الیکٹرانک ووٹنگ مشین’’سیشن ‘‘تا فواد چوہدری
یہ امر خاصا دلچسپ ہے کہ پاکستان میں ایک بار پھر انتخابات کے طریقہ کار کے حوالے سے قومی سطح پر مباحثے کا آغاز ہو چکا ہے۔ حکومت کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کراتے ہوئے اپوزیشن اور سبھی سٹیک ہولڈرز کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے حکومت سے بات چیت کریں۔یاد رہے کہ اپریل 2021 میں ضمنی انتخابات میں سامنے آنے والی مبینہ بے ضابطگیوں کے بعد 19 مئی کو حکومت کی جانب سے وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے پارلیمنٹ ہاؤس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو انتخابی دھاندلی کے سدباب اور نئے طریقہ کار کے تحت انتخابات کے لیے پیش کیا تھا مگر اپوزیشن جماعتوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا بھر میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین ناکام ہو چکی ہے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی اس حوالے سے کسی حد تک اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
تاہم حکومت نے کامسیٹس یونیورسٹی کی تیار کردہ ووٹنگ مشین سیاستدانوں اور میڈیا کے معائنے کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس میں نمائش کے لیے رکھ دی۔ماہرین کے مطابق اس ا مر میں شائد ہی کسی کو شبہ ہو کہ بیتے 45برسوں میں انتخابات میں شکست کھانے والی سبھی جماعتوں کو انتخابات کی شفافیت کی بابت بہت سے تحفظات رہے ہیں اور کم و بیش ہر الیکشن ہارنے والی جماعت یہ شکایت کرتی رہی ہے کہ مذکورہ الیکشن شفاف نہیں تھے بلکہ دھاندلی زدہ تھے۔اس حوالے سے یہ بات بھی خاصی اہم ہے کہ وطن عزیز میںپہلے انتخابات دسمبر1970میں منعقد ہوئے تھے اور بالعموم اس امر پر اتفاق رائے پایا جا تا ہے کہ یہ الیکشن پاکستان کی انتخابی تاریخ کے شفاف ترین الیکشن تھے۔یہ ایک الگ امر ہے کہ اسی انتخاب کے نتائج نہ تسلیم کرنے کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا تھا۔یہ ایک لمبی بحث ہے کہ اس المناک صورتحال کا اصل ذمہ دار کسے قرار دیا جا سکتا ہے لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ بہرحال یہ سانحہ وقوع پذیر ہوا ۔ایک بڑے حلقے کی رائے میں اگر 1970کے انتخابی نتائج مان لیے جاتے تو شائد پاکستان دو لخت نہ ہوتا ۔بہر کیف یہ تلخ حقیقت ہے کہ تاریخ پاکستان کے اس سب سے بڑے المیے میں یحییٰ خان ،ذوالفقار علی بھٹواور دیگر بہت سے عوامل نے حسب توفیق اپنا اپنا حصہ ڈالا اور رہی سہی کسر بھارتی فوج اور را نے پوری کر دی ۔گویا بقول منیر نیازی
کس دا دوش سی کس دا نہیں سی
یہ باتیں اب بے معنی ہیں اوران سے تومحض سبق ہی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ 1970سے اب تک یہ معاملہ متنازعہ ہی رہا ہے اور تاحال صورتحال جوں کی توں ہے ۔اسی تناظر میں 25جولائی 2018کے انتخابات کا انعقاد ہوا جن کے نتیجے میں مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی اور پنجاب اور کے پی اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کو صوبائی سطح پر اقتدار ملا ۔البتہ سندھ میں پیپلز پارٹی نے صوبائی حکومت سنبھالی۔اس سارے معاملے کا یہ پہلو خاصا اہم ہے کہ مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس انتقال اقتدار کو 3سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود تا حال خوشدلی سے قبول نہیں کیا اور 2018کے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے گریز کیا اور ان انتخابات کو اپوزیشن جماعتیں دھاندلی زدہ قر ار دیتے نہیں تھک رہیں۔