قومی اسمبلی: وزیرداخلہ حکام نہ آنے پر اسپیکر ایاذصادق، تحریک انصاف کا واک آؤٹ
اسلام آباد (آئی این پی+ اے پی پی) اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق‘ وفاقی وزیر داخلہ، سیکرٹری داخلہ اور دیگر وزارت داخلہ کے عہدیداران کی ایوان میں عدم حاضری پر احتجاجاً واک آئوٹ کر گئے۔ سپیکر کیساتھ تحریک انصاف کے ارکان نے بھی واک آئوٹ کیا۔ سردار ایاز صادق نے کہا وزارت داخلہ سے متعلق وفاقی وزیر، ایک وزیر مملکت اور ایک پارلیمانی سیکرٹری ہونے کے باوجود ایوان کی کارروائی کو مذاق بنایا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کی بے توقیری مجھ سے برداشت نہیں۔ سپیکر نے وزیر اعظم کی جانب سے وزراء اور وزارتوں کے حکام کی ایوان میں حاضری کیلئے تحریری یقین دہانی تک روزانہ ایوان سے واک آئوٹ کی دھمکی دیدی۔ قومی اسمبلی اجلاس میں تحریک انصاف کے ارکان کی جانب سے توجہ دلائو نوٹس پیش کرنے سے قبل سپیکر ایاز صادق نے استفار کیا توجہ دلائو نوٹس کا جواب کون دے گا، مگر ایوان میں وفاقی وزیر داخلہ، وزیر مملکت داخلہ اور پارلیمانی سیکرٹری برائے داخلہ میں سے کوئی ایوان میں توجہ دلائو نوٹس کا جواب دینے کیلئے موجود نہیں تھا۔ وزارت داخلہ کی جانب سے گیلری میں بھی سیکر ٹری یا ایڈیشنل سیکرٹری موجود نہ ہونے پر ایاز صادق نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا وزارت داخلہ کا کوئی نائب قاصد بھی نہیں آیا کیا؟ سپیکر نے وزارت داخلہ حکام کو طلب کرتے ہوئے ان کے آنے تک ایوان کی کارروائی ملتوی کر دی۔ تاہم کچھ دیر بعد دوبارہ اجلاس شروع ہونے پر سردار ایاز صادق نے کہا وزارت داخلہ کی طرف سے بتایا گیا ہے پارلیمانی سیکرٹری ساڑھے 12 بجے سے پہلے نہیں آسکتے، ایک وفاقی وزیر، ایک وزیر مملکت اور ایک پارلیمانی سیکرٹری ہونے کے باوجود ایوان کی کارروائی کو مذاق بنایا ہوا ہے۔ جب تک وزیراعظم شاہد خاقان عباسی تحریری طور پر ضمانت نہیں دیں گے میں روزانہ واک آؤٹ کروں گا۔ دوسری جانب وفاقی سیکرٹری داخلہ کے ایوان میں نہ آنے پر تحریک انصاف کے ارکان نے بھی قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کردیا ۔ شیریں مزاری نے کہا سپیکر نے واک آئوٹ کیاہے تو ہم بھی واک آئوٹ کر تے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر نے پی ٹی آئی ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سپیکر نے آپ کے مؤقف کی ترجمانی کی ہے اور جب سپیکر واک آؤٹ کرگئے تو کسی معزز ممبر کو احتجاجاً نہیں جانا چاہئے تاہم پی ٹی آئی ارکان بھی ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔ بعد ازاں ڈپٹی سپیکر نے اعجاز جاکھرانی اور صاحبزادہ طارق اللہ کو کہا وہ پی ٹی آئی ارکان کو منا کر واپس لائیں ، تاہم پی ٹی آئی ارکان کی واپسی کے بعد ڈپٹی سپیکر اور شیریں مزاری کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا آپ چپ کریں ، آپ مائیک کے بغیر بات کرتی ہیں ،جس پر شیریں مزاری نے کہا یہ کوئی طریقہ نہیں آپ کس طریقے سے بات کر رہے ہیں۔ شیریں مزاری نے کہا ان کی کار پر بھی مسلم لیگ ن کے سپورٹرز نے حملہ کیا جس پر سپیکر نے کہا اس قسم کے واقعات نہیں ہونے چاہئیں۔ کار پر حملے کی تحقیقات کی جائیں گی۔ سپیکر نے کہا وزیراعظم نے سینٹ گیلری واقعہ کا نوٹس لے کر معذرت کی ہے۔ سینٹ میں بھی نعرے بازی نہیں ہونی چاہئے تھی۔ ایاز صادق نے پی ٹی آئی رہنما پر تشدد کی مذمت بھی کی۔ تحریک انصاف کے رہنما حامد الحق نے کہا کل نامعلوم افراد نے سینٹ میں مجھ پر حملہ کیا ۔ نامعلوم افراد کبھی جوتا اور سیاہی پھینکتے ہیں جو غلط روش ہے ۔ ملزم کو گرفتار ہونا چاہئے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا مجھے مارنے والے مارنا چاہیں تو میں تیار ہوں ،میری موت پاکستان پر حملہ ہوگا۔ جو جرنیل ‘ بیوروکریٹ اور سیاستدان آئین کی قدر نہیں کرتے انہیں پاکستان کا دوست نہیں سمجھتا۔ نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا میں انتہائی اہم مسئلے پر اپنی آئینی ڈیوٹی پوری کرنے کھڑا ہوا ہوں نہ میں پاگل ہوں نہ میں زندگی سے بیزار ۔ تین قسم کے لوگ آئین کے تحفظ کی قسم کھاتے ہیں‘ فوجی‘ ججز اور پارلیمنٹرینز۔ انہوں نے کہا آئین سے کھیلا جارہا ہے۔ پاکستان ایک رضاکارانہ فیڈریشن ہے جس میں سب اپنی مرضی سے شامل ہوئے ہیں ۔ سینٹ ہائوس آف فیڈریشن ہے اگر اس کے الیکشن میں زر اور زور کا استعمال ہوگا تو پاکستان کی بنیادیں ہل جائیں گے۔ ہمارے صوبے میں الیکشن ہورہے تھے تو میں نے کہا تھا کہ ایک فوجی افسر مداخلت کررہا ہے وہ لوگوں کو ڈرا رہا ہے۔ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ میں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا تھا کمیٹی بنا کر ان الزامات کی تحقیقات کرائی جائے۔ میں علط ہوں تو مجھے سزا دیں۔ انہوں نے کہا جس انداز میں سینٹ الیکشن ہوئے یہ پاکستان کی بربادی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ جب نواز شریف کو نکالا گیا تو میں نے کہا کہ جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کی لڑائی شروع ہوگئی ہے۔ اس کی پہلی جنگ ہم ہار چکے ہیں ووٹ بیچنا جرم نہیں تو صادق اور جعفر کو بھی معاف کردو۔ انہوں نے کہا آئین کہتا ہے جو لوگ آئین کی مخالفت کریں ان کے خلاف بغاوت کی جائے ہمیں مجبور کیا جارہا ہے ہم گلی کوچوں کا رخ اختیار کریں۔ محمود اچکزئی نے کہا کہ دو پارٹیاں جو ایک دوسرے کی مخالف تھیں ان کو نزدیک لانے کے لئے میاں رضا ربانی کی قربانی دی گئی ہے میں تمام جمہوری قوتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ہمارے اتحاد کا وقت آگیا ہے دنیا میں کہیں ایسا نہیں کہ ضمیر بیچنے والے کو محب وطن کہا جائے میں نے اپنا ضمیر نہیں بیچا۔ انہوں نے کہا سینٹ الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا سیاہ ترین دھبہ ہے۔ سینٹ الیکشن میں ہم جمہوریت کی جنگ ہار چکے ہیں۔الیکشن میں زر اور زور کا استعمال ہوگا تو ملک کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ سید نوید قمر نے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی جمہوریت کے لئے خدمات کو سراہتے ہوئے کہا اب ہار جیت کا مرحلہ گزر گیا ہے‘ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے‘ کیا کھویا کیا پایا اس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے‘ آئندہ عام انتخابات صاف‘ شفاف منصفانہ اور مداخلت سے پاک ہوں یہی جمہوریت کی اصل فتح ہوگی۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا سینٹ الیکشن کی ابتداء بلوچستان حکومت میں تحریک عدم اعتماد سے ہوئی۔ سینٹ الیکشن غلیظ اور داغدار جمہوریت کی مثال ہے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کی رکن قومی اسمبلی نعیمہ کشور خان نے کہا الیکشن کمشن سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا نوٹس لے‘ ہمیں ایک دوسرے کے خلاف انگلی اٹھانے کی بجائے قانون سازی کرنی چاہئے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا سینٹ انتخابات میں حکومت کو دو مرتبہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل نے کہا بلوچستان میں ہمارے دور میں تعمیر و ترقی ہوئی۔ آج وہاں سڑکیں بن رہی ہیں‘ جن لوگوں کو آج بلوچستان یاد آیا ہے انہوں نے اپنے دور میں یہاں کیوں کام نہیں کئے۔ فاٹا سے رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل آفریدی نے کہا سینٹ انتخابات سے پوری قوم میں مایوسی پھیلی ہے۔ اس کی تحقیقات کرا کر حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) بدھ کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
قومی اسمبلی