حال ہی میں بھارت میں رونما ہونے والی اہم تبدیلی ایک ایسا واقعہ ہے جو جنوبی ایشیاء کی عموماً اور پاکستان کی تاریخ پر خصوصاً اثر انداز ہوگی۔ لہٰذا اس پر نظر پھیرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ بھارت جسے دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے اہم جمہوریت قرار دیا جاتا ہے میں الیکشن ہوئے اور بھارت کے سابق وزیر اعظم نریندرا مودی بہت بڑے مارجن سے کامیاب ہوئے۔ لہٰذا انہوں نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے۔ الیکشن تو ہر ملک میں ہوتے رہتے ہیں اور لیڈرز آتے جاتے رہتے ہیں مگر یہ الیکشن دو باتوں کی وجہ سے بہت اہم ہے۔ اول مودی نے یہ الیکشن مسلمانوں اور پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر لڑا اور کامیاب ہوا۔ بھارت ایک لبرل اور سیکولر ملک شمار ہوتا ہے مگر اب پہلی دفعہ سیکولرازم کو پس پشت ڈال کر الیکشن لڑا گیا اور ہندتوا با الفاظ دیگر شدت پسند ہندو تنظیمیں کامیاب ہوئیں ۔بھارتی ہندو اب چندر گپت موریہ کے دور کا ہندو مذہب چاہتے ہیں۔ ’’سیفران ‘‘جو کہ ہندو ازم کی علامت ہے کی حکومت چاہتی ہیں۔ ہندو توا کی اس سوچ میںا قلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور کمتر فرقوں یعنی شودر، دلیت وغیرہ کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ ہندوستا ن میں اس وقت اندازاً19کروڑ مسلمان ہیں اور تقریباً اتنی ہی کمتر ہندو فرقوں کے لوگ ہیں۔ بد قسمتی سے اعلیٰ ذات کے ہندو کمتر ذات کے ہندوئوں کو قطعاً برداشت نہیں کرتے۔
حالت یہ ہے کہ کچھ دن پہلے ایک اخباری خبر کے مطابق ایک دلیت نوجون نے اپنی کمائی سے کار خریدی جب وہ کار میں بیٹھ کر سڑک پر آیا تو اعلیٰ ذات کے ہندوئوں سے برداشت نہ ہوا۔ انہوں نے کار روکی۔ دلیت نوجوان کو باہر نکال کر اسکی پٹائی کی۔ کار کو ڈنڈے مار کر توڑ دیا اور دلیت کو اس وقت چھوڑا جب وہ مشکل سے چل سکتا تھا۔ لہٰذا اب سب دلیتوں کو تنبیہ ہو گئی کہ اچھی زندگی گزارنا دلیتوں کا حق نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک دلیت نوجوان نے ایک اعلیٰ ذات کی لڑکی کو چھیڑنے کی غلطی کی۔ اسے ڈنڈے مار مار کر اس کی ہڈیاں توڑ دی گئیں۔ اسی طرح ’’ہولی’‘‘ کے دن کچھ مسلمان بچے گلی میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔ وہاں سے اعلیٰ ذات کے چند ہندو نوجوان گزرے۔ انہیں ’’ہولی‘‘ کے دن مسلمان بچوں کا کھیلنا پسند نہ آیا لہٰذا انہوں نے ان بچوں کی پھینٹی لگائی لیکن اس پر انکا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا۔لہٰذا ان کے گھر گئے ان کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو بھی مارا۔ باپ کی پسلیاں توڑ دیں۔ وہ شخص اتنی تضحیک اور بدمعاشی برداشت نہ کر سکا۔ لہٰذا علاقہ ہی چھوڑ دیا۔ ایک مسلمان لڑکا نماز پڑھ کر مسجد سے نکلا۔ سر پر ٹوپی پہن رکھی تھی۔ ہندو غنڈوں کو مسلمان لڑکے کی ٹوپی پسند نہ آئی تو اسے تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔
مسلمانوں کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی میں سے محض 22مسلمان ممبران منتخب ہوئے ہیں۔ اتنے بڑے ہائوس میں وہ کیسے اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کی بات کریں گے؟ ان حالات کے پیش نظر بھارتی مسلمانوں اور بھارتی دلیتوں کا مستقبل فی الحال تو تاریک نظر آتا ہے۔ ان لوگوں کے لئے اور کوئی راستہ نہیں سوائے ملکر اعلیٰ ذات کا مقابلہ کریں۔ بعض اوقات محض زندہ رہنے کے لئے بھی انسان کو ہتھیار اٹھانا پڑتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوگا۔
اس الیکشن کی دوسری خصوصیت جو نظر آتی ہے وہ مودی کی پاکستان کے خلاف نفرت ہے ۔ پچھلے پانچ سالوں سے پاکستان نے بارہا کوشش کی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے بھارت مذاکرات کی میز پر آئے اور ہم اپنے مسائل مہذب انداز میں مل کر حل کریں۔ بھارت نے کئی بار وعدے کئے۔ مذاکرات کی تاریخیں بھی مقرر کی گئیں۔ مگر آخری لمحے کسی نہ کسی وجہ سے کینسل ہو جاتی ر ہیں۔ اب تک تو یہی انداز چلا آرہا ہے۔ آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ الیکشن مہم کے دوران مودی نے پاکستان کو سبق سکھانے کے لئے پلوامہ کا واقعہ گھڑا۔ الزام سیدھا پاکستان پر لگایا۔ پھر پلوامہ کے واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان پر حملہ بھی کیا مگر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کہ پاکستان کو سبق سکھاتے سکھاتے اسے خود سبق سیکھنا پڑ گیا۔ ایسے لگتا ہے کہ مودی کے دل سے وہ کدورت دور نہیں ہوئی جسکا ثبوت مودی کی تقریب حلف برداری سے سامنے آئی ہے۔ مودی نے اس تقریب میں تمام پڑوسی ممالک کے رہنمائوں کو مدعو کیا۔ پانچ ہزار سے زائد مہمان تھے مگر مہمانوں کی لسٹ سے اگر کوئی خارج تھا تو وہ پاکستان تھا۔ پاکستان کا کوئی آدمی بھی اس تقریب میں شریک نہیں تھا۔ مقصد پاکستان کو بتانا تھا کہ پاکستان کی مودی کے سامنے کوئی حیثیت نہیں نہ ہی مودی کے دل میں پاکستان کی عزت ہے۔ حالانکہ پاکستانی وزیر اعظم جناب عمران خان نے مودی کو کامیابی کی مبارکباد دینے کے لئے خصوصی فون کیا۔ پاکستان سے مہمانوں کو نہ بلانا چشم کشا تھا۔ اس میں اب کوئی شک نہیں کہ اگلے پانچ سال میں دونوں ممالک کے تعلقات میں کسی بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی۔
مودی کی اسوقت پاکستان کے خلاف نفرت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔پاکستانی وزیر اعظم نے اب تک چار مختلف انداز میں نہ صرف مودی کو کامیابی کی مبارکباد دی ہے بلکہ مسائل کے حل کے لئے بار بار مذاکرات کی دعوت بھی دی ہے۔دو دفعہ ہمارے وزیر خارجہ نے بھی اپنے ہم مرتبہ بھارتی وزیر خارجہ کو مبارکباددی ہے اور مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی ہے مگر ہماری خیر سگالی اور تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کے لئے مذاکرات کی بار بار دعوت کاکسی نے بھی جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔نہ ہی مودی نے اور نہ ہی اسکے وزیر خارجہ نے۔مودی چن چن کر ایسے لوگوں کو اپنی کابینہ میں لایا ہے جو پاکستان کا وجودہ تک برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اقتدار میں آتے ہی بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ پاکستان سرحد پر چھیڑ خانی سے باز آجائے ورنہ ایک گولی کے بدلے دس گولیوں سے جواب دیا جائیگا۔نریندرا مودی نے تو اس سے بھی سخت بیان دیا ہے کہ ’’کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔کشمیر کسی بھی قیمت پر علیحٰدہ نہیں ہونے دیا جائیگا‘‘ ۔اگر بھارت کشمیر پر بات ہی نہیں کرتا تو بھلا مزید کس قسم کے مذاکرات ممکن ہونگے؟بھارت دنیا کا مہنگا ترین اور مہلک ترین ائیر ڈیفنس سسٹم S 400پہلے ہی روس سے خرید چکا ہے۔ اقتدار میں آتے ہی اسرائیل سے تین ہزار بنکر بسٹر میزائل کا سودا کیا ہے ۔نئے ہتھیاروں کی خریداری کے لئے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
امریکہ نے ڈرونز اور جنگی ہیلی کاپٹرز دینے کا عندیہ دیا ہے۔ امید ہے کہ وہ بہت جلد اسے مل جائیں گے۔ مودی کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات نہیں رکھنا چاہتا۔ پاکستان توڑنے (خدانخواستہ) کی مودی کی پرانی خواہش ایک دفعہ پھر مودی کا ایجنڈا نمبر1بن چکا ہے۔ بلوچستان میں دہشتگردی چل رہی ہے۔ ہماری تمام تر کو ششوں کے باوجود گو کم ضرور ہوئی ہے مگر اب تک ختم نہیں ہوئی۔ بلوچستان کے ساتھ ساتھ اب فاٹا میں بھی دہشتگردی پھر شروع ہو چکی ہے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فاٹا کو پاکستان سے توڑنے کی یہ صرف ابتدا ہے۔پاکستان جہاں اتنے سال تحریک طالبان کے خلاف جنگ لڑا ہے ۔اتنی قربانیاں دی ہیں ۔بڑی مشکل سے علاقے میں امن قائم ہوا مگر اب یہ نئی تحریک خدا جانے کیا رنگ لائے۔ پاکستان کو چاہیے کہ اس تحریک کو پروان چڑھنے سے پہلے ہی ختم کر دے۔ اس تحریک کے ایکٹرز تو سامنے آ ہی چکے ہیں اور یہ بھی پتہ چل چکا ہے کہ بھارت اور افغانستان اس تحریک کی پشت پر ہیں۔
ایسے نظر آتا ہے کہ بھارت پاکستان پر کاری ضرب لگانے کی تیاری کررہا ہے۔جیسے ہی اسے موقع ملا وہ اپنی کمینی حرکت سے باز نہیں آئیگا۔بد قسمتی سے پاکستان اس وقت معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ اپوزیشن متحد ہو کر حکومت گرانے کے لئے سڑکوں پر آگئی ہے۔ مہنگائی زوروں پر ہے اس لئے عوام بھی موجودہ حکومت سے نالاں ہیں۔ ایسے حالات تو بھارت اربوں روپے خرچ کر کے بھی پیدا نہیں کر سکتا جو خود بخود یہاں پیدا ہو گئے ہیںاور یہ حالات عین بھارت کی مرضی کے مطابق ہیں۔ ہم دشمن کو خود تخریب کاری کی دعوت دے رہے ہیں۔دعا ہے کہ ہمارے لیڈروں کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے ۔آپس کی نفرتیں ختم کر کے پاکستان کی سلامتی کے لئے متحد ہو جائیں۔ وطن سے پیاری دنیا میں کوئی چیز نہیں ۔کشمیر اور فلسطین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024