جمعرات ‘ 6؍ رجب المرجب ‘ 1440ھ‘ 14؍ مارچ 2019ء
قائمہ کمیٹی نے شراب پر پابندی کا آئینی ترمیمی بل مسترد کر دیا
لگتا ہے انگورکی بیٹی کی مخالفت ہمارے بڑے ایوان کے ممبران کو منظورنہیں ۔ اس لیے رمیش کمار کی میکدے کی فضا خراب کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی جو شور مچا کر باقی رندان خرابات کی بے خودی میں خلل ڈالنے کے درپے تھے۔ ان کی طرف سے اپنی برادری کو شرابی کی تہمت سے بچانے کی یہ کوشش بھی ناکام رہی۔ ورنہ وہ باقی راندوں کی طرح کہہ سکتے تھے۔
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
مگر وہ اصرار کر رہے ہیں کہ غیر مسلموں میں بھی شراب حرام ہے اس لیے ہمارے نام پرپرمٹ جاری نہ کیے جائیں۔ ایک اوراقلیتی رکن شنیلہ روتھ نے تو یہ کہہ کر بھریامیلہ لوٹ لیا کہ شراب پرمٹ بوٹا مسیح لیتا ہے اور شراب محمد بوٹا پیتا ہے۔ اب اس سچ کے بعد تو ڈوب مرنا چاہئے‘ اس بل کی مخالفت کرنے والوںکو مگر وہ تو
شکن نہ ڈال جبیں پر شراب دیتے ہوئے
یہ مسکراتی ہوئی چیز مسکرا کے پلا
کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ بل مسترد کرانے والوں کاکہنا ہے کہ شراب تو پہلے ہی ملک میں ممنوع ہے۔ اب اس میں مسلم ، غیر مسلم کی تفریق کے نام پر سیاسی ڈرامہ بازی کی جا رہی ہے۔ یہ لوگ ہندو ہوں، عیسائی ، سکھ یا پارسی کسی کے پرمٹ پر بھلا کیسے اعتراض کر سکتے ہیں۔ ان کا تو ذات پات پر یقین ہی نہیں ہوتا یہ تو
پلا دے اوک سے ساقی جو مجھ سے نفرت سے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے ‘ شراب تو دے
والی حالت پر پہنچ چکے ہیں۔ یہ مخالفت نہ کرتے تو اورکیا کرتے۔
٭٭٭٭
جمشید دستی لا کے تمام پرچوں میں فیل
اب تو یقین آنے لگا ہے کہ جمشید دستی کی بی اے کی ڈگری مشکوک ہونے کی اطلاعات کسی نہ کسی حد تک ضرور درست تھیں۔ کیونکہ جو شخص تمام پرچوں میں فیل ہو تو اس کی نالائقی ہی نہیں پچھلی ڈگریوں پر بھی شکوک و شبہات بڑھ جاتے ہیں کہ وہ کس طرح حاصل کی گئی ہیں۔ اب یہی کچھ جمشید دستی کے حوالے سے ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پہلے تو وہ الیکشن میں چاروں شانے چت ہوئے۔ علاقے کے بے وفا لوگوں نے ان کی سابقہ خدمات جن میں سرکاری پٹرول گوداموں کے پائپوں سے تیل چوری کرنے والی بھرپور سرپرستی اور پارلیمنٹ لاجز سے خالی بوتلوں کو جمع کرنے کا کاروبار سرفہرست ہے‘ کی بھی قدر نہیں کی۔ اسے فراموش ہی کر دیا۔
الیکشن میں ہارنے کے بعد انہیں خود ہی سمجھ لینا چاہئے تھا تا کہ ان کے ستارے گردش میں ہیں۔ ان کی اس بار کہیں بھی کامیابی کی امید نہیں۔ مگر وہ شاید قدرت کا اشارہ سمجھنے میں غلطی کر گئے اور اپنی من مانی کرتے ہوئے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کی ٹھان لی اور امتحان دے بیٹھے۔ جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ایک دو نہیں وہ تمام پرچوں میں اس طرح فیل ہوئے ہیں جس طرح پانڈو چوسر کی بساط پر تاج و تخت ہارے تھے۔ ان کا لا کوٹ پہن کر کوئی نیا دھندا شروع کرنے کا خواب ہی ادھورا رہ گیا ہے۔
٭٭٭٭٭
راجستھان میں بھارتی فوجیوں کی تصاویر والی ساڑھیوں کی فروخت
