سعد اللہ شاہ
”یہ کون بول رہا ہے خدا کے لہجے میں“۔ امریکہ کی رعونت اور تکبر اس کے لہجے سے عیاں ہے۔ نیٹو سربراہ نے دھمکی لگائی ہے کہ پاکستان نے نیٹو سپلائی بحال نہ کی تو شکاگو کانفرنس میں نہیں بلائیں گے۔ رسد کھولنے تک اسلام آباد کا افغان معاملے میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ یہ امریکہ کا وطیرہ ہے کہ کبھی ڈراتا ہے او رکبھی لالچ دیتا ہے کبھی دشمن بن کر وار کرتا ہے تو کبھی دوست بن کر ملال کرتا ہے۔ نائن الیون والی اس کی دھمکی کہ ”ہمارا ساتھ دو وگرنہ پتھر کے زمانے میں جانے کے لیے تیار ہو جاﺅ“ نے ایک بزدل اور طبلہ نواز جرنیل مشرف کو گھائل کر دیا۔ اس کے بعد پسپا ہوتے ہوئے دیوار سے جا لگے۔ امریکہ نے ہمارا جینا دو بھر کر دیا۔ ہماری مکمل خودسپردگی کے باوجود ہمیں معاف نہیں کیا گیا۔ مشرف رذیل نے اس وطن کی آبرو تک نیلام کر دی۔ تمام ذلت و خواری کے بعد بھی ہم پتھر کے زمانے میں پہنچ گئے۔ امریکہ نے پوری منصوبہ بندی کے بعد اپنی تازہ دم ٹیم پیپلز پارٹی کی صورت میں ہم پر مسلط کر دی۔ انہیں بدنام زمانہ غیر انسانی آرڈیننس کے تحت اس شرط پر قابل قبول بنایا گیا کہ وہ امریکہ کی پالیسیاں من و عن جاری رکھیں گے۔ پھر جو کچھ اس حکومت نے کیا وہ سنانے کے قابل بھی نہیں۔ لوٹ مار کہ توبہ توبہ ”مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا“ والا معاملہ ہوا۔ پہلی مرتبہ ہوا کہ پانچ نہیں دس انگلیاں گھی میں ڈال دی گئیں۔ وزیراعظم بیوی بچوں سمیت کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کرنے لگے۔ امریکہ کی آشیر باد سے ایسے بے باک ہوا کہ بار بار عدلیہ کی توہین کے مرتکب ہوا۔ سزا پائی مگر یہ ان کے گروہ میں تمغہ¿ امتیاز ٹھہرا۔ اس کابینہ نے انہیں اپنے حصار میں لے لیا جس کی ہر قرار داد کو امریکہ جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اکثریت جعلی ڈگریوں والی اور کرپٹ ہے۔ کوئی مانے نہ مانے توانائی کا بحران بھی حکومت اور امریکہ کے کسی خفیہ معاہدے کا حصہ ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو جی بھر کے اذیت دی جائے اور انہیں امریکہ دشمنی کا مزہ چکھایا جا سکے۔ اصل میں بجلی کا بحران نہیں یہ نیک اور وفادار رہنماﺅں کا بحران ہے۔ امریکہ کے کہنے پر اپنے نصاب سے قرآن کی آیات نکالنے والا مسلمانوں کا خیر خواہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ مسلم کشی میں جنونی ہو چکا ہے اور اس نے درندگی کی ساری حدود پھلاند لی ہیں۔
کیا اس کا حل یہ ہے کہ ہم اسے طاقتور اور منہ زور سمجھ کر روزانہ جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہیں۔ کیا اسے اجازت دے دی جائے کہ وہ نیٹو سپلائی کے بہانے اپنا جدید اسلحہ افغانستان پہنچا کر ہماری تباہی کا بندوبست کرے۔ کیا اسے کھلی چھٹی دے دیں کہ وہ ہمارے جوانوں کو موت کی نیند سلا دے۔ کیا نیٹو سپلائی کی بحالی اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف نہیں۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے جیسے ہمیں اللہ سزا دے رہا ہے کہ ہم چور ڈاکو منتخب کرکے ان سے ولی اور قطب جیسے رویے کی توقع رکھتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کو منتخب نہیں کرنا چاہتے جو زاہد خشک ہوں او رہمارے کام ہی رک جائیں کیونکہ خود میرٹ اور انصاف کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور دوسروں کے لیے ٹھیک سمجھتے ہیں۔ اور تو اور ہمارے بڑے سے بڑا وکیل بھی عدالت میں کہتا پایا گیا کہ گیلانی صاحب پیروں کی اولاد ہیں ان سے لہجہ نرم رکھا جائے۔ سید عبدالقادر جیلانی کی اولاد نے مدینتہ الاولیاءکو شہرِ کرپشن بنا دیا۔ حج تک کا شعبہ بدعنوانی سے نہ بچا۔ گیلانی صاحب دنیا کے پہلے سزا یافتہ وزیر اعظم ٹھہرے۔
امریکہ کو بھی پتہ چل چکا ہے کہ مسلمان اسے اپنا دشمن نمبر 1سمجھتے ہیں۔ اسی لیے اب وہ کھلم کھلا دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔ قرآن پاک کی بے حرمتی اس خبث باطن کا پتہ دیتی ہے۔ کیا تماشہ ہے کہ ایک امریکی اٹھتا ہے اور ایک مسلمان گھر کے تمام افراد کو بھون دیتا ہے اور امریکہ کی عدالت اسے جنونی بتاتی ہے او رکہتی ہے کہ وہ پریشان تھا گویا مسلمانوں کو قتل کرکے اس کی ساری پریشانی جاتی رہی۔ اب ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ ہمارے باشعور طبقے کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے وگرنہ دیر ہو جائے گی۔ وہ ان سیاست دانوں کو رد کر دیں جو ملک میں ابتری پھیلا رہے ہیں۔ جو عدلیہ کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ جو ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ جو نئے صوبوں کے نام پر پنجاب کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ جو خاندانی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ سیاست میں بھی باقاعدہ ایک ادارے کی ضرورت ہے۔ یہ بعد کی باتیں ہیں اس وقت ہر پاکستانی کو امریکہ کے خلاف اپنا نام رجسٹر کروانا چاہیے۔ ہم بھی کیا ہیں کہ اپنے قاتل سے دوستی کر رکھی ہے۔ حکمرانوں کی سنجیدگی دیکھیں۔ سزایافتہ وزیراعظم لاﺅ لشکر کے ساتھ برطانیہ میں عیش اڑانے چلا گیا ہے۔ پورا ملک تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس قدر ہنگامے ہو رہے ہیں کہ بجلی کے بحران پر صدر نے ہنگامی اجلاس بلا لیا ہے جسے چیف جسٹس نے انتظامی نظام کا بریک ڈاﺅن کہا۔ نوید قمر کہتا ہے کہ کسی ادارے کی نجکاری نہیں ہوگی۔ وہ تو کب کی ہو چکی۔ یہ سب کچھ آپ اپنا ذاتی ہی سمجھتے ہیں۔ ایک ایک بندہ پورا پورا محکمہ کھا گیا۔ بلور تو پورا ریلوے ہڑپ کر گیا۔ اے اللہ ہم پر رحم فرما ”آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں“۔ اللہ نے ہمیں سنہرا موقع عطا کیا ہے کہ ہم ثابت قدم رہ کر امریکہ سے جان چھڑا لیں۔ No or never ۔ اظہر درانی کا شعر یاد آگیا:
مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا
ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی
”یہ کون بول رہا ہے خدا کے لہجے میں“۔ امریکہ کی رعونت اور تکبر اس کے لہجے سے عیاں ہے۔ نیٹو سربراہ نے دھمکی لگائی ہے کہ پاکستان نے نیٹو سپلائی بحال نہ کی تو شکاگو کانفرنس میں نہیں بلائیں گے۔ رسد کھولنے تک اسلام آباد کا افغان معاملے میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ یہ امریکہ کا وطیرہ ہے کہ کبھی ڈراتا ہے او رکبھی لالچ دیتا ہے کبھی دشمن بن کر وار کرتا ہے تو کبھی دوست بن کر ملال کرتا ہے۔ نائن الیون والی اس کی دھمکی کہ ”ہمارا ساتھ دو وگرنہ پتھر کے زمانے میں جانے کے لیے تیار ہو جاﺅ“ نے ایک بزدل اور طبلہ نواز جرنیل مشرف کو گھائل کر دیا۔ اس کے بعد پسپا ہوتے ہوئے دیوار سے جا لگے۔ امریکہ نے ہمارا جینا دو بھر کر دیا۔ ہماری مکمل خودسپردگی کے باوجود ہمیں معاف نہیں کیا گیا۔ مشرف رذیل نے اس وطن کی آبرو تک نیلام کر دی۔ تمام ذلت و خواری کے بعد بھی ہم پتھر کے زمانے میں پہنچ گئے۔ امریکہ نے پوری منصوبہ بندی کے بعد اپنی تازہ دم ٹیم پیپلز پارٹی کی صورت میں ہم پر مسلط کر دی۔ انہیں بدنام زمانہ غیر انسانی آرڈیننس کے تحت اس شرط پر قابل قبول بنایا گیا کہ وہ امریکہ کی پالیسیاں من و عن جاری رکھیں گے۔ پھر جو کچھ اس حکومت نے کیا وہ سنانے کے قابل بھی نہیں۔ لوٹ مار کہ توبہ توبہ ”مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا“ والا معاملہ ہوا۔ پہلی مرتبہ ہوا کہ پانچ نہیں دس انگلیاں گھی میں ڈال دی گئیں۔ وزیراعظم بیوی بچوں سمیت کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کرنے لگے۔ امریکہ کی آشیر باد سے ایسے بے باک ہوا کہ بار بار عدلیہ کی توہین کے مرتکب ہوا۔ سزا پائی مگر یہ ان کے گروہ میں تمغہ¿ امتیاز ٹھہرا۔ اس کابینہ نے انہیں اپنے حصار میں لے لیا جس کی ہر قرار داد کو امریکہ جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اکثریت جعلی ڈگریوں والی اور کرپٹ ہے۔ کوئی مانے نہ مانے توانائی کا بحران بھی حکومت اور امریکہ کے کسی خفیہ معاہدے کا حصہ ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو جی بھر کے اذیت دی جائے اور انہیں امریکہ دشمنی کا مزہ چکھایا جا سکے۔ اصل میں بجلی کا بحران نہیں یہ نیک اور وفادار رہنماﺅں کا بحران ہے۔ امریکہ کے کہنے پر اپنے نصاب سے قرآن کی آیات نکالنے والا مسلمانوں کا خیر خواہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ مسلم کشی میں جنونی ہو چکا ہے اور اس نے درندگی کی ساری حدود پھلاند لی ہیں۔
