ریمنڈ ڈیوس کی لاہور کے دو شہریوں کی قاتلانہ واردات نے امریکی حکومت کے پاﺅں تلے زمین نکال دی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ افریقی نژاد امریکی صدر بارک اوباما اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن پاکستان کو ہمہ اقسام کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ امریکی سینٹ کے رکن کیری لوگر واشنگٹن سے سیدھے لاہور آئے۔ پہلے نواز شریف اور شہباز شریف سے جاتی عمرہ میں ملاقات کی۔ پھر وفاق کے حکمرانوں سے اسلام آباد میں ملے۔ ایک کھلی پریس کانفرنس میں ریمنڈ ڈیوس کےلئے سفارتی استثنیٰ کا مطالبہ دہرایا۔ پس منظر میں مقتولین کے وارثوں کو ”خون بہا“ ادا کرنے کی خواہش بھی موجود تھی جس کا کھلا تذکرہ اخبارات میں ہوتا رہا۔ لیکن پنجاب سے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی آواز ابھرتی رہی کہ امداد بند کر دینے کی دھمکیاں کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا مطالبہ کرتی رہیں اور یوسف رضا گیلانی پاکستانی مو قف کو دہراتے رہے کہ ریمنڈ کا فیصلہ پاکستانی قانون کے مطابق عدالت کرے گی۔ امریکی حکومت اس فیصلے سے شدید اضطراب کا شکار ہے جس کی درپردہ وجوہ کا اندازہ اب ہر شخص لگا سکتا ہے۔ تاہم اب امریکہ میں ایک مخصوص بااثر طبقے کی یہ رائے بھی سامنے آ رہی ہے کہ پاکستان میں اس بندے کے مقدمے میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن اس رائے میں پاکستان دشمنی کے تمام عناصر شامل ہیں۔
معروف امریکی تجزیہ نگار سلیگ ایس ہیری سن نے جو انٹرنیشنل پالیسی سنٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں۔ اپنے ایک تجزئیے میں لکھا ہے کہ ”مصر کے انقلابی حالات کو سامنے رکھیں تو ریمنڈ ڈیوس کا ”ڈرامہ“ بہت معمولی نوعیت کا نظر آئے گا۔ لیکن یہ واقعہ امریکی مفادات پر اور دونوں ملکوں کے تعلقات پر کاری ضرب لگا سکتا ہے اور پاکستان کے آرمی چیف جنر ل اشفاق پرویز کیانی سے کشیدگی بھی پیدا کر سکتا ہے۔ ہیری سن کی رائے میں پاکستان میں ”مصر سٹائل“ کی بغاوت کا جنرل کیانی کو خطرہ نہیں ہے۔ یہاں فرقہ وارانہ کشیدگی اس قدر پھیلی ہو ئی ہے کہ سب فرقوں کا اتحاد ممکن نظر نہیں آتا لیکن جنرل کیانی کو اس وقت ضرور تشویش ہو گی جب اس کے امریکی سرپرست ”سیاسی کردار“ ادا کرنے لگیں گے ان کی فعالیت ضرر رساں ثابت ہونے لگے پاکستانی عوام میں امریکی نفرت مرکزی نقطہ بن جائے اور پوری قوم نفرت کے اس محور کے خلاف امڈ کھڑی ہو“ہیریسن نے یہ تاثر دینے کی کو شش کی ہے کہ پاکستان میں پسِ پردہ فوج ہی فعال ہے اور اسی کا حکم چلتا ہے۔ ملک کے نظم و نسق پر فوج نے کڑی آنکھ رکھی ہوئی ہے اور اقتصادی زندگی میں رئیل اسٹیٹ (REAL ESTATE)اور انشورنس کے کاروبار اور بڑی صنعت کاری سے لے کر ائر لائنز تک فوج کے اثاثے 38 بلین ڈالرز کے لگ بھگ ہیں جن کا تحفظ جنر ل کیانی کو عزیز ہو گا۔سلیگ ایس ہیری سن کی رائے میں ریمنڈ ڈیوس کے واقعے نے پاکستان میں امریکہ کے خلاف عوامی نفرت کے شعلے کو غیر معمولی طور پر بھڑکا دیا ہے۔ یہ نفرت شمالی قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں اور معصوم شہریوں کی اموات سے روز افزوں ہے۔ لاہور کے ایک بھرے بازار میں دو شہریوں کی دن دہاڑے قاتلانہ اموات نے نفرت کے آتش فشاں کو ابھار دیا اور ہر طرف ہاہا کار مچ گئی۔ ”ہانکی گو بیک“ ”ہانکی گو بیک“ پاکستان میں اسلامی گروپوں کو امریکہ کے خلاف نفرت پیدا کرنے کےلئے بہترین موقع مل گیا چنانچہ بیس ہزار سے زیادہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے جو مطالبہ کر رہے تھے کہ ریمنڈ ڈیوس کو قتل عمد میں قرطبہ چوک پر پھانسی دی جائے۔
