فاروق عالم انصاری
کبھی کبھی اس ذہنی ضیافت کی امید پر لاہور چلا آتا ہوں جو اہل علم کی رفاقت ہی میں میسر آ سکتی ہے۔ پچھلی سوموار کو لاہور پہنچ کر رابطہ کیا تو جناب مجیب الرحمان شامی کہنے لگے کہ وہ آج لنچ میاں نواز شریف کے ساتھ کریں گے۔ شامی صاحب سے ملاقات موقوف ہو گئی۔ پھر ہم رات گئے تک مختلف دوستوں سے اس لنچ کی کتھا سنتے رہے۔ میاں نواز شریف کے ہاں صحافتی دنیا کے سبھی بڑے لوگ بلائے گئے تھے۔ یہ فکری نشست تین گھنٹے جاری رہی۔ پوچھا جا رہا تھا کہ وزیراعظم گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد وزیراعظم کو ہٹانے کےلئے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ بس ایسے ویسے ہی گفتگو ہوتی رہی۔ باہمی مشاورت کی نوعیت وہی تھی۔ جیسے یہ لوک شاعری بڑے مزے لیکر سنائی جاتی ہے۔ ”کہا ہم چین کو جائیں، کہا تم چین کو جاﺅ، کہا جاپان کا ڈر ہے، کہا جاپان تو ہو گا، کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں، کہا تم اونٹ پر بیٹھو، کہا کوہان کا ڈر ہے؟کہا کوہان تو ہو گا“ کھانا لذیز ہو اور وافر بھی پھر تو یار لوگوں کو بہت کچھ سوجھتا ہے۔ پکوانوں کی ترکیب سے لیکر وزیراعظم بننے بنانے کے سبھی نسخے لیکن یہاں تو تمام تر اہتمام وزیراعظم کے عدالتی فیصلہ نہ ماننے پر پیدا شدہ بحران سے نپٹنے کے سلسلے میں تھا۔ اس سلسلہ میں ایک صاحب لانگ مارچ کا مشورہ دینے لگے۔ ادھر ہمارے لیڈران کرام اکبر الہ آبادی سے کچھ کم نازک بدن نہیں
پڑ جائیں ابھی آبلے اکبر کے بدن پر
پڑھ کر جو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون
ہمارے لیڈروں کو گرمیاں اچھی ضرور لگتی ہیں لیکن وہ اس موسم کو کسی ٹھنڈے علاقے میں گزارنا پسند فرماتے ہیں پھر جھلستی مئی میں لانگ مارچ، بات کچھ بنتی نہیں۔ مزاج شناس فوراً تحمل کا مشورہ دینے لگے۔ سبحان اللہ۔ فرینڈلی اپوزیشن کو فرینڈلی سے مشوروں سے نوازا جانے لگا۔ ہماری فرینڈلی اپوزیشن نے سسٹم اور جمہوریت کی خاطر بدامنی اور مہنگائی ”ویلکم“ کی ہے۔ سودا کچھ مہنگا بھی نہیں۔ جمہوریت اور سسٹم حکمران طبقے کیلئے بدامنی اور مہنگائی بیچارے عوام کیلئے۔ میری دانست میں پاکستان میں سیاست کا مقصد بہم کم لوگوں کی نظر میں عوام کی خدمت رہا ہے۔ تمام تر توانائیاں اپنے آپ کو نمایاں کرنے اور مخالفین کو نیچا دکھانے پر صرف ہوتی ہیں۔ سسٹم کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کا مطلب صرف وفاقی حکومت نہیں پنجاب حکومت بھی ہے۔ عمران خان اسمبلیوں سے استعفوں کی بات کرتے ہیں۔ سادہ سا سوال ہے کہ کیا استعفوں کی صورت میں پنجاب حکومت قائم رہتی ہے؟ لیکن میاں شہباز شریف یہ بات ذرا ڈھنگ سے کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ استعفوں کی صورت میں مرزا یار سُنجھی گلیوں میں اکیلا پھرے گا۔ اسے کوئی روک ٹوک نہیں ہو گی۔ ایک سنجیدہ سا سوال یہ بھی ہے کہ اسے اب کوئی روک ٹوک ہے؟ وہی بات ہوئی، ایک خاتون اپنی تلخ ازدواجی زندگی کا رونا رو رہی تھی۔ وہ یہ ثابت کرنے پر تلی بیٹھی تھی کہ وہ سخت عذاب میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ سننے والے صاحب مشورہ نما سوال کرنے لگے: ”تو محترمہ پھر آپ اپنے شوہر سے طلاق کے ذریعے جان کیوں نہیں چھڑوا لیتیں۔“ خاتون جلدی سے بولی ”اچھا تو آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے آزاد کر دوں اور وہ ”مشٹنڈا“ اکیلا عیش کرتا پھرے“۔ ن لیگ کو استعفوں کی شکل میں اکیلی پیپلزپارٹی کی عیش و عشرت نظر آتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اگر یوسف رضا گیلانی جائے گا تو مخدوم شہاب الدین، منظور وٹو، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان یا ثمینہ خالد گھرکی، ان میں سے کوئی ایک آ جائے گا، پھر بھلا کیا ہو جائے گا