ایسے میں غالبا حکومت کا یہ فیصلہ صحیح قرار دینا چاہیے کہ انتخابی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے اور اسی تناظر میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابی عمل میں تبدیلی لائی جائے ۔اسی پس منظر میں کئی دوسری اصلاحات بھی کی جا رہی ہیں۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بھارت میں اس بابت ہونے والی انتخابی اصلاحات کو بھی پیش نظر رکھا جائے کیوں کہ وہاں بھی انتخابی اصلاحات کے حوالے سے گزشتہ برسوں میں خاصاکام ہوا ہے ۔خصوصا بھارت کے ایک سابقہ چیف الیکشن کمشنر ’ٹی این سیشن‘ کا کردار انتہائی نمایاں رہا ۔وہ ایساچیف الیکشن کمشنر تھا جس سے پاکستان کی سیاسی قیادت بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔’’نارائن آئیر سیشن‘‘ ایک ہندوستانی بیوروکریٹ تھے موصوف سابقہ مدراس (موجودہ تامل ناڈو) میں اور بھارت کی مرکزی حکومت کی مختلف وزارتوں میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دینے کے بعد، انہوں نے سن 1989 میں ہندوستان کے 18 ویں کابینہ کے سکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔وہ ہندوستان کے دسواں چیف الیکشن کمشنر مقرر ہوئے (1990-96) اور انتخابی اصلاحات کے سبب مشہور ہوئے۔انہیں 1989 میں 18 ویں کابینہ سکریٹری مقرر کیا گیااور وہ ہندوستانی سول سروس کے تنظیمی ڈھانچے میں سب سے سینئر ترین عہدے پر فائزہوئے۔ بعد میں منصوبہ بندی کمیشن کے ممبر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ وہ انتخابی اصلاحات کے سبب مشہور ہوئے۔ انہوں نے ہندوستان کے الیکشن کمیشن کو صحیح معنوں میں فعال کیا۔ سیشن نے سو سے زیادہ انتخابی کمزوریوں کی نشاندہی کی اور انتخابی عمل میں اصلاحات کیں ۔سیشن نے جو اصلاحات نافذ کیں ان میں انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد، تمام اہل ووٹرز کے لئے ووٹر آئی ڈی، انتخابی امیدواروں کے اخراجات کی ایک حد، انتخابات کا سامنا کرنے والی ریاستوں کے علاوہ دیگر صوبوں سے انتخابی عہدیداروں کی تقرری شامل ہیں۔ علاوہ ازیں موصوف نے ووٹرز کو رشوت دینے یا دھمکانے، انتخابات کے دوران شراب کی تقسیم، انتخابی مہم کے لئے سرکاری فنڈز اور مشینری کا استعمال، ووٹروں کی ذات یا فرقہ وارانہ جذبات کی اپیل جیسے متعدد بدعنوانیوں پر موثرطور پر پابندی عائد کی۔1999کے ہندوستانی عام انتخابات کے دوران، ان کی اصلاحات کی وجہ سے، 1488 امیدواروں کو اپنے اخراجات کے اکاؤنٹ پیش کرنے میں ناکام ہونے پر تین سال کے لئے نااہل کردیا گیا تھا۔ ’’سیشن ‘‘نے40,000 سے زیادہ اخراجات کے کھاتوں کا جائزہ لیا اور غلط معلومات پر 14000 امیدواروں کو نااہل کردیا۔
سیشن کا سب سے بڑا کارنامہ یہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حقیقی معنوں میں الیکشن اور اس کی ساکھ کو بحال کیا اور یہ موصوف کا ہی کریڈٹ ہے کہ بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین انتہائی معتبر قرار پائی اور انتخابی عمل کی گرتی ہوئی ساکھ کافی حد تک بحال ہوئی ۔یہ بات بھی خاصی دلچسپ ہے کہ اپنی ریٹائرڈ منٹ کے بعد کانگرس میں شمولیت اختیار کر لی اور 1999میں بھارتی صوبے گجرات کے دالحکومت گاندھی نگر سے لوک سبھاکا الیکشن ایل کے ایڈوانی کے مقابل لڑامگر الیکشن ہار گئے ۔موصوف 2019میں فوت ہوئے۔اس معاملے کا یہ پہلو بہر کیف توجہ طلب ہے کہ اتنی معتبر ساکھ رکھنے کے باوجود وہ عوامی میں سیاست میں ناکا م رہے جس سے جنوبی ایشیا ء کے عمومی مزاج کا کسی حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