اب بھلا ان حرکات سے کیا بھارتی فوجیوں کا مورال بلند ہو سکتا ہے جو دو طیارے مار گرانے کے ساتھ ہی خود بخود گر کر خاک میں مل گیا ہے۔ ویسے پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے کے بعد جس طرح بھارت نے منہ کی کھائی ہے۔ اس کے بعد تو بھارتی سینا کو اب فوجی وردی کی بجائے ساڑھی ہی پہننا چاہئے۔ راجستھان میں جس طرح کھلے عام بازاروں میں بھارتی فوجیوں کی تصاویر سے مزین ساڑھیاں بک رہی ہیں۔ بھارتی الیکشن کمشن نے پوسٹر پر فوجیوں کی تصویریں لگانے سے روکا تو بھارتی ساہوکاروں نے کمائی کا نیا ذریعہ ڈھونڈ لیا۔ آج تک یہ تو دیکھا تھا کہ کسی کو بزدلی پر شرمندہ کرنے کے لیے چوڑیاں پیش کی جاتی ہیں۔ مگر اب یہ نیا ٹرینڈ بن جائے گا کہ اس کی تصویر والی ساڑھی اسے تحفے میں بھیجی جائے گی۔ خطرہ ہے کہیں خود بھارتی فوجی بھی اپنی اس طرح بے عزتی پر غصے میں نہ آ جائیں اور ان ساڑھیوں کے آئیڈیا اور فروخت کو بھی کسی دشمن پاکستان کی سازش نہ قرار دے دیں، کیونکہ اس وقت بھارت میں جہاں بھی کوئی عقل سلیم رکھنے والا بھارتی حکومت اور بھارتی فوج کی احمقانہ پالیسیوں کے خلاف بات کرتا ہے اسے فوراً یہ سیاسی مسخرے اور سہمے ہوئے فوجی جرنیل ہی نہیں میڈیا میں بھانڈوں کی نقالی کرنے والے اینکر پرسن بھی ملک دشمن اور پاکستان کا ایجنٹ قراردے دیتے ہیں۔ اب کہیں راجستھان میں عورتیں یہ فوجیوں کی تصاویر والی ساڑھیاں پہن کر خود کو ’’ناری سینا‘‘ نہ سمجھ بیٹھیں۔ پھر ان کا اگلا مطالبہ یہی ہو گا کہ فوجیوں کی جگہ انہیںمحاذ پر بھیجا جائے۔
٭٭٭٭٭
قبائلی علاقوںمیں جیلوں کے قیام کی منظوری دیدی گئی
یہ تو وہی ’’اڑنے نہ پائے تھے کہ نہ گرفتار ہو گئے‘‘ والی بات لگ رہی ہے۔ ہماری حکومت خواہ کوئی بھی ہو وہ پکڑ دھکڑ کے نظام کے قیام میں پھرتی دکھانے میں جواب نہیں رکھتی۔ حکومتوں کی طرف سے اچھا جمہوری نظام ہو یا اسلامی نظام کادعویٰ ان کا مطلب حکمرانوں نے یہی لیا کہ سزائوں پر زیادہ توجہ دی جائے تاکہ لوگ سہم جائیں۔ سر اٹھا کر چلنے کی بجائے سر جھکانے میں ہی غنیمت جانیں۔ سو یہی رسم آج تک جاری ہے۔ کسی بھی نظام کی بات کرے اس کا مقصد عوام کو فائدہ دینا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کا مقصد خوف اور جبر دلانا تصور کر لیا گیا ہے۔ اب فاٹا کو ہی دیکھ لیں ۔ کچھ عرصہ قبل انہیں صوبہ خیبر پی کے میں ضم کر دیا گیا۔ اب ہونا تو یہ چاہئے کہ وہاں کے عوام کو جمہوریت کے فوائد سے بہرہ مند کا جاتا ۔ جدید دور کے ثمرات سے اچھی حکمرانی سے فائدہ پہنچایا جاتا ۔ وہاں عدالتوں کے قیام کے ساتھ ہی جیلوںکے قیام کی منظوری دیدی گئی۔ بھئی انہیں جمہوریت سے نئی آشنائی کا کچھ تو صلہ دیں۔ ان کی خوشحالی کے لیے کام کریں۔ یکدم انہیں جیلوں کی راہ تو نہ دکھائیں ایسا کیا تو وہ کیا سوچیں گے۔ انہیں تو اپنا پہلا آزادانہ نظام حیات ہی یاد آئے گا۔ اطلاع ہے کہ وہاں موجود لاک اپ جنہیں حوالات کہہ سکتے ہیں انہیں فی الحال فوری طور پر سب جیل کا درجہ دیا گیا ہے۔ اب وہاں کے لوگ تو ان جیلوں کوہی جمہوریت کا پہلا ثمر سمجھیں گے۔ یوں اس بے چاری نئی نویلی دلہن کو ہر طرف سے گالیاں ہی پڑیں گی۔ اب خیبر پی کے حکومت کا فرض ہے کہ وہ فاٹا والوں کو ذرا جمہوری نظام کے شریں پھل سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیں تاکہ انہیں اس جبر اور گھٹن کے خاتمہ کا احساس ہو جو وہاں صدیوں سے رائج تھا۔
٭٭٭٭٭