ڈاکٹر نبیلہ طارق
گزشتہ ماہ دن دیہاڑے مزنگ چونگی کے علاقے میں ریمنڈ ڈیوس نامی ایک امریکی نے حفظ ماتقدم کے نام پر تین پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بات آگے بڑھنے سے پہلے یہ کہ دینا بہت ضروری ہے کہ ڈیوس نے سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں ارتکاب قتل کیا۔ ایک قاتل کو محض اس بنا پر استثنیٰ مہیا کئے جانے کی باتیں کرنا کہ وہ سفارتی عملے کا حصہ ہے انسانی جانوں کے اتلاف کے حوالے سے سوالیہ نشان ہے۔ ڈیوس کے حوالے سے امریکی سفارت خانہ جو کہ اپنی منظم حکمت عملی سے شہرت رکھتا ہے۔ ڈیوس کی شناخت کو قبول یا رد کرنے کے حوالے سے کلی طور پر ناکام نظر آتا ہے۔ واقعہ کے فوراً بعد امریکی سفارت خانے نے کہا کہ وہ لاہور میں امریکی قونصلیٹ کا سٹاف ممبر ہے پھر 29 جنوری کو اسے امریکی سفارتخانے میں متعین سفارت کار کہا۔ ریمنڈ ڈیوس جس کے پاس جون2012ءتک کے لئے ویزہ ہے اور وہ سفارتی اہلکار بتایا جا رہا ہے، اب امریکی سفارتخانہ اس کےلئے ویانا کنونشن کا حوالہ دیتے ہوئے استثنیٰ کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس کے بارے میں پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ سفارتی اہلکار نہیں ہے بلکہ گزشتہ برس امریکی سفارتخانہ نے اس کےلئے غیر سفارتی شناختی کارڈ حاصل کیا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس غیر سفارتی امریکی نے پاکستانیوں پر فائرنگ کے لئے جو پستول استعمال کیا ہے وہ امریکی سیورٹی اہلکار اور انٹیلی جنس اہلکار استعمال کرتے ہیں۔ یہاں پر کئی ایک سوالات جنم لیتے ہیںجن کا جواب حاصل کرنا بہت ضروری ہے اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ چند ماہ پیش تر پاکستان کے دوبئی میں قائم شدہ قونصلیٹ نے پونے دو سو کے قریب انڈین اور امریکی شہریوں کو ویزے جاری کئے ان لوگوں نے اپنی پاکستان میں موجودگی یا آنے کی وجہ میں ایوان صدر تک جانے تک کو بھی بیان کیا تھا۔ ان لوگوں نے اپنے اپنے ممالک میں موجود پاکستانی سفارتخانوں یا کونسل خانوں میں ویزہ کےلئے کیوں درخواست نہ دی اور دوبئی کونسل خانے نے انہیں اپنے اپنے ممالک میں اپلائی کرنے کے لئے کیوں نہیں کہا۔ ریمنڈ ڈیوس پر بات کرنے سے پہلے حکومت اور متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں سے یہ پوچھنا بالکل برمحل ہے کہ یہ لوگ اس وقت پاکستان میں کن سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ کیا ان کی نگرانی کی جا رہی ہے یا نہیں؟ آیا وہ بلیک واٹر یا اس طرح کی پاکستان دشمن تنظیم کا حصہ بن کر قابل اعتراض انداز سرگرم تو نہیں۔
اب آتے ہیں ریمنڈ ڈیوس کی جانب، سابق پاکستانی وزیر خارجہ سردار آصف علی احمد نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ اگر ریمنڈ ڈیوس امریکی سفارتی اہلکار ہے تو پھر اسے ویانا کنونشن کےمطابق استثنیٰ دینا پڑے گا اور اسے امریکی حکام کے حوالے کیا جائے گا اور پھر اس کے خلاف عدالتی کارروائی امریکی عدالتوں میں ہوگی اگر وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی طرح غیر سفارت کار ملکی ہے تو پھر جس طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر امریکی عدالتوں میں ٹرائل ہوا اسی طرح ریمنڈ ڈیوس کے خلاف پاکستانی عدالتوں میں مقدمہ چلے گا۔ پاکستانی سفارت خانہ اپنے ابتدائی بیانات میں اس بات کا اقرار کر چکا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان میں قیام کےلئے غیر سفارتی شناختی کارڈ دیا گیا تو پھر اس میں بحث اور شک کی گنجائش ہی باقی نہیں بچتی کہ اسے سفارتی اہلکار کا استثنیٰ دیئے جانے کا نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش بے سود اور بلاجواز ہے۔ امریکہ نے پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو گرفتار کیا.... کہاں سے اس کا جواب جنرل مشرف بہتر دے سکتے ہیں۔ انہیں پاکستان سے گرفتار کیا گیا ان پر لگائے گئے الزامات امر یکہ میں وقوع پذیر ہی نہیں ہوئے تو پھر کیسا انصاف اور کیسی عدالت؟ ریمنڈ ڈیوس نے ایک عام امریکی کے طور پر جرم پاکستان میں کیا ہے تو مقدمہ کا ٹرائل بھی پاکستان میں ہی ہونا چاہئے۔ ہمارے حکمران امریکہ کی کاسہ لیسی کے پرانے ماہر ہیں۔ پاکستانیوں کا حافظہ اتنا کمزور نہیں کہ انہیں بھول گیا ہو کہ میاں نواز شریف ملک کے دوتہائی اکثریت والے طاقتور ترین وزیراعظم تھے اور ملک کے صدر سردار فاروق لغاری تھے۔ انہوں نے امریکیوں پر فائرنگ کے الزام میں ایمل کانسی کو ڈیرہ غازی خان کے شالیمار ہوٹل کے کمرہ نمبر14 سے امریکی ایف بی آئی کے حوالے جون97ءمیں کیا۔ ایمل کانسی جس کے سر کی قیمت امریکہ نے مقرر کر رکھی تھی وہ لاہور آئی یا چوٹی زیریں کے سرداروں نے ہضم کی۔ قوم آج تک بے خبر ہے۔
پنجاب میں حکومت پھر نون لیگ کی ہے اور گورنر کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہی ہے اور اب اونٹ پہاڑ کے نیچے آگیا ہے اور ایک امریکی شہری انہی الزامات کے ساتھ ہماری گرفت میں ہے جن کے تحت ہم نے شہید ایمل کانسی کا لاشہ اٹھایا ہے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو قابل ترین نیوروسرجن تھی اور اب دماغی مریضہ کے طور پر امریکی جیل میں ایک عبرتناک زندگی جی رہی ہے۔ اس وقت سوال ہے قومی خود مختاری اور غیرت کا، حکمران اشرافیہ نے اگر کاسہ لیسی پر مبنی کردار تبدیل نہ کیا تو وہ احتجاجی جلوس جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کےلئے بہت پرامن انداز میں نکلتے رہے ہیں۔ ایوان اقتدار کی اینٹ سے اینٹ بجانے کےلئے منظم ہوں گے اور بقول فیض احمد فیض
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
گزشتہ ماہ دن دیہاڑے مزنگ چونگی کے علاقے میں ریمنڈ ڈیوس نامی ایک امریکی نے حفظ ماتقدم کے نام پر تین پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بات آگے بڑھنے سے پہلے یہ کہ دینا بہت ضروری ہے کہ ڈیوس نے سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں ارتکاب قتل کیا۔ ایک قاتل کو محض اس بنا پر استثنیٰ مہیا کئے جانے کی باتیں کرنا کہ وہ سفارتی عملے کا حصہ ہے انسانی جانوں کے اتلاف کے حوالے سے سوالیہ نشان ہے۔ ڈیوس کے حوالے سے امریکی سفارت خانہ جو کہ اپنی منظم حکمت عملی سے شہرت رکھتا ہے۔ ڈیوس کی شناخت کو قبول یا رد کرنے کے حوالے سے کلی طور پر ناکام نظر آتا ہے۔ واقعہ کے فوراً بعد امریکی سفارت خانے نے کہا کہ وہ لاہور میں امریکی قونصلیٹ کا سٹاف ممبر ہے پھر 29 جنوری کو اسے امریکی سفارتخانے میں متعین سفارت کار کہا۔ ریمنڈ ڈیوس جس کے پاس جون2012ءتک کے لئے ویزہ ہے اور وہ سفارتی اہلکار بتایا جا رہا ہے، اب امریکی سفارتخانہ اس کےلئے ویانا کنونشن کا حوالہ دیتے ہوئے استثنیٰ کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس کے بارے میں پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ سفارتی اہلکار نہیں ہے بلکہ گزشتہ برس امریکی سفارتخانہ نے اس کےلئے غیر سفارتی شناختی کارڈ حاصل کیا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس غیر سفارتی امریکی نے پاکستانیوں پر فائرنگ کے لئے جو پستول استعمال کیا ہے وہ امریکی سیورٹی اہلکار اور انٹیلی جنس اہلکار استعمال کرتے ہیں۔ یہاں پر کئی ایک سوالات جنم لیتے ہیںجن کا جواب حاصل کرنا بہت ضروری ہے اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ چند ماہ پیش تر پاکستان کے دوبئی میں قائم شدہ قونصلیٹ نے پونے دو سو کے قریب انڈین اور امریکی شہریوں کو ویزے جاری کئے ان لوگوں نے اپنی پاکستان میں موجودگی یا آنے کی وجہ میں ایوان صدر تک جانے تک کو بھی بیان کیا تھا۔ ان لوگوں نے اپنے اپنے ممالک میں موجود پاکستانی سفارتخانوں یا کونسل خانوں میں ویزہ کےلئے کیوں درخواست نہ دی اور دوبئی کونسل خانے نے انہیں اپنے اپنے ممالک میں اپلائی کرنے کے لئے کیوں نہیں کہا۔ ریمنڈ ڈیوس پر بات کرنے سے پہلے حکومت اور متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں سے یہ پوچھنا بالکل برمحل ہے کہ یہ لوگ اس وقت پاکستان میں کن سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ کیا ان کی نگرانی کی جا رہی ہے یا نہیں؟ آیا وہ بلیک واٹر یا اس طرح کی پاکستان دشمن تنظیم کا حصہ بن کر قابل اعتراض انداز سرگرم تو نہیں۔
اب آتے ہیں ریمنڈ ڈیوس کی جانب، سابق پاکستانی وزیر خارجہ سردار آصف علی احمد نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ اگر ریمنڈ ڈیوس امریکی سفارتی اہلکار ہے تو پھر اسے ویانا کنونشن کےمطابق استثنیٰ دینا پڑے گا اور اسے امریکی حکام کے حوالے کیا جائے گا اور پھر اس کے خلاف عدالتی کارروائی امریکی عدالتوں میں ہوگی اگر وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی طرح غیر سفارت کار ملکی ہے تو پھر جس طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر امریکی عدالتوں میں ٹرائل ہوا اسی طرح ریمنڈ ڈیوس کے خلاف پاکستانی عدالتوں میں مقدمہ چلے گا۔ پاکستانی سفارت خانہ اپنے ابتدائی بیانات میں اس بات کا اقرار کر چکا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان میں قیام کےلئے غیر سفارتی شناختی کارڈ دیا گیا تو پھر اس میں بحث اور شک کی گنجائش ہی باقی نہیں بچتی کہ اسے سفارتی اہلکار کا استثنیٰ دیئے جانے کا نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش بے سود اور بلاجواز ہے۔ امریکہ نے پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو گرفتار کیا.... کہاں سے اس کا جواب جنرل مشرف بہتر دے سکتے ہیں۔ انہیں پاکستان سے گرفتار کیا گیا ان پر لگائے گئے الزامات امر یکہ میں وقوع پذیر ہی نہیں ہوئے تو پھر کیسا انصاف اور کیسی عدالت؟ ریمنڈ ڈیوس نے ایک عام امریکی کے طور پر جرم پاکستان میں کیا ہے تو مقدمہ کا ٹرائل بھی پاکستان میں ہی ہونا چاہئے۔ ہمارے حکمران امریکہ کی کاسہ لیسی کے پرانے ماہر ہیں۔ پاکستانیوں کا حافظہ اتنا کمزور نہیں کہ انہیں بھول گیا ہو کہ میاں نواز شریف ملک کے دوتہائی اکثریت والے طاقتور ترین وزیراعظم تھے اور ملک کے صدر سردار فاروق لغاری تھے۔ انہوں نے امریکیوں پر فائرنگ کے الزام میں ایمل کانسی کو ڈیرہ غازی خان کے شالیمار ہوٹل کے کمرہ نمبر14 سے امریکی ایف بی آئی کے حوالے جون97ءمیں کیا۔ ایمل کانسی جس کے سر کی قیمت امریکہ نے مقرر کر رکھی تھی وہ لاہور آئی یا چوٹی زیریں کے سرداروں نے ہضم کی۔ قوم آج تک بے خبر ہے۔
پنجاب میں حکومت پھر نون لیگ کی ہے اور گورنر کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہی ہے اور اب اونٹ پہاڑ کے نیچے آگیا ہے اور ایک امریکی شہری انہی الزامات کے ساتھ ہماری گرفت میں ہے جن کے تحت ہم نے شہید ایمل کانسی کا لاشہ اٹھایا ہے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو قابل ترین نیوروسرجن تھی اور اب دماغی مریضہ کے طور پر امریکی جیل میں ایک عبرتناک زندگی جی رہی ہے۔ اس وقت سوال ہے قومی خود مختاری اور غیرت کا، حکمران اشرافیہ نے اگر کاسہ لیسی پر مبنی کردار تبدیل نہ کیا تو وہ احتجاجی جلوس جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کےلئے بہت پرامن انداز میں نکلتے رہے ہیں۔ ایوان اقتدار کی اینٹ سے اینٹ بجانے کےلئے منظم ہوں گے اور بقول فیض احمد فیض
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے