جنوبی ایشیا کے مستقل طور پر خراب حالات پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو سب سے اہم فیکٹر جو حالات کی خرابی کا ذمہ دار نظر آتا ہے وہ امریکہ کی بہ نفس نفیس یہاں موجودگی ہے۔ تو پہلا سوال جو سامنے آتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں کیوں بیٹھا ہے ؟ کیا امریکہ کو واقعی افغانوں سے اتنا پیار ہو گیا ہے کہ وہ ان کی خدمت کے لئے یہاں موجود ہے؟وہ سولہ سالوں سے یہاں اپنی فوج سمیت موجود ہے۔ صرف اپنی فوج ہی نہیں بلکہ نیٹو کی فوج بھی ساتھ لے آیاجس کی افغان فوج سے بھی تعداد زیادہ تھی۔دنیا کا بہترین ہوائی بیڑہ یہاں موجود رہا اور سب سے تکلیف دہ امر یہ کہ دنیا کے جدید اور خطرناک ترین ہتھیار یہاں استعمال کئے گئے اور اب تک ہو رہے ہیں۔عام بم تو چھوڑیں تمام ’’بموں کی ماں‘‘ تک کو استعمال کر ڈالا جو اب تک کہیں استعمال نہیں ہوا۔ اپنی فوج کے 23سو آدمی مروا چکا ہے۔ اس جنگ میں ٹر یلین ڈالر خرچ کر چکا ہے اور 70ارب ڈالرز سالانہ کے حساب سے خرچ کر رہا ہے۔آخر افغانستان پر اتنی مہربانی کیوں؟بہانہ یہ ہے کہ افغانستان میں امن قائم کرنا ہے کیونکہ افغانستان کو طالبان سے خطرہ ہے۔کتنی شرمناک سوچ ہے۔بوداسا بہا نہ ہے۔ امریکہ یہ کیوں نہیں سوچتا کہ طالبان افغانستان کے اپنے شہری ہیں اور اپنے ملک کو غیر ملکیوں سے پاک چاہتے ہیں۔کسی کی غلامی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ افغانیوں کا حق ہے کہ وہ جس طرح کا نظام حکومت چاہیں اپنے ملک میں قائم کریں۔ امریکہ کون ہوتا ہے انہیں زبردستی ڈکٹیٹ کرنے والا۔ اگر امریکہ کو پسے ہوئے عوام کو آزاد کرا نے کا اتنا ہی شوق ہے تو کشمیریوں کو بھارت کے زبردستی اور ظالمانہ قبضے سے کیوں آزاد نہیں کراتا؟خالصتانیوں، روہنگیا، ناگالینڈ یا فلسطینیوں کی حمایت کیوں نہیںکرتا؟نہیں امریکہ کی ظاہری بہانہ بازی محض دنیا کو بیوقوف بنانے کے لئے ہے۔ جیسا پرانے لطیفے کے مطابق بنیے کی ماں گری تھی تو اس نے کلاسک فقرہ کہا تھا: ’’اماں گری ہے تو کسی مقصد کے لئے گری ہو گی۔ اماں ایسے نہیں گر سکتی‘‘۔ امریکہ اس وقت بنیئے کی ماں بنی ہوئی ہے۔ وہ افغانستان میں جو اتنا خرچ کررہا ہے ۔سترہ سالوں سے جنگ لڑ رہا ہے۔ اپنے سولجرز مروا رہا ہے۔ یہ یقیناً افغانوں کی آزادی یا محبت کے لئے نہیں۔ امریکہ افغانوں کو مستقل طور پر اپنے شکنجے میں جکڑ کر یہاں مستقل قیام کرنا چاہتا ہے۔یہ بچگانہ سوچ ہے کہ امریکہ یہاں امن قائم کرکے واپس چلا جائے گا جو ممکن ہی نہیں۔
امریکہ کے یہاں مستقل قیام کے واضح مقاصد ہیں۔ امریکہ کے یہاں تین بڑے مقاصد ہیں۔اول یہ کہ ایشیا کے اس حصے میں چین اور روس جیسی طاقتیں موجود ہیں۔ امریکہ کو روس نے ویت نام میں مروایا اور بے عزت کر کے وہاں سے نکلوا یا۔ امریکہ نے اس کا بدلہ افغانستا ن میں لیا اور روس کو بے عزت کر کے یہاں سے نکلوایا۔اب امریکہ اس بات سے خائف ہے کہ روس اس کا بدلے گا۔ اگر امریکہ یہاں سے چلا جاتا ہے تو یہ سارا علاقہ روس کے زیر اثر آجائے گا اور یہاں دنیا کے خطرناک ترین دہشتگرد گروہ موجود ہیں جنہیں استعمال کر کے روس امریکی مفادات کی دھجیاں اڑا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں چین دنیا میں تیزی سے ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب چین’’ون بیلٹ ون روڈ پالیسی کے تحت اوربحیرہ جنوبی چین ‘‘ میں امریکی مفادات کو چیلنج کرے گا۔ لہٰذا امریکہ ان دونوں ممالک کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خوفزدہ ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ سارا خطہ مسلمان ممالک پر مشتمل ہے۔ امریکہ اگر یہاں سے نکلتا ہے تو یہاں طالبان کی حکومت قائم ہو گی اور طالبان پرو پاکستان اور انٹی بھارت ہیں۔ لہٰذا بھارت کو بھی یہاں سے بوریا بستر سمیٹ کر نکلنا پڑے گا اور وہ جو پاکستان میں دہشتگردی پھیلا کر عدم استحکام پھیلا رہا ہے وہ سب کچھ ختم ہو جائیگا۔