اتفاق کی بات یہ ہے کہ جب ریمنڈ ڈیوس کے پستول سے دو پاکستانی جوانوں پر گولیاں برس رہی تھیں تو واشنگٹن سے یہ بیان نشر ہو رہا تھا کہ اسلام آباد اپنے ایٹمی اثاثے میں اضافے کےلئے سرمایہ کہاں سے حاصل کرتا ہے؟ اور پاکستان نہ صرف یورینیم اور پلوٹینیم کی پیداوار میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ اس نے ایک سو ایٹم بم بنا لئے ہیں اور یہ تعداد بھارت کے تیار ایٹم بموں سے زیادہ ہے۔ ہیری سن نے بلاتوقف کہا کہ آئی ایم ایف کے قرضوں سے لی ہوئی رقوم اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کےلئے ایک بلین ڈالرز کی جو امداد مسلح افواج کو دی جاتی ہے وہ ایٹم سازی میں استعمال ہوتی ہے اور ریمنڈ ڈیوس کیس نے اسلام پسندوں کو مشتعل کر دیا ہے تو اس کے نفسیاتی اثرات کو ئی بھی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ مراد یہ کہ پاکستان کے اسلام پسند ایٹمی اثاثوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف ڈائریکٹ ایکشن کی تجویز پیش کرتے ہوئے ہیری سن یہ اعتراف بھی کرتا ہے کہ ماضی میں پاکستانی ایجنسیوں نے طالبان اور القاعدہ کی سرکوبی کےلئے امریکہ کی گراں قدر معاونت کی ہے اور القاعدہ کے ایک بڑے لیڈر خالد شیخ کو 2003 میں ایف بی آئی کے اشارے پر پکڑا تھا لیکن وہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں فوری رہائی کے امریکی مطالبے کو قبول نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے کہ امریکہ کے خلاف نفرت کے ابلتے ہوئے لاوے کو مائل بہ اعتدال کیا جائے۔ سلیگ ہیری سن کا یہ تجزیہ ہمارے حکمرانوں کےلئے چشم کشا ہونا چاہئے۔ اس نے اس مضمون میں پاکستان کی منتخب حکومت کا ذکر اشارةً بھی نہیں کیا لیکن ساری اہمیت پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو دی ہے اور انہیں نہ صرف پس پردہ آمر قرار دیا ہے بلکہ ایٹمی ہتھیاروں سے لےکر صنعتی اثاثوں کا ذکر بھی کر دیا ہے جن سے فوج کے مفادات وابستہ ہیں۔ قوی امکان یہ بھی ہے کہ ہیری سن نسوار پسند ریمنڈ ڈیوس کے کیس کو معمو ل کی صورت دینا چاہتا ہے تاکہ عاقبت نااندیش اور کم کوش پاکستانیوں کی نظر ادھر سے ہٹ جائے اور ریمنڈ کو بچانا آسان ہو جائے۔ ڈرون حملوں کی تجدید سے پاکستان کے سامنے لمحہ فکریہ آ گیا ہے۔
معروف امریکی تجزیہ نگار سلیگ ایس ہیری سن نے جو انٹرنیشنل پالیسی سنٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں۔ اپنے ایک تجزئیے میں لکھا ہے کہ ”مصر کے انقلابی حالات کو سامنے رکھیں تو ریمنڈ ڈیوس کا ”ڈرامہ“ بہت معمولی نوعیت کا نظر آئے گا۔ لیکن یہ واقعہ امریکی مفادات پر اور دونوں ملکوں کے تعلقات پر کاری ضرب لگا سکتا ہے اور پاکستان کے آرمی چیف جنر ل اشفاق پرویز کیانی سے کشیدگی بھی پیدا کر سکتا ہے۔ ہیری سن کی رائے میں پاکستان میں ”مصر سٹائل“ کی بغاوت کا جنرل کیانی کو خطرہ نہیں ہے۔ یہاں فرقہ وارانہ کشیدگی اس قدر پھیلی ہو ئی ہے کہ سب فرقوں کا اتحاد ممکن نظر نہیں آتا لیکن جنرل کیانی کو اس وقت ضرور تشویش ہو گی جب اس کے امریکی سرپرست ”سیاسی کردار“ ادا کرنے لگیں گے ان کی فعالیت ضرر رساں ثابت ہونے لگے پاکستانی عوام میں امریکی نفرت مرکزی نقطہ بن جائے اور پوری قوم نفرت کے اس محور کے خلاف امڈ کھڑی ہو“ہیریسن نے یہ تاثر دینے کی کو شش کی ہے کہ پاکستان میں پسِ پردہ فوج ہی فعال ہے اور اسی کا حکم چلتا ہے۔ ملک کے نظم و نسق پر فوج نے کڑی آنکھ رکھی ہوئی ہے اور اقتصادی زندگی میں رئیل اسٹیٹ (REAL ESTATE)اور انشورنس کے کاروبار اور بڑی صنعت کاری سے لے کر ائر لائنز تک فوج کے اثاثے 38 بلین ڈالرز کے لگ بھگ ہیں جن کا تحفظ جنر ل کیانی کو عزیز ہو گا۔سلیگ ایس ہیری سن کی رائے میں ریمنڈ ڈیوس کے واقعے نے پاکستان میں امریکہ کے خلاف عوامی نفرت کے شعلے کو غیر معمولی طور پر بھڑکا دیا ہے۔ یہ نفرت شمالی قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں اور معصوم شہریوں کی اموات سے روز افزوں ہے۔ لاہور کے ایک بھرے بازار میں دو شہریوں کی دن دہاڑے قاتلانہ اموات نے نفرت کے آتش فشاں کو ابھار دیا اور ہر طرف ہاہا کار مچ گئی۔ ”ہانکی گو بیک“ ”ہانکی گو بیک“ پاکستان میں اسلامی گروپوں کو امریکہ کے خلاف نفرت پیدا کرنے کےلئے بہترین موقع مل گیا چنانچہ بیس ہزار سے زیادہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے جو مطالبہ کر رہے تھے کہ ریمنڈ ڈیوس کو قتل عمد میں قرطبہ چوک پر پھانسی دی جائے۔
اتفاق کی بات یہ ہے کہ جب ریمنڈ ڈیوس کے پستول سے دو پاکستانی جوانوں پر گولیاں برس رہی تھیں تو واشنگٹن سے یہ بیان نشر ہو رہا تھا کہ اسلام آباد اپنے ایٹمی اثاثے میں اضافے کےلئے سرمایہ کہاں سے حاصل کرتا ہے؟ اور پاکستان نہ صرف یورینیم اور پلوٹینیم کی پیداوار میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ اس نے ایک سو ایٹم بم بنا لئے ہیں اور یہ تعداد بھارت کے تیار ایٹم بموں سے زیادہ ہے۔ ہیری سن نے بلاتوقف کہا کہ آئی ایم ایف کے قرضوں سے لی ہوئی رقوم اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کےلئے ایک بلین ڈالرز کی جو امداد مسلح افواج کو دی جاتی ہے وہ ایٹم سازی میں استعمال ہوتی ہے اور ریمنڈ ڈیوس کیس نے اسلام پسندوں کو مشتعل کر دیا ہے تو اس کے نفسیاتی اثرات کو ئی بھی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ مراد یہ کہ پاکستان کے اسلام پسند ایٹمی اثاثوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف ڈائریکٹ ایکشن کی تجویز پیش کرتے ہوئے ہیری سن یہ اعتراف بھی کرتا ہے کہ ماضی میں پاکستانی ایجنسیوں نے طالبان اور القاعدہ کی سرکوبی کےلئے امریکہ کی گراں قدر معاونت کی ہے اور القاعدہ کے ایک بڑے لیڈر خالد شیخ کو 2003 میں ایف بی آئی کے اشارے پر پکڑا تھا لیکن وہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں فوری رہائی کے امریکی مطالبے کو قبول نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے کہ امریکہ کے خلاف نفرت کے ابلتے ہوئے لاوے کو مائل بہ اعتدال کیا جائے۔ سلیگ ہیری سن کا یہ تجزیہ ہمارے حکمرانوں کےلئے چشم کشا ہونا چاہئے۔ اس نے اس مضمون میں پاکستان کی منتخب حکومت کا ذکر اشارةً بھی نہیں کیا لیکن ساری اہمیت پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو دی ہے اور انہیں نہ صرف پس پردہ آمر قرار دیا ہے بلکہ ایٹمی ہتھیاروں سے لےکر صنعتی اثاثوں کا ذکر بھی کر دیا ہے جن سے فوج کے مفادات وابستہ ہیں۔ قوی امکان یہ بھی ہے کہ ہیری سن نسوار پسند ریمنڈ ڈیوس کے کیس کو معمو ل کی صورت دینا چاہتا ہے تاکہ عاقبت نااندیش اور کم کوش پاکستانیوں کی نظر ادھر سے ہٹ جائے اور ریمنڈ کو بچانا آسان ہو جائے۔ ڈرون حملوں کی تجدید سے پاکستان کے سامنے لمحہ فکریہ آ گیا ہے۔