سر راہے
پی ڈی ایم مایوس نہیں کرے گی: فضل الرحمن
اب یہ معلوم نہیں پی ڈی ایم قوم کو مایوس نہیں کرے گی یا بھاگنے والی جماعت کو، جو دوغلی پالیسی پر چل رہی ہے پی ڈی ایم سے باہر بھی ہے اور پارلیمنٹ میں اتحاد کا ناٹک بھی کر رہی ہے۔ رہی بات قوم کی تو وہ پہلے ہی مایوس ہو چکی ہے۔ اسے اب مزید مایوس کیا ہونا۔ پی ڈی ایم کا نام لے کر اس کا مردہ خراب کرنے سے بہتر ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اپنا بچا کھچا سرمایہ سنبھالیں کہیں یہ بھی اڑ نہ جائے۔ بڑوں نے ویسے تو نہیں کہا تھا :
’’بھان متی نے کنبہ جوڑا کہیں کی مٹی کہیں کا روڑا‘‘
جب ایسا اتحاد بنے گا تو انجام بھی وہی ہوتا ہے جو ہوا ہے۔ فی الحال تو لگتا ہے مولانا خود اس اتحاد سے مایوس ہیں مگر کوئی حرف بد منہ سے نہیں نکال رہے کہ پوری نہ ہو جائے۔ اس وقت سب سے کامیاب چال پی پی والے چل رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت کو بھی ریلیف دیا اپنا بندہ بھی سینیٹ میں کامیاب کرایا اور پی ڈی ایم کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی۔ اب وہ تن تنہا خود کو اپوزیشن ثابت کرنے کے چکر میں ہے۔ آفرین ہے ہمارے چھوٹے میاں جی پر کہ وہ کتنی آسانی سے پی پی کے ووٹوں کی حمایت کی خاطر بلاول زرداری کے جال میں پھنس رہے ہیں۔ خدا جانے وہ کس طرح اعتبار کر رہے ہیں۔ ایک ایسی جماعت کے لیڈر پر جس سے اپوزیشن اتحاد کو پارہ پارہ کر ڈالا۔ کیا چھوٹے میاں اتنے ہی بھولے ہیں یا اندرون خانہ کوئی اور کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ مولانا کو ذرا اس طرف بھی توجہ دینا ہو گی۔
٭٭٭٭٭
فردوس عاشق اعوان کے نوٹس کا جواب ایف آئی آر سے دیں گے۔ قادر مندوخیل
کچھ روز قبل ٹی وی چینل پر جو کچھ ہوا ، نہ ہوتا تو بہتر تھا۔ بات بد زبانی اور بدکلامی تک ہی رہتی تو گزارہ ہوتا۔ ہمیں اب جانے انجانے میں بدکلامی اور بدزبانی سُننے اور سہنے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ مگر یہ جو ایک خاتون وہ بھی معاون خصوصی ان کی طرف سے ا یک مرد ایم این اے پر ہاتھ اٹھایا گیا وہ نہایت افسوسناک واقعہ ہے۔ بے شک کچھ خواتین منہ پھٹ ہونے کے ساتھ ’’ہتھ چھٹ ‘‘ بھی ہوتی ہیں۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس کا مظاہرہ سرعام کرنے کا حق انہیں حاصل ہے۔ ٹی وی پروگرام میں جس طرح تلخ کلامی کے دوران فردوس عاشق اعوان نے پی پی کے قادر مندوخیل کو اچانک تھپڑ جڑ دیا۔ اس پر وہ تو ہوں گے ہی دیکھنے والے بھی دم بخود رہ گئے۔ اب پتہ چلا ہے کہ فردوس عاشق اعوان نے انہیں کوئی قانونی نوٹس بھیجا ہے جس کے جواب میں مندوخیل صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ اس کا جواب ایف آئی آر کی صورت میں دیں گے۔ انہوں نے اپنے صبر و تحمل کی بابت یہ بھی کہا کہ وہ جوڈو کراٹے کے ماہر ہیں۔ انہوں نے برداشت اس لیے کیا کہ مخالف ایک خاتون ہیں بات سچ ہے واقعی ورنہ اگر کوئی اور ہوتا تو شاید اس وقت ہاتھ پر پلاسٹر چڑھائے پین کلر انجکشن لگوا رہا ہوتا ویسے قصور قادر مندوخیل کا ہی ہے انہیں کیا ضرورت پڑی تھی فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو پی پی کے دور وزارت میں کرپشن کی وجہ سے ہٹانے کا تذکرہ کرنے کی، اس پر وہ طیش میں آ گئیں افسوس کی بات ہے کہ ہماری سیاست سے صبر و تحمل اور برداشت ختم ہو گیا ہے۔ دکھ اس کا بھی ہے کہ اب مرد اور عورت کا فرق بھی مٹتا جا رہا ہے یہ کوئی اچھا شگون نہیں۔
٭٭٭٭٭
لندن میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر پھر مظاہرہ
یہ مظاہرہ بھارت کی ایما پر اس کے زرخرید ایجنٹوں نے کرایا۔ اس تنظیم کے سربراہ راجہ سجاد کو تو شاید خود اس کے علاقے والے نہیں جانتے ، بھلا جموں کشمیر گلگت اور بلتستان میں ان کو کون جانتا ہو گا۔ اس بھارتی زرخرید ایجنٹ نے اپنی تنظیم کا نام قومی مساوات پارٹی جموں کشمیر گلگت بلتستان رکھا ہے۔ یہ بزعم خود ان کے حقوق کے لیے بنی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان والے خود کو جموں کشمیر کا حصہ تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے اپنا صوبہ بنوا لیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ لداخ جسے بھارت نے مکمل طور پر ہڑپ کر لیا ہے اس کا نام تک نہیں لیا جا رہا، یعنی وہاں کوئی مسئلہ نہیں کسی کو۔ جموں کشمیر میں یہ شخص اور اس کی جماعت نامعلوم اور لاپتہ افراد میں بھی شامل نہیں۔ گلگت بلتستان والے انہیں گھسنے بھی نہ دیں۔ رہی بات آزاد کشمیر کی تو شاید وہاں چند ایک لوگ پیسوں کی خاطر اس کے ساتھ ہوں یا بیرون ملک سیاسی پناہ کے چکروں میں۔ اس جماعت کی پہلی بات قومی مساوات تک ہی رہتی تو لوگ مغالطہ میں رہتے۔ مگر جموں و کشمیر کی وحدت کی آڑ میں اسے نقصان پہنچانے والے یہ عناصر قابل معافی نہیں۔ را نے چند ہفتے قبل بھی ایک ایسی ناکام کوشش کی جس میں بمشکل درجن بھر لوگ لندن میں سفارتخانے کے باہر انسانی حقوق کے نعرے لگاتے جمع ہوئے۔ اس ناکامی کے بعد یہ دوسری کوشش تھی جس میں چند درجن گمراہ عناصر بھارت پیسے اور را کے تعاون سے جمع ہوئے اور پاکستان مخالف نعرے لگائے عمارت جلانے کی دھمکیاں دیں۔ یہ صرف درشنی پہلوان ہیں جو بھارت کے مکروہ مقاصد کے لیے اُچھل کود کر رہے ہیں ورنہ بھارت کو پاکستان میں کسی سیاسی کارکن کی گرفتاری پر اتنا شدید مروڑ نہیں اٹھتا۔ یہ سب جانتے ہیں اسے پاکستان کے کسی قیدی سے کتنی ہمدردی کب ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭
سی ٹی سی پاک کا سگریٹ پر ٹیکس نہ بڑھانے پر اظہار افسوس
سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کیلئے ایسے اقدامات ضروری ہیں مگر شاید حکومت کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں یا پھر سگریٹ مافیا بہت زور آور ہے۔ یہی مافیا اربوں روپے کے سمگل شدہ سگریٹ غیرقانونی طور پر پاکستان میں فروخت کرتا ہے۔ اس طرح حکومت کو کروڑوں نہیں اربوں روپے کا سالانہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ سگریٹ ایک ایسی چیز ہے جو سراسر انسانی صحت کیلئے نقصان دہ ہے اس سے انسانی صحت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ گیس کے مریضوں کو سگریٹ پینے سے افاقہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ خد ساختہ ذہنی ٹینشن میں مبتلا افراد جو سگریٹ کے عادی ہیں ذرا آرام محسوس کرتے ہیں مگر عام صحت مند آدمی اس کی بدولت پھیپھڑوں ، دل،گردوں، سانس، دماغ اور منہ کی درجنوں خطرناک بیماریوں کا شکار ہوتا ہے جس میں سب سے زیادہ منہ کا اور پھیپھڑوں کا سرطان یعنی سرطان خطرناک ہے۔ اب بجٹ میں حکومت نے سگریٹ مافیا کی سرپرستی کرتے ہوئے سگریٹ پر کوئی ٹیکس نہ لگایا نہ بڑھایا جو عوام کے صحت سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ سگریٹ جیسے مضر صحت اشیاء کو مزید ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے اس پر ٹیکس بڑھایا جائے۔ سگریٹ نوشی کیخلاف امتناعی قوانین پر سختی سے عمل کرایا جائے تاکہ عوام کو اس قاتل نشے سے محفوظ رکھا جاسکے۔ ورنہ سول سوسائٹی اتحاد اسی طرح احتجاج اور مذمتی بیان جاری کرنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
۔۔