رمضان اور ہم 

Mar 14, 2025

مسرت قیوم

لندن سج گیا۔ آمد رمضان المبارک کی خوشی میں میئر لندن نے ’’رمضان لائٹس‘‘ کا افتتاح کیا۔ بقول ’’صادق خان‘‘ لندن مغربی دنیا کا پہلا شہر ہے جہا ں رمضان لائٹس لگائی جاتی ہیں۔ یہ تیسرا سال ہے۔ قارئین ایک غیر مسلم ملک میں مقامی کمیونیٹیز کو اسلام کے متعلق سچ ، آفاقی حقائق کی آگاہی دینے کا جاندار ، منفرد طریقہ۔ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی یورپ ، امریکہ وغیرہ میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں نمایاں رعایات ، کمی کے لیبل چسپاں کر دئیے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے متعلق جتنا تعصب اْن کی مقامی شہری آبادیو ں میں پایا جاتا ہے اْن کا خمیازہ سال بھر مسلمان بھگتتے رہتے ہیں کِسی نہ کِسی شکل میں۔وہ ہر حال میں متعصب ہیں مگرا حترام اور تعصب کا فرق جاننے کیلئے غیر مسلم ممالک پہلی فہرست میں آتے ہیں۔ مغربی معاشروں کی یہی خوبی ہے کہ وہ مسلمانوں کے اسلامی ایام اور رتہواروں کا احترام کرتے ہیں۔ انسانی وجود کی سب سے بڑی ضرورت بھوک۔پیٹ کی طلب مٹانا ہے۔لازمی غذائی اشیاء کی قیمتوں میں نمایاں کمی۔ خصوصی سٹالز کا قیام عملی احترام کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔رمضان کریم برکتوں‘ سعادتوں والا مہینہ۔ خوشیوں بھرے تہوار کی آمد۔ ماہ مقدس کی نعمتوں۔انعامات کا شمار کرنا کسی ذی نفس کیلئے ممکن نہیں۔ یہ راز ہیں جو صرف’’ خالق کائنات ذی شان ‘‘کے علم میں ہے۔ بہت بڑا اجر جس کا احاطہ علم صرف’’اصل۔سچے مالک‘‘ کے قبضہ قدرت میں ہے۔
ایک گارنٹی شدہ بہت عظیم اجر کے حصول کیلئے ہماری کوششیں رمضان سے دو ہفتہ قبل ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ جو چند دن پہلے عروج پر دکھائی دیتی ہیں۔ کیا ہیں ہماری کوششیں جانئیے۔ پھلوں کی قیمت میں ’’100 سے300 ‘‘ تک اضافہ ہو چکا تھا۔ ماہ مبارک کا نزول ہونے سے پہلے ہی اِس مہینہ کی برکات۔ثمرات سمیٹنے کے لیے ہر طبقہ نے پوری تیاری کر رکھی تھی۔ تاجر حضرات نے ریٹ بڑھا کر ثواب دارین کمانے میں وکٹری ٹرافی حاصل کر لی تو ’’ذخیرہ اندوزوں ‘‘ نے گودام اجناس سے بھر کر قوم کو بھوک سے مرنے سے بچا لیا۔فیکٹری والے بھی پیچھے نہیں رہے۔ سال میں ’’12 مہینے‘‘ ہی تو ہوتے ہیں۔ اِ س ماہ میں برکات کا حصول بقیہ ’’11 مہینوں‘‘ پر سبقت لیجاتا ہے۔ کوئی شعبہ پیچھے کی طرف نہیں جاتا۔ چینی ’’124 ‘‘ سے ’’155 - 160 ‘‘ تک جا پہنچی۔ انڈے چند دن میں 230 سے 272 پر آچکے تھے۔’’بیسن‘‘ 300 سے زائد تک فروخت ہوتا رہا۔ اب سبزی۔فروٹ والے بھلا خود کو اسلامی منافع سے کیوں محروم رکھتے۔ سیب 300۔آلو200۔ کینو500 روپے فی درجن۔ اب حالیہ ایام کے تازہ دام سب بخوبی جانتے ہیں۔ سرکاری نرخ تجارتی مراکز کی دیواروں پر ٹنگے ہیں۔ جنوری میں فی لٹر آئل کی قیمت 501 روپے تھی جو آمد رمضان سے دو مہینے پہلے ’’566 روپے‘‘ ہو چکی تھی۔ چھوٹا گوشت۔ چکن کی قیمتوں کا ذکر محض سیاہی ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ہر وہ عام شخص جو منہ اور پیٹ رکھتا ہے وہ اپنی تکالیف۔اپنی طلب اور تجارتی سامان کے اْتار چڑھائو کو کسی بھی ’’معاشی ماہر‘‘ سے زیادہ جانتا ہے۔’’نان فوڈ آئٹمز‘‘ کی قیمتیں بھی بہت بڑھ چکی ہیں۔ پٹرول کی قیمت میں قابل ذکر کمی کی توقع میں صرف ’’50 پیسے فی لٹر‘‘ کمی نے عوام کی آنکھیں چندھیا دیں اور خوشی اتنی کہ اس مرتبہ کسی بھی طرف سے صدائے احتجاج یا مزید کمی کی آواز سْنائی نہیں دی۔رمضان خور قوم کے ساتھ اچھا سلوک ہونا بھی نہیں چاہیے۔ مہنگائی میں کمی کے دعوے اپنی جگہ ’’ادارہ شماریات‘‘ کے اعدادوشمار اپنے وزن میں بھاری۔معیشت کی ترقی۔سمت درست ہونے کی خوشخبریوں میں انتہائی اہم سوال۔ فوائد جا کدھررہے ہیں؟؟ ثمرات عوام تک منتقل کیوں نہیں ہو پارہے؟؟ ’’2024 ‘‘ کو ’’2023 ‘‘ سے بڑھ کر مہنگائی نے نگل لیا۔ اِسکے باوجود ہم اب بھی منتظر ہیں۔ اْمید باندھے بیٹھے ہیں کہ ضرور حکومتی ریلیف اپنی اصل صورت میں ہم تک پہنچے گا۔ اصل سوال یہ ہے کہ خود عوام اپنے ہم وطن شہریوں کو کسقدر ریلیف پہنچانے میں ممدومعاون ہیں یا سب سے بڑی رکاوٹ ؟؟ آخری نکتہ زیادہ قابل غور ہے۔ ’’مینو فیکچررز‘‘ سے لیکر ’’صارف ‘‘ تک عوام ہی ہیں۔ 
ہم کِسی نہ کِسی شکل میں موجودہ مسائل کے بڑے اہم کردار بن چکے ہیں۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے حکومتی اقدامات قابل تحسین ہیں تو دیکھا جائے خود ہم اپنی ’’ساختہ اشیاء‘‘کو کن نرخوں پر اور کس معیار میں دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ ہر پاکستانی مہنگی چیز بیچتا ہے تو بدلہ میں مہنگی پروڈکٹ خریدتا ہے۔(اِس موضوع پر قارئین میرے شائع شدہ کالمز پڑھ سکتے ہیں)۔ خیرات۔ صدقات کے ضمن میں دنیا میں معروف ’’قوم‘‘ اپنے ہم وطنوںکو حقیقی ریلیف دینے کی بجائے اپنے مال کی لازمی ادائیگی ’’زکوٰۃ‘‘ دینے میں زیادہ پْر جوش ہے۔ چلئے ’’11 ماہ‘‘ نہ سہی صرف اِسی مہینہ میں اپنا منافع جائز رکھ کر بقیہ اپنے پاکستانی بھائیوں کو پہنچا دیا کریں تو کتنی بڑی معاشی تبدیلی رونما ہو جائے۔ تصورکریں۔ عوام کا عوام پر زیادہ حق ہے کہ باہم سْکھ۔چین کی زنجیر بنیں نا کہ ملاوٹ زدہ۔باسی مال کی شکل۔عوام کے حالات حکومت کے دعوئوں اور معاشی ماہرین کے تجزیوں، و اندازوں سے یکسر مختلف ہیں۔ جب عام آدمی کی قوت خرید کمزور ہو گئی ہوتو معیشت سکڑتی ہے بڑھتی نہیں۔ میرے نزدیک اصل تصویر وہی ہے جو گلی۔محلوں کی کریانہ دوکانوں پر اشیاء خریدتے وقت درپیش ہوتی ہے۔ گندم کی پیداوار کم ہونے کے نقصانات الگ سے بْرے نتائج پیدا کریں گے۔ گھریلو دہلیز سے کھیت۔کھلیان تک جو حقائق عام آنکھ دیکھتی ہے وہ اصل سچ ہے۔جس کی ’’جیب‘‘ سے پیسہ نکلا۔اْس نے کتنا روپیہ دوکاندار کو دیا۔اْس کے عوض کتنا سامان ملا ہے۔یہ ہے معروضی سچ۔ 
2024 ی مڈل کلاس کا درجہ 2025 میں بڑھایا وہ اپنی سطح سے مزید نیچے چلی گئی۔ غریب طبقہ کی تو بات نہیں کرتی کیونکہ جن لوگوں نے ہمیشہ مانگ تانگ کر گزارہ کیا ہو وہ محنت کے تصور سے بہت دْور ہیں۔ یہ طبقہ نسل در نسل بھیک ،مدد کو اپنا پیشہ بنائے ہوئے ہے۔آپ لاکھ جتن کر لیں کوئی بھی مزدوری کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ مخصوص علاقے۔مخصوص خاندان۔مخصوص پیشہ۔کبھی بھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔ روزی کے لحاظ سے سب سے آسان پیشہ ’’مانگنا‘‘ ہے۔ بدقسمتی سے سب سے منحوس عادت تقریباً ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور اِس سے بڑی بد نصیبی نہیں ہو سکتی کہ معاشرے کو لمحات میں کھاتے عوامل کے باوجود ہم اپنی عادات۔رویے۔سوچ بدلنے پر عمل تو کیا ؟ سوچنا بھی نہیں چاہتے۔ہر محلے۔شہر میں سڑکوں‘ پارکوں میں دستر خوان بچھے ہیں۔ روزہ دار اور روزہ خور سبھی مفت طعام سے لطف اندوز ہوتے نظر آئیں گے۔ دکھاوا۔ تشہیرکی انتہا ہے۔عزت نفس کی پامالی کے مناظر۔کِسی کا بھی دل بْرا نہیں کرتے دلوں میں میں نرمی نہیں وحشت کے سائے ہیں کہ یہ سائے ہم سب کو گھیرے ہوئے ہیں صرف اور صرف سچی توبہ سے ہم ان سے نجات پا سکتے ہیں۔اپنے شہریوں کی مدد۔حقیقی تعاون کے جذبات میں ان سایوں کو بھگا دینے پر قدرت رکھتے ہیں۔

مزیدخبریں