کیا اس کا حل یہ ہے کہ ہم اسے طاقتور اور منہ زور سمجھ کر روزانہ جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہیں۔ کیا اسے اجازت دے دی جائے کہ وہ نیٹو سپلائی کے بہانے اپنا جدید اسلحہ افغانستان پہنچا کر ہماری تباہی کا بندوبست کرے۔ کیا اسے کھلی چھٹی دے دیں کہ وہ ہمارے جوانوں کو موت کی نیند سلا دے۔ کیا نیٹو سپلائی کی بحالی اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف نہیں۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے جیسے ہمیں اللہ سزا دے رہا ہے کہ ہم چور ڈاکو منتخب کرکے ان سے ولی اور قطب جیسے رویے کی توقع رکھتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کو منتخب نہیں کرنا چاہتے جو زاہد خشک ہوں او رہمارے کام ہی رک جائیں کیونکہ خود میرٹ اور انصاف کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور دوسروں کے لیے ٹھیک سمجھتے ہیں۔ اور تو اور ہمارے بڑے سے بڑا وکیل بھی عدالت میں کہتا پایا گیا کہ گیلانی صاحب پیروں کی اولاد ہیں ان سے لہجہ نرم رکھا جائے۔ سید عبدالقادر جیلانی کی اولاد نے مدینتہ الاولیاءکو شہرِ کرپشن بنا دیا۔ حج تک کا شعبہ بدعنوانی سے نہ بچا۔ گیلانی صاحب دنیا کے پہلے سزا یافتہ وزیر اعظم ٹھہرے۔
امریکہ کو بھی پتہ چل چکا ہے کہ مسلمان اسے اپنا دشمن نمبر 1سمجھتے ہیں۔ اسی لیے اب وہ کھلم کھلا دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔ قرآن پاک کی بے حرمتی اس خبث باطن کا پتہ دیتی ہے۔ کیا تماشہ ہے کہ ایک امریکی اٹھتا ہے اور ایک مسلمان گھر کے تمام افراد کو بھون دیتا ہے اور امریکہ کی عدالت اسے جنونی بتاتی ہے او رکہتی ہے کہ وہ پریشان تھا گویا مسلمانوں کو قتل کرکے اس کی ساری پریشانی جاتی رہی۔ اب ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ ہمارے باشعور طبقے کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے وگرنہ دیر ہو جائے گی۔ وہ ان سیاست دانوں کو رد کر دیں جو ملک میں ابتری پھیلا رہے ہیں۔ جو عدلیہ کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ جو ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ جو نئے صوبوں کے نام پر پنجاب کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ جو خاندانی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ سیاست میں بھی باقاعدہ ایک ادارے کی ضرورت ہے۔ یہ بعد کی باتیں ہیں اس وقت ہر پاکستانی کو امریکہ کے خلاف اپنا نام رجسٹر کروانا چاہیے۔ ہم بھی کیا ہیں کہ اپنے قاتل سے دوستی کر رکھی ہے۔ حکمرانوں کی سنجیدگی دیکھیں۔ سزایافتہ وزیراعظم لاﺅ لشکر کے ساتھ برطانیہ میں عیش اڑانے چلا گیا ہے۔ پورا ملک تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس قدر ہنگامے ہو رہے ہیں کہ بجلی کے بحران پر صدر نے ہنگامی اجلاس بلا لیا ہے جسے چیف جسٹس نے انتظامی نظام کا بریک ڈاﺅن کہا۔ نوید قمر کہتا ہے کہ کسی ادارے کی نجکاری نہیں ہوگی۔ وہ تو کب کی ہو چکی۔ یہ سب کچھ آپ اپنا ذاتی ہی سمجھتے ہیں۔ ایک ایک بندہ پورا پورا محکمہ کھا گیا۔ بلور تو پورا ریلوے ہڑپ کر گیا۔ اے اللہ ہم پر رحم فرما ”آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں“۔ اللہ نے ہمیں سنہرا موقع عطا کیا ہے کہ ہم ثابت قدم رہ کر امریکہ سے جان چھڑا لیں۔ No or never ۔ اظہر درانی کا شعر یاد آگیا:
مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا
ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی