محی الدین بن احمد الدین
میں نے میاں اظہر سے رابطہ کر کے ضلع لاہور ہی کی دو سیٹوں سے انتخاب لڑنے کی بجائے ایک لاہور اور دوسرا ٹوبہ ٹیک سنگھ یا کسی ارائیں سیٹ سے الیکشن لڑنے کا مشورہ دیا، وہ چونکہ ”یقین محکم“ سے لبریز تھے لہٰذا انہوں نے مشورہ مسترد کر دیا۔ انتخابات کے انعقاد سے تین دن پہلے میں لاہور چلا گیا اور میاں اظہر سے فون پر رابطہ کر کے پوچھا اگر میری مدد کی ضرورت ہو تو لاہور میں ہوں۔ انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ”آپ جناب مجید نظامی سے قریب ہیں لہٰذا مستقبل میں آپ انہی کے حوالے سے مثبت کردار ادا کریں گے کیونکہ جناب نظامی بہت ہی مشکل آدمی ہیں۔“ میں سمجھ گیا کہ میاں اظہر خود کو وزیراعظم سمجھ بیٹھے ہیں، مَیں نے انہیں ایک ایسے فرد سے فوری دوستی کا مشورہ دیا جو میری نظر میں وزیراعظم کا امیدوار تھا ہی نہیں مگر انہوں نے جو بات کی اس سے تکبر کی بُو آ رہی تھی، میں سمجھ گیا کہ میاں اظہر نے اللہ تعالیٰ کو ناراض کر لیا ہے بھلا یہ اس سوچ کے ساتھ وزیراعظم کیسے بنیں گے؟ میرا یہ تجزیہ انتخابات سے صرف دو تین دن پہلے کا تھا پھر وہ انتخابات ہار چکے تھے اور ایک بہت بڑی غلطی یہ کر بیٹھے تھے کہ صوبائی سیٹ سے چوہدریوں کو خوش کرنے کی خاطر کاغذات واپس لے لئے تھے۔ گویا میاں اظہر عمداً ابتدائے عشق میں ہی ناکام ہو گئے تھے۔ ان واقعات سے سبق ملا کہ اسٹیبلشمنٹ جتنی بھی آپ کی مدد پر ہو مگر عہدہ اور منصب صرف اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حاصل نہیں ہو سکتا، یہ عزت و شرف صرف اللہ تعالیٰ کی عنایت سے بطور ادائیگی فرض عطا ہوتا ہے۔ ظفر اللہ جمالی کی وزارت عظمیٰ کے ابتدائی دنوں میں ہی چوہدریوں اور میاں اظہر میں اختلاف سامنے آ گیا اور یوں میاں اظہر کو بے بس ہو کر صدارت سے الگ ہونا پڑا۔ چوہدری شجاعت حسین صدر مسلم لیگ بن گئے پھر چوہدری شجاعت حسین اور وزیراعظم ظفراللہ جمالی میں لیگی عہدے کے حوالے سے اختلاف پیدا ہوا ان کی محبت میں کافی کمی بھی واقع ہوئی اور یہ سارے تماشے میں اپنی گوشے نشینی کے دنوں سے دیکھتا رہتا تھا۔ بعد میں میر ظفر اللہ جمالی کی وزارت عظمیٰ کے لئے بہت بڑا چیلنج ہمایوں اختر بن کر طلوع ہوئے ان کے اور صدر مشرف کے ارد گرد کے لوگوں کے حوالے سے کافی باتیں مشہور ہوئیں۔ ایک دن میں نے ازراہِ مذاق چٹھہ سے پوچھ لیا کہ اگر جمالی کے بعد ہمایوں اختر وزیراعظم بننا چاہیں گے تو کیا آپ رکاوٹ ڈالیں گے؟ انہوں نے سنجیدگی سے کہا کہ میں نے تو عہدہ لینا ہی نہیں ایسی صورت میں مجھے ہمایوں کی ہی حمایت کر دینی چاہئے کہ وہ مسلسل لیگی ایم این اے جو بنتا رہا ہے مگر ہمایوں اختر کی وزارت عظمیٰ کا راستہ روکنے کے لئے چوہدری برادران اور جمالی اکٹھے ہو گئے اور یوں جمالی سے وزارت کا جانا جب الم نشرح ہو گیا تو ہمایوں کی بجائے قرعہ فال چوہدری شجاعت اور پھر شوکت عزیز کے نام نکل آیا تھا۔ شوکت عزیز انتہائی خوشامدی اور تعلقات عامہ کے فن کو صدر مشرف کی ماں کی تعریف و توصیف میں استعمال کرتے کرتے اس فن کے استعمال سے جنرل پرویز مشرف کے پسندیدہ کردار بن گئے تھے یوں نہایت سنجیدگی سے مگر سادہ سے انداز میں وزارت عظمیٰ اُچک لی تھی۔ البتہ 11 ایم این اے چٹھہ کے گھر چل کر آئے تھے کہ چوہدری شجاعت کے وزارت عظمیٰ سے الگ ہونے کی صورت میں چٹھہ وزیراعظم بننے کی بات مان جائیں تو یہ 11 اراکین اسمبلی چٹھہ کو وزیراعظم بنوانے کے لئے تمام اراکین اسمبلی کے گھروں میں جائیں گے مگر چٹھہ نے حقیقت پسندی کا راستہ اپنایا اور اس ناممکن کام کو از خود اپنے لئے حرام کر لیا تھا جب چٹھہ کے جونیجو گروپ، پگارہ کی فنکشنل لیگ اور چوہدری شجاعت حسین کی ق لیگ میں ”انضمام“ ہوا تو میرے لئے یہ واقعہ بہت انوکھا تھا لہٰذا مَیں نے اس کی تفصیل سُننا چاہی جو وہ بہت ہی دلچسپ ہے۔ صدر مشرف نے سب کو بلوایا کہ اتحاد کر کے چلنا بہت ضروری ہو گیا ہے اگرچہ پگارا اور چٹھہ اپنے اپنے فارمولے ساتھ لے کر گئے تھے مگر صدر مشرف نے سینہ زوری دکھائی اور چوہدری شجاعت حسین کی قیادت سب پر مارشل لائی قانون کے تحت مسلط کر دی۔ یہ تھی کہانی جو اس لیگی اتحاد کا راستہ بنی تھی۔ اقتدار کے دنوں میں وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اور چٹھہ میں ان بن رہتی تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی چٹھہ کا راستہ بند کرنے میں معلوم نہیں کیوں اکثر پیشرفت کرتے رہتے تھے؟ یہ ہے مد و جزر عہد کی لیگی کہانی۔ ہاں چوہدری شجاعت حسین نے بُرے دنوں میں حمزہ شہباز کا پورا پورا خیال رکھا تھا یہ ان کی بہت بڑی وسیع النظری ہے۔ چوہدری شجاعت حسین کا دل بہت بڑا ہے اور وہ دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
میں نے میاں اظہر سے رابطہ کر کے ضلع لاہور ہی کی دو سیٹوں سے انتخاب لڑنے کی بجائے ایک لاہور اور دوسرا ٹوبہ ٹیک سنگھ یا کسی ارائیں سیٹ سے الیکشن لڑنے کا مشورہ دیا، وہ چونکہ ”یقین محکم“ سے لبریز تھے لہٰذا انہوں نے مشورہ مسترد کر دیا۔ انتخابات کے انعقاد سے تین دن پہلے میں لاہور چلا گیا اور میاں اظہر سے فون پر رابطہ کر کے پوچھا اگر میری مدد کی ضرورت ہو تو لاہور میں ہوں۔ انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ”آپ جناب مجید نظامی سے قریب ہیں لہٰذا مستقبل میں آپ انہی کے حوالے سے مثبت کردار ادا کریں گے کیونکہ جناب نظامی بہت ہی مشکل آدمی ہیں۔“ میں سمجھ گیا کہ میاں اظہر خود کو وزیراعظم سمجھ بیٹھے ہیں، مَیں نے انہیں ایک ایسے فرد سے فوری دوستی کا مشورہ دیا جو میری نظر میں وزیراعظم کا امیدوار تھا ہی نہیں مگر انہوں نے جو بات کی اس سے تکبر کی بُو آ رہی تھی، میں سمجھ گیا کہ میاں اظہر نے اللہ تعالیٰ کو ناراض کر لیا ہے بھلا یہ اس سوچ کے ساتھ وزیراعظم کیسے بنیں گے؟ میرا یہ تجزیہ انتخابات سے صرف دو تین دن پہلے کا تھا پھر وہ انتخابات ہار چکے تھے اور ایک بہت بڑی غلطی یہ کر بیٹھے تھے کہ صوبائی سیٹ سے چوہدریوں کو خوش کرنے کی خاطر کاغذات واپس لے لئے تھے۔ گویا میاں اظہر عمداً ابتدائے عشق میں ہی ناکام ہو گئے تھے۔ ان واقعات سے سبق ملا کہ اسٹیبلشمنٹ جتنی بھی آپ کی مدد پر ہو مگر عہدہ اور منصب صرف اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حاصل نہیں ہو سکتا، یہ عزت و شرف صرف اللہ تعالیٰ کی عنایت سے بطور ادائیگی فرض عطا ہوتا ہے۔ ظفر اللہ جمالی کی وزارت عظمیٰ کے ابتدائی دنوں میں ہی چوہدریوں اور میاں اظہر میں اختلاف سامنے آ گیا اور یوں میاں اظہر کو بے بس ہو کر صدارت سے الگ ہونا پڑا۔ چوہدری شجاعت حسین صدر مسلم لیگ بن گئے پھر چوہدری شجاعت حسین اور وزیراعظم ظفراللہ جمالی میں لیگی عہدے کے حوالے سے اختلاف پیدا ہوا ان کی محبت میں کافی کمی بھی واقع ہوئی اور یہ سارے تماشے میں اپنی گوشے نشینی کے دنوں سے دیکھتا رہتا تھا۔ بعد میں میر ظفر اللہ جمالی کی وزارت عظمیٰ کے لئے بہت بڑا چیلنج ہمایوں اختر بن کر طلوع ہوئے ان کے اور صدر مشرف کے ارد گرد کے لوگوں کے حوالے سے کافی باتیں مشہور ہوئیں۔ ایک دن میں نے ازراہِ مذاق چٹھہ سے پوچھ لیا کہ اگر جمالی کے بعد ہمایوں اختر وزیراعظم بننا چاہیں گے تو کیا آپ رکاوٹ ڈالیں گے؟ انہوں نے سنجیدگی سے کہا کہ میں نے تو عہدہ لینا ہی نہیں ایسی صورت میں مجھے ہمایوں کی ہی حمایت کر دینی چاہئے کہ وہ مسلسل لیگی ایم این اے جو بنتا رہا ہے مگر ہمایوں اختر کی وزارت عظمیٰ کا راستہ روکنے کے لئے چوہدری برادران اور جمالی اکٹھے ہو گئے اور یوں جمالی سے وزارت کا جانا جب الم نشرح ہو گیا تو ہمایوں کی بجائے قرعہ فال چوہدری شجاعت اور پھر شوکت عزیز کے نام نکل آیا تھا۔ شوکت عزیز انتہائی خوشامدی اور تعلقات عامہ کے فن کو صدر مشرف کی ماں کی تعریف و توصیف میں استعمال کرتے کرتے اس فن کے استعمال سے جنرل پرویز مشرف کے پسندیدہ کردار بن گئے تھے یوں نہایت سنجیدگی سے مگر سادہ سے انداز میں وزارت عظمیٰ اُچک لی تھی۔ البتہ 11 ایم این اے چٹھہ کے گھر چل کر آئے تھے کہ چوہدری شجاعت کے وزارت عظمیٰ سے الگ ہونے کی صورت میں چٹھہ وزیراعظم بننے کی بات مان جائیں تو یہ 11 اراکین اسمبلی چٹھہ کو وزیراعظم بنوانے کے لئے تمام اراکین اسمبلی کے گھروں میں جائیں گے مگر چٹھہ نے حقیقت پسندی کا راستہ اپنایا اور اس ناممکن کام کو از خود اپنے لئے حرام کر لیا تھا جب چٹھہ کے جونیجو گروپ، پگارہ کی فنکشنل لیگ اور چوہدری شجاعت حسین کی ق لیگ میں ”انضمام“ ہوا تو میرے لئے یہ واقعہ بہت انوکھا تھا لہٰذا مَیں نے اس کی تفصیل سُننا چاہی جو وہ بہت ہی دلچسپ ہے۔ صدر مشرف نے سب کو بلوایا کہ اتحاد کر کے چلنا بہت ضروری ہو گیا ہے اگرچہ پگارا اور چٹھہ اپنے اپنے فارمولے ساتھ لے کر گئے تھے مگر صدر مشرف نے سینہ زوری دکھائی اور چوہدری شجاعت حسین کی قیادت سب پر مارشل لائی قانون کے تحت مسلط کر دی۔ یہ تھی کہانی جو اس لیگی اتحاد کا راستہ بنی تھی۔ اقتدار کے دنوں میں وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اور چٹھہ میں ان بن رہتی تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی چٹھہ کا راستہ بند کرنے میں معلوم نہیں کیوں اکثر پیشرفت کرتے رہتے تھے؟ یہ ہے مد و جزر عہد کی لیگی کہانی۔ ہاں چوہدری شجاعت حسین نے بُرے دنوں میں حمزہ شہباز کا پورا پورا خیال رکھا تھا یہ ان کی بہت بڑی وسیع النظری ہے۔ چوہدری شجاعت حسین کا دل بہت بڑا ہے اور وہ دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