رابعہ رحمن
جو قومیں اپنی تاریخ بھلا دیتی ہیں زمانہ انہیں بھلا دیتا ہے لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ جن قوموں کی تاریخ شہیدوں کے لہو سے لکھی جاتی ہے وہ قومیں ہمیشہ سر بلند رہتی ہیں۔ 65 سالوں کے بعد لڑی جانے والی جنگیں تو لہو سے پاک وطن کی آبیاری کرتی رہیں مگر اس کے لئے جو دہشت گردی کی جنگ امریکہ نے ہمارے سر پہ مسلط کر دی۔ اس میں سیکورٹی فورسز، نیوی، ایئر فورس، پولیس اور فوج کی پانچ ہزار قربانیوں کے ساتھ ہماری بے گناہ نہتے عوام جن میں.... آیان جیسے معصوم بچے جو نماز جمعہ ادا کر رہے تھے، لاغر اور معذور جن میں کرنل فاروق کے والد وہیل چیئر پہ عبادت الٰہی میں مشغول تھے۔ لاہور میں بم دھماکوں میں کئی منزلہ عمارتوں تلے بوڑھی عورتیں، معصوم بچیاں بچے ماں کی گود میں قلقاریاں مارتے شہید ہو گئے.... آر اے بازار سے گزرنے والے پھول جیسے بچے ایک بم بلاسٹ میں چیتھڑوں کی طرح اڑا دیئے گئے.... جی ایچ کیو میں وردی میں ملبوس ہمارے فوجی جوان اور آفیسرز دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ وزیرستان کی بلند چوٹیوں پہ اندھیری راتوں میں تن تنہا راکٹوں اور میزائلوں کا مقابلہ کرنے والے ہمارے سپاہی وطن عزیز پہ قربان ہو گئے.... نیٹو فورسز کے حملے میں امریکہ کی بربریت کے نتیجے میں 24 اہل کار شہید ہوئے.... ایک میجر جنرل سرجن کو پنڈی ایم ایچ کے چوک میں بے گناہ بم سے اڑا دیا گیا۔ مہران بیس پہ چار غریب مزدور ایک آفیسر شہادت کے جذبے سے معمور ہو کر بے خوف و خطر آگے بڑھے اور شہید ہو گئے۔
قربانیوں کی لازوال داستانوں سے مزین یہ وطن اگر آج خانہ جنگی اور انتشار جیسے خطرناک معاملات سے دو چار ہے تو ہمیں یہاں ان معاملات کی وجوہات کو جاننے کے لئے ازسر نو تنظیمیں بنانی چاہئیں تاکہ میڈیا پہ آ کے ببانگ دہل ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھال کر زبان اور تحریر سے اپنی قوم کی دل آزادی کریں۔
پاک وطن کا ہر فرد نظریہ پاکستان کا داعی ہے اور مصائب و مشکلات سے انتشار اور خانہ جنگی سے دشمنوں کے ناپاک عزام سے گھبرا کے یا ان کے سامنے خود کو مجبور و محبوس ظاہر کرکے ہمارا بچہ، جوان، بوڑھا اور سپاہی کبھی بھی پشت دکھانے کے لئے تیار نہ ہو گا نہ ہی ہماری کروڑ ہا عوام پاکستان کے لئے اپنی جان کے نذرانے دینے سے دستبردار ہو گی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اقبال کا مومن نہ خریدا جا سکتا ہے نہ جھکایا جا سکتا ہے.... نہ غلامی کی زنجیروں میں باندھا جا سکتا ہے۔ ظلم و بربریت کا عمل تو ازل سے چلا آ رہا ہے۔ اسی طوفان بحر میں اپنی کشتیاں ڈال کر، اسی دشت ظلمات میں اپنے گھڑے دوڑا کر مسلمانوں نے فتوحات کے جھنڈے گاڑھے ہیں۔ آج کا مسلمان بھی انہیں فاتحین کا امانتدار ہے۔ انہی فتوحات کا پیش خیمہ ہے۔
ہمارے دلوں میں پلتا ہوا ایک ناسور بنگلہ دیش کا الگ ہو جانا بھی ہے.... ایسا نہیں تھا کہ اس وقت مسلمان جذبہ شہادت سے معمور نہ تھا بلکہ اس وقت اندرونی معاملات اور خانہ جنگی کی صورت ایسی کر دی گئی کہ کوئی بک گیا، کسی نے خرید لیا.... مگر اب ان بے ضمیروں ننگ انسانیت اور ننگ دین جیسے لوگوں کو آج کے پاکستان کا ایک فرد بھی کامیاب نہیں ہونے دے گا کہ آج ہم باشعور ہیں، ایٹمی طاقت ہیں۔ تعلیم کے میدان میں دنیا کے شانہ بشانہ ہیں۔ آج عورت اور مرد مل کر وطن کی باگ دوڑ سنبھالنے کی قوت اور اہمیت کو جانتے ہیں۔ آج ہماری سرحدوں پہ کھڑا سپاہی شہروں میں بکھری پولیس فورس، سمندروں پہ راج کرتی نیوی اور آسمان کی بلندیوں پر پرواز کرتے ہمارے طیارے دشمن پہ کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے بڑھے ہوئے قدم شاید انہیں شہادت کی طرف لے جائیں مگر وہ دم بھر کو بھی نہ دشمن سے غافل ہوتے ہیں نہ رفتار سست کرتے ہیں۔
ہمیں اور ہماری قیادتوں کو تو فخر کرنا چاہیے کہ ہمارے پاس وہ جذبے اور جسم ہیں جن کو نہ کٹنے کا ڈر ہے نہ مرنے کا خوف.... ہماری تو مائیں اپنے عزیز بھٹی شہید، لالک جان شہید جیسے سپوت پیدا کرکے وطن کو ایک ستون عطا کرتی ہیں۔ ہماری تو بہنیں اپنی گود میں کیپٹن نجم، کیپٹن امجد اور گلباز جیسے بھائی پال کر وطن عزیز کو دن کر دیتی ہیں۔ ہماری درس گاہیں، ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے عالم و فاضل بنا کے ملک کو ایٹمی طاقت عطا کرتی ہیں۔ یہ سب قربانی کے وہ مرحلے ہیں یہ سب محبت، جوانمردی، جان فروشی کی منزلیں ہیں جنہیں ایک مسلمان ایک سپاہی، ایک مومن اور ایک عوام کا باشندہ وقت اور عمر کے ساتھ تہہ کرتا چلا جاتا ہے اور جب قربانی کا وقت آتا ہے تو قومیں قیادتوں اور وقت کی تمام ناانصافیوں اور ظلم و بربریت کے معاملات بھول جاتی ہیں اور وہ صرف ایک ”شہید کا پیغام“ ....”قوت اخوت عوام“ لے کے آگے بڑھتیں ہیں اور سبز پرچم میں اپنی شہادت کو لپیٹ کر وطن، اسلاف اور اپنے ایمان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لحد میں اتر جاتیں ہیں۔
oo
جو قومیں اپنی تاریخ بھلا دیتی ہیں زمانہ انہیں بھلا دیتا ہے لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ جن قوموں کی تاریخ شہیدوں کے لہو سے لکھی جاتی ہے وہ قومیں ہمیشہ سر بلند رہتی ہیں۔ 65 سالوں کے بعد لڑی جانے والی جنگیں تو لہو سے پاک وطن کی آبیاری کرتی رہیں مگر اس کے لئے جو دہشت گردی کی جنگ امریکہ نے ہمارے سر پہ مسلط کر دی۔ اس میں سیکورٹی فورسز، نیوی، ایئر فورس، پولیس اور فوج کی پانچ ہزار قربانیوں کے ساتھ ہماری بے گناہ نہتے عوام جن میں.... آیان جیسے معصوم بچے جو نماز جمعہ ادا کر رہے تھے، لاغر اور معذور جن میں کرنل فاروق کے والد وہیل چیئر پہ عبادت الٰہی میں مشغول تھے۔ لاہور میں بم دھماکوں میں کئی منزلہ عمارتوں تلے بوڑھی عورتیں، معصوم بچیاں بچے ماں کی گود میں قلقاریاں مارتے شہید ہو گئے.... آر اے بازار سے گزرنے والے پھول جیسے بچے ایک بم بلاسٹ میں چیتھڑوں کی طرح اڑا دیئے گئے.... جی ایچ کیو میں وردی میں ملبوس ہمارے فوجی جوان اور آفیسرز دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ وزیرستان کی بلند چوٹیوں پہ اندھیری راتوں میں تن تنہا راکٹوں اور میزائلوں کا مقابلہ کرنے والے ہمارے سپاہی وطن عزیز پہ قربان ہو گئے.... نیٹو فورسز کے حملے میں امریکہ کی بربریت کے نتیجے میں 24 اہل کار شہید ہوئے.... ایک میجر جنرل سرجن کو پنڈی ایم ایچ کے چوک میں بے گناہ بم سے اڑا دیا گیا۔ مہران بیس پہ چار غریب مزدور ایک آفیسر شہادت کے جذبے سے معمور ہو کر بے خوف و خطر آگے بڑھے اور شہید ہو گئے۔
قربانیوں کی لازوال داستانوں سے مزین یہ وطن اگر آج خانہ جنگی اور انتشار جیسے خطرناک معاملات سے دو چار ہے تو ہمیں یہاں ان معاملات کی وجوہات کو جاننے کے لئے ازسر نو تنظیمیں بنانی چاہئیں تاکہ میڈیا پہ آ کے ببانگ دہل ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھال کر زبان اور تحریر سے اپنی قوم کی دل آزادی کریں۔
پاک وطن کا ہر فرد نظریہ پاکستان کا داعی ہے اور مصائب و مشکلات سے انتشار اور خانہ جنگی سے دشمنوں کے ناپاک عزام سے گھبرا کے یا ان کے سامنے خود کو مجبور و محبوس ظاہر کرکے ہمارا بچہ، جوان، بوڑھا اور سپاہی کبھی بھی پشت دکھانے کے لئے تیار نہ ہو گا نہ ہی ہماری کروڑ ہا عوام پاکستان کے لئے اپنی جان کے نذرانے دینے سے دستبردار ہو گی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اقبال کا مومن نہ خریدا جا سکتا ہے نہ جھکایا جا سکتا ہے.... نہ غلامی کی زنجیروں میں باندھا جا سکتا ہے۔ ظلم و بربریت کا عمل تو ازل سے چلا آ رہا ہے۔ اسی طوفان بحر میں اپنی کشتیاں ڈال کر، اسی دشت ظلمات میں اپنے گھڑے دوڑا کر مسلمانوں نے فتوحات کے جھنڈے گاڑھے ہیں۔ آج کا مسلمان بھی انہیں فاتحین کا امانتدار ہے۔ انہی فتوحات کا پیش خیمہ ہے۔
ہمارے دلوں میں پلتا ہوا ایک ناسور بنگلہ دیش کا الگ ہو جانا بھی ہے.... ایسا نہیں تھا کہ اس وقت مسلمان جذبہ شہادت سے معمور نہ تھا بلکہ اس وقت اندرونی معاملات اور خانہ جنگی کی صورت ایسی کر دی گئی کہ کوئی بک گیا، کسی نے خرید لیا.... مگر اب ان بے ضمیروں ننگ انسانیت اور ننگ دین جیسے لوگوں کو آج کے پاکستان کا ایک فرد بھی کامیاب نہیں ہونے دے گا کہ آج ہم باشعور ہیں، ایٹمی طاقت ہیں۔ تعلیم کے میدان میں دنیا کے شانہ بشانہ ہیں۔ آج عورت اور مرد مل کر وطن کی باگ دوڑ سنبھالنے کی قوت اور اہمیت کو جانتے ہیں۔ آج ہماری سرحدوں پہ کھڑا سپاہی شہروں میں بکھری پولیس فورس، سمندروں پہ راج کرتی نیوی اور آسمان کی بلندیوں پر پرواز کرتے ہمارے طیارے دشمن پہ کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے بڑھے ہوئے قدم شاید انہیں شہادت کی طرف لے جائیں مگر وہ دم بھر کو بھی نہ دشمن سے غافل ہوتے ہیں نہ رفتار سست کرتے ہیں۔
ہمیں اور ہماری قیادتوں کو تو فخر کرنا چاہیے کہ ہمارے پاس وہ جذبے اور جسم ہیں جن کو نہ کٹنے کا ڈر ہے نہ مرنے کا خوف.... ہماری تو مائیں اپنے عزیز بھٹی شہید، لالک جان شہید جیسے سپوت پیدا کرکے وطن کو ایک ستون عطا کرتی ہیں۔ ہماری تو بہنیں اپنی گود میں کیپٹن نجم، کیپٹن امجد اور گلباز جیسے بھائی پال کر وطن عزیز کو دن کر دیتی ہیں۔ ہماری درس گاہیں، ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے عالم و فاضل بنا کے ملک کو ایٹمی طاقت عطا کرتی ہیں۔ یہ سب قربانی کے وہ مرحلے ہیں یہ سب محبت، جوانمردی، جان فروشی کی منزلیں ہیں جنہیں ایک مسلمان ایک سپاہی، ایک مومن اور ایک عوام کا باشندہ وقت اور عمر کے ساتھ تہہ کرتا چلا جاتا ہے اور جب قربانی کا وقت آتا ہے تو قومیں قیادتوں اور وقت کی تمام ناانصافیوں اور ظلم و بربریت کے معاملات بھول جاتی ہیں اور وہ صرف ایک ”شہید کا پیغام“ ....”قوت اخوت عوام“ لے کے آگے بڑھتیں ہیں اور سبز پرچم میں اپنی شہادت کو لپیٹ کر وطن، اسلاف اور اپنے ایمان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لحد میں اتر جاتیں ہیں۔
oo