رات کٹنے کے منتظر ہو عدم
رات کٹ بھی گئی تو کیا ہو گا
حالات کہیں کے کہیں پہنچ چکے ہیں۔ اب کسی گیلانی شیلانی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شیخوپورہ میں ایک ممبر قومی اسمبلی کے گھر پچھلے دنوں موٹر سائیکل سوار نوجوان آ دھمکے۔ ان کی عمریں اٹھارہ سے بیس سال تک تھیں۔ یہ دونوں ممبر قومی اسمبلی کو اغوا کرنے آئے تھے۔ وہ نہ مل سکا تو اس کے سگے بھائی کو ہی موٹر سائیکل پر لاد کر لے گئے۔ وہاں پولیس تگڑی ثابت ہوئی، دونوں ملزم پکڑے لئے گئے۔ گرفتاری کے بعد بتانے لگے کہ ممبر قومی اسمبلی سیاست میں آنے سے پہلے ایک معمولی سا دکاندار تھا۔ اب اس کی دولت کا کوئی انت شمار نہیں۔ اس کی لمبی سی گاڑیاں بھی شمار سے باہر ہیں۔ ہمارا اور کوئی مقصد نہیں۔ ہم محض اسے ذرا سبق سکھانا چا ہتے تھے۔ آپ پوچھیں گے کہ شیخوپورہ کے ممبر قومی اسمبلی کا تعلق ن لیگ سے ہے یا پیپلزپارٹی سے؟ چھوڑیں اس سوال کو۔ ن لیگ ہو یا پیپلزپارٹی، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ دونوں ہی حکمران جماعتیں ہیں۔ ایک جماعت پنجاب میں حکمران ہے۔ دوسری اپنے اتحادیوں کے ساتھ وفاق اور باقی تین صوبوں میں۔ اگر آپ جواب پر بضد ہیں تو سنیں کہ اس ممبر قومی اسمبلی کا تعلق حکمران جماعت سے ہے۔
،
کبھی کبھی اس ذہنی ضیافت کی امید پر لاہور چلا آتا ہوں جو اہل علم کی رفاقت ہی میں میسر آ سکتی ہے۔ پچھلی سوموار کو لاہور پہنچ کر رابطہ کیا تو جناب مجیب الرحمان شامی کہنے لگے کہ وہ آج لنچ میاں نواز شریف کے ساتھ کریں گے۔ شامی صاحب سے ملاقات موقوف ہو گئی۔ پھر ہم رات گئے تک مختلف دوستوں سے اس لنچ کی کتھا سنتے رہے۔ میاں نواز شریف کے ہاں صحافتی دنیا کے سبھی بڑے لوگ بلائے گئے تھے۔ یہ فکری نشست تین گھنٹے جاری رہی۔ پوچھا جا رہا تھا کہ وزیراعظم گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد وزیراعظم کو ہٹانے کےلئے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ بس ایسے ویسے ہی گفتگو ہوتی رہی۔ باہمی مشاورت کی نوعیت وہی تھی۔ جیسے یہ لوک شاعری بڑے مزے لیکر سنائی جاتی ہے۔ ”کہا ہم چین کو جائیں، کہا تم چین کو جاﺅ، کہا جاپان کا ڈر ہے، کہا جاپان تو ہو گا، کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں، کہا تم اونٹ پر بیٹھو، کہا کوہان کا ڈر ہے؟کہا کوہان تو ہو گا“ کھانا لذیز ہو اور وافر بھی پھر تو یار لوگوں کو بہت کچھ سوجھتا ہے۔ پکوانوں کی ترکیب سے لیکر وزیراعظم بننے بنانے کے سبھی نسخے لیکن یہاں تو تمام تر اہتمام وزیراعظم کے عدالتی فیصلہ نہ ماننے پر پیدا شدہ بحران سے نپٹنے کے سلسلے میں تھا۔ اس سلسلہ میں ایک صاحب لانگ مارچ کا مشورہ دینے لگے۔ ادھر ہمارے لیڈران کرام اکبر الہ آبادی سے کچھ کم نازک بدن نہیں
پڑ جائیں ابھی آبلے اکبر کے بدن پر
پڑھ کر جو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون
ہمارے لیڈروں کو گرمیاں اچھی ضرور لگتی ہیں لیکن وہ اس موسم کو کسی ٹھنڈے علاقے میں گزارنا پسند فرماتے ہیں پھر جھلستی مئی میں لانگ مارچ، بات کچھ بنتی نہیں۔ مزاج شناس فوراً تحمل کا مشورہ دینے لگے۔ سبحان اللہ۔ فرینڈلی اپوزیشن کو فرینڈلی سے مشوروں سے نوازا جانے لگا۔ ہماری فرینڈلی اپوزیشن نے سسٹم اور جمہوریت کی خاطر بدامنی اور مہنگائی ”ویلکم“ کی ہے۔ سودا کچھ مہنگا بھی نہیں۔ جمہوریت اور سسٹم حکمران طبقے کیلئے بدامنی اور مہنگائی بیچارے عوام کیلئے۔ میری دانست میں پاکستان میں سیاست کا مقصد بہم کم لوگوں کی نظر میں عوام کی خدمت رہا ہے۔ تمام تر توانائیاں اپنے آپ کو نمایاں کرنے اور مخالفین کو نیچا دکھانے پر صرف ہوتی ہیں۔ سسٹم کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کا مطلب صرف وفاقی حکومت نہیں پنجاب حکومت بھی ہے۔ عمران خان اسمبلیوں سے استعفوں کی بات کرتے ہیں۔ سادہ سا سوال ہے کہ کیا استعفوں کی صورت میں پنجاب حکومت قائم رہتی ہے؟ لیکن میاں شہباز شریف یہ بات ذرا ڈھنگ سے کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ استعفوں کی صورت میں مرزا یار سُنجھی گلیوں میں اکیلا پھرے گا۔ اسے کوئی روک ٹوک نہیں ہو گی۔ ایک سنجیدہ سا سوال یہ بھی ہے کہ اسے اب کوئی روک ٹوک ہے؟ وہی بات ہوئی، ایک خاتون اپنی تلخ ازدواجی زندگی کا رونا رو رہی تھی۔ وہ یہ ثابت کرنے پر تلی بیٹھی تھی کہ وہ سخت عذاب میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ سننے والے صاحب مشورہ نما سوال کرنے لگے: ”تو محترمہ پھر آپ اپنے شوہر سے طلاق کے ذریعے جان کیوں نہیں چھڑوا لیتیں۔“ خاتون جلدی سے بولی ”اچھا تو آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے آزاد کر دوں اور وہ ”مشٹنڈا“ اکیلا عیش کرتا پھرے“۔ ن لیگ کو استعفوں کی شکل میں اکیلی پیپلزپارٹی کی عیش و عشرت نظر آتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اگر یوسف رضا گیلانی جائے گا تو مخدوم شہاب الدین، منظور وٹو، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان یا ثمینہ خالد گھرکی، ان میں سے کوئی ایک آ جائے گا، پھر بھلا کیا ہو جائے گا
رات کٹنے کے منتظر ہو عدم
رات کٹ بھی گئی تو کیا ہو گا
حالات کہیں کے کہیں پہنچ چکے ہیں۔ اب کسی گیلانی شیلانی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شیخوپورہ میں ایک ممبر قومی اسمبلی کے گھر پچھلے دنوں موٹر سائیکل سوار نوجوان آ دھمکے۔ ان کی عمریں اٹھارہ سے بیس سال تک تھیں۔ یہ دونوں ممبر قومی اسمبلی کو اغوا کرنے آئے تھے۔ وہ نہ مل سکا تو اس کے سگے بھائی کو ہی موٹر سائیکل پر لاد کر لے گئے۔ وہاں پولیس تگڑی ثابت ہوئی، دونوں ملزم پکڑے لئے گئے۔ گرفتاری کے بعد بتانے لگے کہ ممبر قومی اسمبلی سیاست میں آنے سے پہلے ایک معمولی سا دکاندار تھا۔ اب اس کی دولت کا کوئی انت شمار نہیں۔ اس کی لمبی سی گاڑیاں بھی شمار سے باہر ہیں۔ ہمارا اور کوئی مقصد نہیں۔ ہم محض اسے ذرا سبق سکھانا چا ہتے تھے۔ آپ پوچھیں گے کہ شیخوپورہ کے ممبر قومی اسمبلی کا تعلق ن لیگ سے ہے یا پیپلزپارٹی سے؟ چھوڑیں اس سوال کو۔ ن لیگ ہو یا پیپلزپارٹی، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ دونوں ہی حکمران جماعتیں ہیں۔ ایک جماعت پنجاب میں حکمران ہے۔ دوسری اپنے اتحادیوں کے ساتھ وفاق اور باقی تین صوبوں میں۔ اگر آپ جواب پر بضد ہیں تو سنیں کہ اس ممبر قومی اسمبلی کا تعلق حکمران جماعت سے ہے۔
،