اقتصادی راہداری مکمل ہو جائے گی اور ایٹمی پاکستان ایک مضبوط اور مستحکم ملک کے طور پر سامنے آئیگا۔ہنود اور یہود کی پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنے کی حسرت دل میں ہی رہ جائے گی۔ ایک مضبوط، مستحکم اور معاشی طور پر آزاد ایٹمی پاکستان مسلمان دنیا کا لیڈر بن سکتا ہے۔ تیسرا بڑا خوف یہ ہے کہ چونکہ یہ سارا خطہ مسلمان ممالک پر مشتمل ہے۔ ایران پہلے ہی امریکہ کے خلاف ہے۔افغانستان میں طالبان کی حکومت بھی پرو امریکہ نہیں ہو سکتی۔ امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کے بعد پاکستان بھی پرو امریکہ نہیں رہے گا۔ لہٰذا یہ پورا خطہ ایک طاقتور مسلم بلاک کے طور پر ابھرے گا جو امریکہ اور یورپ کی استعماری قوت پاش پاش کر دے گا اور پھر سب سے اہم بات افغانستان کی معدنی دولت بھی ہے جو تاحال ’’ان ٹچڈ‘‘(Un touched) ہے۔ بھارت اور امریکہ دونوں کی نظریں اس دولت پر ہیں۔ لہٰذا امریکہ یہاں سے کبھی نہیں جائے گا اور نہ بھارت اسے جانے دے گا۔
امریکہ افغانستان میں مستقل قیام کا جواز بنانے کے لئے بڑی خطرناک گیم کھیل رہا ہے اور نشانہ مسلمان ممالک ہیں۔ ترکی مسلمانوں میں ایک ترقی یافتہ ملک شمار ہوتا ہے۔ وہاں پہلے انقلاب لانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش ناکام ہو گئی۔ اب ترکوں کو کردوں کے خلاف شام میں لڑا دیا ہے جس کا نتیجہ یقیناً علاقے کی تباہی و بربادی ہے۔ دونوں طرف سے مرنے والے مسلمان ہیں۔ایران کو پہلے تو جوہری معاہدہ منسوخ کرنے کی دھمکی دی گئی ۔جب وہ کوشش ناکام ہوئی تو اسے ایک طرف تو چاہ بہار کا معاہدہ کر کے بھارت کے چنگل میں پھنسا دیا گیا اور دوسری طرف سعودی عرب اور اسرائیل مخالفت میں کھڑے کر دئیے۔ دونوں مسلمان ملک(ایران اور سعودی عرب) اپنی تیل کی دولت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر اڑائیں گے اور یوں ایک تو شیعہ سنی فساد بڑھے گا اور دوسرا معاشی ترقی رک جائے گی۔ اب ایران کا بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ بھی طے ہو گیا ہے جس میں دونوں ممالک مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے اور ہم جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے حوالے سے بھارت کا نشانہ کونسا ملک ہوتا ہے۔ پاکستان کو بھی سبز باغ دکھا کر فوج سعودی عرب بھجوا دی گئی ہے جو ایران اورپاکستان کے تعلقات میں چپقلش کاباعث بن سکتی ہے۔ جہاں تک افغانستان اور پاکستان کا تعلق ہے ان دونوں ممالک کے درمیان مستقل دشمنی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جسکے ختم ہونے کے چانسز بہت کم ہیں۔ گیم بہت سادہ ہے۔ افغانستان کا تقریباً60 فیصد علاقہ طالبان کے قبضے میں ہے جہاں ہر قسم کے دہشت گرد گروپس موجود ہیں ۔یہ گروپس افغانستان میں دہشت گردی کرتے ہیں تو افغانستان فوراً اس کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے اور پھر ’’را‘‘ پاکستان مخالف دہشت گرد گروپس کو ہتھیار اور پیسہ دے کر پاکستان میں دہشت گردی کراتی ہے۔ تو یوں دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں اور تباہی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ افغان ٹی وی پر پاکستان کے خلاف دہشتگردی کا اس حد تک پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ تمام افغانستان خصوصاً نوجوان نسل پاکستان سے سخت نفرت کرتی ہے۔ انکا بس چلے تو پاکستان کو کچا چبا جائیں۔ بھارت ان کا ’’آئیڈیل‘‘ ملک ہے۔ وہاں ہزاروں کی تعداد میں افغان طلبا پڑھتے ہیں۔ ہر قسم کی فوجی تربیت بشمول ملٹری اکیڈمی اور سٹاف کالج وہاں حاصل کرتے ہیں۔ علاج کے لئے وہاں جاتے ہیں۔ تجارت کے گہرے بندھن میں بھی بندھے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان افغانستان دوستی خواب تو ہو سکتا ہے حقیقت نہیں۔ ایسے حالات امریکہ کے حق میں ہیں۔ لہٰذا ان حالات میں مستقبل قریب میںبہتری نظر نہیں آتی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024