہو۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ لیپ ٹاپ کی خریداری کے بارے میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے حکومت پنجاب کی توجہ مبذول کرائی تو اس بارے میں تمام تفصیلات جاری کر دی گئیں جس کے بعد تمام شکوک وشہبات دور ہوگئے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب تعلیم کے شعبہ میں اصلاحات کررہے ہیں ۔ انہوں نے امتحانی نظام کو فول پروف بنانے کی ہر ممکن کوشش کی تو بوٹی مافیا اور اجارہ دار تعلیمی ادارے ان کے اس منصوبے کی راہ میں حائل ہوگئے ۔ دانش سکول متعارف کرائے تو انہیں سیاسی مخالفین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اسی طرح انہوں نے دیگر صوبوں کے مقابلے میں اچھے اقدامات کرکے پنجاب کے عوام میں پذیرائی حاصل کی یہی وجہ ان کے سیاسی مخالفین ان کے غیر معمولی طورپرمتحرک ہونے پر اپنے غصے کا اظہار کرتے رہتے ہیں 16 گھنٹے کام کرنے کے جنون نے ان کی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے پیپلز پارٹی سے نفرت کے اظہار میں منافقت سے کام نہیں لیتے یہی وجہ ہے کہ وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے اسی راہ پر چل نکلے ہیں جس راہ پر چل کر ان کے بڑے بھائی محمد نوازشریف نے 1988ءمیں اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو کنفرنٹ کیا تھا اس طرز عمل نے میاں نوازشریف کو متبادل قیادت کے طور پر قوم کے سامنے پیش کیا تھا۔ میاں نوازشریف کے پائے استقلال میں لفزش نہ آنے کے باعث وہ دوبارہ وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوئے یہی وجہ ہے 13-12 سال گزرنے کے باوجود آج بھی قوم ان کی طرف دیکھ رہی ہے میاں شہباز شریف کے جارحانہ انداز سیاست سے انہیں اپوزیشن لیڈر کے طورپر ابھرنے کا موقع ملا ہے ۔ ان ہی کی سوچ رکھنے والا دوسرا اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی میں موجود ہے جس نے اپنی صلاحیتوں اور منصوبہ بندی سے پارلیمنٹ میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو بے بس کردیا ہے ۔ وزیراعلی پنجاب نے لیپ ٹاپ کی سیاست کرکے نوجوان نسل کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے۔ لیپ ٹاپ حاصل کرنے والے طلبا وطالبات کو حصول علم اور ریسرچ کے 15 ہزار رسائل وجرائد اور 45 ہزار کتب تک آن لائن تک رسائی فراہم کردی ہے پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما سید ظفر علی شاہ ایڈووکیٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی توجہ وفاقی دارالحکومت کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا وطالبات کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے حکومت پنجاب نے جناح کنونشن سینٹرمیں چاروں صوبوں کے منتخب طلبا وطالبات کو لیپ ٹاپ دیئے لیکن وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے طلبا وطالبات کو نظر انداز کردیا گیا اسی طرح پنجاب کا ڈومیسائل رکھنے والے طلبا وطالبات کا کیا قصور ہے ؟ ان کو وفاقی دارالحکومت کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے ”جرم“ میں لیپ ٹاپ سے محروم کردینا سراسر زیادتی ہے پنجاب کے ”مرد آہن“ کو اس معاملہ کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ اسلام آباد کو مسلم لیگ ن کے حق میں ووٹ دینے کی کون سزا دلوا رہا ہے ؟
جب فاطمہ جناح وویمن یونیورسٹی میں حکومت پنجاب کی طرف سے ذہین طالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریب میں سروں پر سفید ٹوپیاں سجائے قومی پرچم میں ملبوس طالبات نے چھولو آسمان .... تم ہو پاکستان “ کے ملی نغمے کا جادو جگایا تو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے بے اختیار اپنی آواز کو نوجوان نسل کی آواز سے ملا دیا۔ یونیورسٹی کے دردودیوار سے ملی نغمے کی گونج سنائی دے رہی تھی ۔وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف علی الصبح فاطمہ جناح یونیورسٹی کی ذہین طالبات میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کرنے کے لیے لاہور سے راولپنڈی آئے تھے۔ قبل ازیں اسی نوعیت کی دو تقریبات راولپنڈی اوراسلام آباد میں منعقد ہوچکی تھیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نوازشریف نے جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں چاروں صوبوں کے منتخب طلبہ وطالبات کو لیپ ٹاپ دئیے جبکہ ہفتہ عشرہ بعد قومی اسمبلی کے رکن حمزہ شہبازشریف نے مہر علی شاہ بارانی یونیورسٹی میں طلبہ وطالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم کئے ۔ وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف جنہوں نے دوسری بار پنجاب کا اقتدار سنبھالا تو انہوں نے جہاں پنجاب کی انتظامی مشنری میں اصلاحات کا بیڑہ اٹھایا وہاں تعلیمی میدان میں اصلاحات کرکے ایک تعلیمی مصلح کی حیثیت سے قوم کے سامنے ابھر کر آئے ۔ انہوں نے غریب بچوں کو دانش سکولوں میں تعلیم کی سہولت فراہم کی وہاں انہوں نے پنجاب کے زیر تعلیم نوجوانوں کو دور حاضر کا تحفہ ”لیپ ٹاپ“ دینے کا فیصلہ کیا تو ان کے سیاسی مخالفین نے اس فیصلے پر کڑی نکتہ چینی کی اور کہا کہ نوجوانوں میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کا منصوبہ سستی روٹی سکیم کی طرح ناکام ہو جائے گا ‘ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف جو اپنی دھن کے پکے ہیں انہوں نے تمام تر تنقید کی خاطر میں نہ لاتے ہوئے میرٹ کی بنیاد پر لیپ ٹاپ کی تقسیم کو یقینی بنایا۔ جس طرح انہوں نے ییلو کیب سکیم میں کسی مسلم لیگی رکن اسمبلی کی سفارش کو خاطر میں لائے بغیر پر شفاف قرعہ اندازی کی بنیاد پر مستحق افراد کو گاڑیاں دیں اسی طرح انہوں نے لیپ ٹاپ سکیم میں کسی طالب علم کو سفارش کی بنیاد پر لیپ ٹاپ نہیں دیا یہی وجہ ہے اب تک تقسیم ہونے والے لیپ ٹاپ کے بارے میں کسی تعلیمی ادارے کے ایک طالب علم کی شکایت موصول نہیں ہوئی وزیراعلیٰ پنجاب ہر تقریب کے شرکا سے یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ کیا کسی کو میرٹ کے بغیر لیپ ٹاپ دیا گیا ہے یا کوئی میرٹ والا لیپ ٹاپ لینے سے رہ گیا ہے۔ فاطمہ جناح یونیورسٹی میں منعقدہ تقریب میں بھی یہ سوال کیا گیا ۔ کیا کوئی ایسی طالبہ ہے جس کو میرٹ پر لیپ ٹاپ نہ ملا ہو۔ یا میرٹ کو نظر انداز کرکے لیپ ٹاپ دے دیا گیا ہو تو وہ کھڑے ہو کر بتائے اس کے جواب میں طالبات نے ہاتھ کھڑے کرکے اس امر کی تصدیق کی کہ سب کو میرٹ پر لیپ ٹاپ ملے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے وہ اپنی گرتی صحت کی پروا کئے بغیر دن رات اسی جنون میں مبتلا رہتے ہیں ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وزارت اعلیٰ پنجاب کا قلمدان ان کے پاس چند ماہ کے لئے ہے پنجاب کے حصے بخرے ہونے والے ہیں لہذا وہ مختصر مدت میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب وہ پنجاب میں اپنی سوچ اور تخیل کے مطابق کام ہوتے نہیں دیکھتے تو شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ پنجاب کی بیورو کریسی میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جن پر ان کی نظر انتخاب پڑی ہے یہی وجہ ہے وہ پنجاب میں ہونے والی تمام خرابیوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں مجھے ذاتی طورپر اس بات کا علم ہے ”منہ زور اور بے قابو بیورو کریٹ“ پنجاب میں تعیناتی پر گھبراتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جس صوبے کا وزیراعلی ہر صبح دو چارافسروں کا ناشتہ کرتا ہو وہاں کام کرنا بڑا مشکل ہے کسی افسر سے کوئی غلطی یا غفلت ہونے پر فوراً معطلی کا پروانہ جاری کر دیا جاتا ہے یا پھر مقدمہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے درحقیقت انتظامی مشنری بھی اسی صورت میں صحیح طورپر کام کرتی ہے جس ضلع کا انتظامی سربراہ اس وقت سوتا ہوتا ہے جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ صوبے کا وزیراعلی بھی سوگیا ہے ۔ حکومت پنجاب کو پاکستان کی مثالی حکومت تو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وزیراعلی پنجاب کی تمام ترکوشش کے باوجود عدلیہ پولیس اور مال کے شعبوں میں اصلاح نہیں ہوسکی ان محکموں میں کرپشن نے اس قدر جڑیں پکڑ رکھی ہیں کہ اصلاح احوال کے لیے کسی بڑے آپریشن کی ضرورت ہے تاہم حکومت پنجاب کا وفاقی اور دیگر صوبائی حکومتوں سے موازنہ کیا جائے تو پنجاب میں زندگی کے مختلف شعبوں میں گڈگورننس کی ایک جھلک نظر آتی ہے پنجاب میں کوئی ”دلال“ نظر نہیں آئے گا جو شریف خاندان سے کام کروانے کے عوض ایڈوانس وصول کررہا ہو شریف خاندان کے کسی فرد کے بارے میں یہ بات منظر عام پر نہیں آئی کہ اس نے کسی ترقیاتی پراجیکٹ میں کمشن کا تقاضا کیا ہو۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ لیپ ٹاپ کی خریداری کے بارے میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے حکومت پنجاب کی توجہ مبذول کرائی تو اس بارے میں تمام تفصیلات جاری کر دی گئیں جس کے بعد تمام شکوک وشہبات دور ہوگئے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب تعلیم کے شعبہ میں اصلاحات کررہے ہیں ۔ انہوں نے امتحانی نظام کو فول پروف بنانے کی ہر ممکن کوشش کی تو بوٹی مافیا اور اجارہ دار تعلیمی ادارے ان کے اس منصوبے کی راہ میں حائل ہوگئے ۔ دانش سکول متعارف کرائے تو انہیں سیاسی مخالفین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اسی طرح انہوں نے دیگر صوبوں کے مقابلے میں اچھے اقدامات کرکے پنجاب کے عوام میں پذیرائی حاصل کی یہی وجہ ان کے سیاسی مخالفین ان کے غیر معمولی طورپرمتحرک ہونے پر اپنے غصے کا اظہار کرتے رہتے ہیں 16 گھنٹے کام کرنے کے جنون نے ان کی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے پیپلز پارٹی سے نفرت کے اظہار میں منافقت سے کام نہیں لیتے یہی وجہ ہے کہ وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے اسی راہ پر چل نکلے ہیں جس راہ پر چل کر ان کے بڑے بھائی محمد نوازشریف نے 1988ءمیں اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو کنفرنٹ کیا تھا اس طرز عمل نے میاں نوازشریف کو متبادل قیادت کے طور پر قوم کے سامنے پیش کیا تھا۔ میاں نوازشریف کے پائے استقلال میں لفزش نہ آنے کے باعث وہ دوبارہ وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوئے یہی وجہ ہے 13-12 سال گزرنے کے باوجود آج بھی قوم ان کی طرف دیکھ رہی ہے میاں شہباز شریف کے جارحانہ انداز سیاست سے انہیں اپوزیشن لیڈر کے طورپر ابھرنے کا موقع ملا ہے ۔ ان ہی کی سوچ رکھنے والا دوسرا اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی میں موجود ہے جس نے اپنی صلاحیتوں اور منصوبہ بندی سے پارلیمنٹ میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو بے بس کردیا ہے ۔ وزیراعلی پنجاب نے لیپ ٹاپ کی سیاست کرکے نوجوان نسل کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے۔ لیپ ٹاپ حاصل کرنے والے طلبا وطالبات کو حصول علم اور ریسرچ کے 15 ہزار رسائل وجرائد اور 45 ہزار کتب تک آن لائن تک رسائی فراہم کردی ہے پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما سید ظفر علی شاہ ایڈووکیٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی توجہ وفاقی دارالحکومت کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا وطالبات کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے حکومت پنجاب نے جناح کنونشن سینٹرمیں چاروں صوبوں کے منتخب طلبا وطالبات کو لیپ ٹاپ دیئے لیکن وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے طلبا وطالبات کو نظر انداز کردیا گیا اسی طرح پنجاب کا ڈومیسائل رکھنے والے طلبا وطالبات کا کیا قصور ہے ؟ ان کو وفاقی دارالحکومت کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے ”جرم“ میں لیپ ٹاپ سے محروم کردینا سراسر زیادتی ہے پنجاب کے ”مرد آہن“ کو اس معاملہ کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ اسلام آباد کو مسلم لیگ ن کے حق میں ووٹ دینے کی کون سزا دلوا رہا ہے ؟