چھوٹے صوبے کا سینیٹ چیئر مین قبول کریں
بالآخر تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آہی گیا۔ ایک عرصے سے پہلے سینیٹ انتخاب اور پھر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین چنائو کا مسئلہ تمام ہی دیگر ملکی مسائل کو کہیں پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ تمام سیاسی جماعتیں ہی اپنا اپنا بالخصوص چئیرمین لانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف تھیں اور اصل جنگ تھی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی۔لیکن ایسے میں اس بار پی ٹی آئی نے ایک مثبت کردار ادا کیا اور ایک قومی دھارے کی سوچ کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جو کہ یقینا ایک اچھی بات ہے کہ چھوٹے صوبوں کی محرومی کا بھی ازالہ کیا جائے اور اگر بلوچستان سے چئیرمین سینیٹ منتخب ہو تو کیا بات ہے۔بات اچھی تھی مگر عملدرآمد اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے اقتدار کا فائدہ اُٹھا کر اپنا چیئر مین لانے اور پھر اپنے وہ تمام مذموم مقاصد حاصل کرنے کے چکر میں تھے کہ جس سے عدلیہ کو بھی اپنا تابع کیا جاسکے جو کہ ملکی مفاد کے سراسر متصادم تھا۔دوسری جانب سیاسی مفاہمت کے بادشاہ زرداری صاحب نے بھی اس بات کو وقت کی اہم ضرورت سمجھتے ہوئے عمران خان کی بات سے سو فیصد اتفاق کیا اور اپنے چیئرمین کے ٹارگٹ کو پس پشت ڈال کر قومی سوچ کے دھارے میں شامل ہونا پسند کیا اور پھر قومی سوچ جیت گئی اور علیحدگی پسند تمام قوتیں ہار گئیں۔صبح تک جیت کے سو فیصد دعویدار شام کو شکست برداشت نہ کرسکے اور ان کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ حاصل بزنجو نے جس طرح حکمران ٹولے کی شکست پر منفی جذبات کا اظہار کیا وہ نا قابل یقین ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے اس اندرونی دکھ کا بھی اظہار ہے کہ برسوں سیاست میں رہنے کے باوجود خود انہی کے صوبے کا ایک نیا آدمی انہیں شکست دے گیا اور پہلی بار میں ہی سینیٹ کا چیرمین بن کر ان کے برسوں کے خوابوں کو چکنا چور کرگیا۔اسی طرح مریم نواز ہوں یا مریم اورنگزیب ہوں یا طلال چوہدری ۔۔۔ ان سب کے بیانات سے مایوسی اس قدر واضح ہے کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تُھو تُھو کی مثل حکومتی ارکان کے دلی جذبات کا کھلم کھلا اعلان کر رہے ہیں۔اگر تمام سیاسی جماعتوں کی پسند نا پسند کی منفی نمبرز کی عینک اُتار کر دیکھیں تو ایسے وقت میں جب خود حکومتی جماعت کے کارکن جانے کس کے ہاتھوں میں کھیل کر ملکی سالمیت کے خلاف کھلم کھلا طبل جنگ بجارہے ہیں اعلیٰ عدالتوں اور افواج پاکستان پر کیچڑ اُچھال رہے ہیں اور ملک کو ایک انارکی کی جانب دھکیلنے کے ساتھ ساتھ ایسی ترامیم کی بھی سازشوں میں مصروف عمل ہیں کہ جس سے سب کچھ اپنی پسند کا ہوجائے اور ہر شعبے میں اور ہر ادارے میں اپنی من مانیاں کرتے رہیں اور کوئی روک ٹوک کرنے والا بھی نہ ہو۔،۔۔۔ ایسے وقت میں جناب صادق سنجرانی کا چیئرمین اور سلیم مانڈوی والا کا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہونا ملک مخالف دشمنوں کے لئے اور اپنی من مانیاں کرنے والوں کے لئے نوشتہ دیوار بھی ہے اور خاص طور پر بلوچستان کے عوام کے لئے امید کی روشنی بھی کہ دیگر صوبوں کے لوگ ان کے لئے بھی اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کے اندر کا بندہ بھی آگے لا کر اُن کے لئے کام کرنے کے مواقع پیدا کردیے گئے ہیں۔ہم بحیثیت ایک مخلص پاکستانی اس ہار جیت کا تجزیہ کریں تو واضح طور پر قومی سوچ کی جیت نظر آتی ہے اور ایک محدود اور تنگ سوچ والوں کی شکست۔اس کے ساتھ ساتھ ہماری نام نہاد مذہبی سیاسی جماعتوں کی بھی شکست واضح طور پر دکھائی دیتی ہے جو کبھی بھی عملی طور پر ملک کو کچھ تو نہ دے سکے ہا ں اپنے فوائد لے کر ملک میں ایسے مدرسوں کے جال بچھاکر سیاسی پارٹیوں کو ہر الیکشن میں بلیک میل کرکے اپنا الو سیدھا کرتے گئے۔آج اگر سینیٹ انتخابات ہارنے والے اس ملک سے مخلص ہیں تو اپنا دل بڑا کریں اور چھوٹے صوبے کے چیئرمین کو نہ صرف قبول کریں بلکہ اُس صوبے کے ساتھ ماضی میں ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کریں کیونکہ اگر بلوچستان ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا اور پاکستان کی ترقی سے بڑھ کر کوئی اور چیز مقدم نہیں ہونی چاہیئے۔ قدرت نے بلوچستان کو بے شمار قدرتی وسائل سے نوازا ہے مگر وہاں کے عوام اتنے ہی محروم رہ کر چراغ تلے اندھیرے کی مانند جی رہے ہیں ۔۔اب وقت ہے کہ اس چراغ کی روشنی پہلے بلوچستان کے باسیوں کے دیں تاکہ وہاں سے روشی پھیل کر پورے پاکستان کو روشن کرسکے کیونکہ بڑھے گا بلوچستان تو بڑھے گا پاکستان۔اسی میں ہم سب کی جیت ہے۔